بہار کا چمکی بخار اور ہمارا افسوس ناک رویہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

        بیماری اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی آتی ہے؛ لیکن اس کے دورکرنے کے لئے تدبیراختیارکرنے سے روکانہیں گیاہے؛ بل کہ اس کاحکم دیاگیا؛ چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! علاج کراؤ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں رکھی ، جس کے لئے شفانہ رکھی ہو، سوائے ایک بیماری کے، پوچھاگیا: کونسی بیماری؟ جواب دیا: بوڑھاپا(سنن الترمذی، حدیث نمبر:۲۰۳۸)۔

        اسلام نے چوں کہ اپنے ماننے والوں کوہرطرح سے رہنمائی کی ہے، کہیں ایسا کوئی موقع نہیں چھوڑا، جہاں رہنمائی نہ کی گئی ہو؛ چنانچہ بیماری آنے کی صورت میں کیاکرناچاہئے؟ اس سلسلہ میں جہاں ایک رہنمائی یہ کی گئی ہے کہ اس کامعقول علاج کرایاجائے، وہیں یہ بھی رہنمائی کی گئی ہے کہ بیمارکوتسلی دی جائے؛ کیوں کہ یہ حالت ایسی ہی ہوتی ہے، جہاں انسان یہ چاہتاہے کہ کوئی اس کی ڈھارس بندھائے، اس کے ساتھ دومیٹھے بول بولے، پھریہ خواہش صرف مریض کی ہی نہیں ہوتی؛ بل کہ اس کے رشتہ داروں کی بھی ہوتی ہے۔

         اسلام نے انسان کے اسی مزاج کوسامنے رکھتے ہوئے مریض کی عیادت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے، نبی کریم ﷺ کاارشادہے: جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کوجاتاہے تووہ (اللہ تعالیٰ کی)رحمت میں داخل ہوجاتاہے؛ حتی کہ جب وہ (عیادت کے لئے)بیٹھ جاتاہے تومستقل طورپررحمت میں آجاتاہے(الأدب المفرد، حدیث نمبر:۵۲۲)، ایک دوسری حدیث میں ارشادہے: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے بنوآدم! میں بیمارہوا، تم نے میری عیادت نہیں کی، بندہ کہے گا: کیسے آپ کی عیادت کرتا، آپ تورب العالمین ہیں ؟ اللہ فرمائے گا: کیاتجھے معلوم نہیں کہ میرافلاں بندہ تھا توتم نے عیادت نہیں کی؟ کیاتجھے معلوم نہیں کہ اگرتواس کی عیادت کوجاتاتومجھے بھی وہیں پاتا… (مسلم، باب فضل عیادۃ المریض، حدیث نمبر: ۸۵۸۸)۔

        ابھی کچھ دنوں سے بہارکے مظفرپورمیں ایک ایسی بیماری آئی ہے، جوایک سودس سے زائدبچوں کواپنالقمۂ تربناچکی ہے، ظاہرہے کہ یہ بیماری آئی تواللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے بچاؤ کے لئے کیاتدابیراختیارکی گئیں ؟ جس مقداردواؤں کی ضرورت ہے، اتنی مقدارمیں مہیاکی گئیں ؟ ہمارے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک ذہین دماغ موجودہے، ان بارہ سالوں میں کئی میزائلوں کاتجربہ کیاجاچکاہے، سٹلائٹ خلامیں بھیجاجاچکاہے، تقریباً بارہ سالوں سے مئی جون میں آنے والی اس بیماری کاپتہ اب تک کیوں کرنہیں لگایاجاسکا؟ یاتواس کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی، یاپھریہ سوچ لیاگیاکہ ایک جان کی قیمت میزائل اورسٹلائٹ سے کم ترہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ان لوگوں کے مشوروں کوعمل کی کوشش کی جارہی ہو، جوملک میں آبادی کم کرنے پرزوردیتے رہتے ہیں ، ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چوں کہ عموماً موت کے منھ میں جانے والہ بچوں کاتعلق غریب اورپسماندہ گھرانے سے ہے؛ اس لئے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ بچوں کی اتنی بڑی تعدادمیں فوت ہوجانے کے باوجودبہارکے وزیراعلی نتیش کماراٹھارہ دن کے بعد مظفرپورپہنچے، جب وزیراعلی کایہ حال ہے توان سے ادنی وزاراء ہیں ، ان کاپھرپوچھناہی کیا؟ حدتویہ ہے کہ ہیلتھ منسٹرنے بھی اپنی ذمہ داری ادانہیں کی، اورلوگوں کی مانیں توڈاکٹرس حضرات بھی سرکاری تنخواہ لینے باوجوددواخانوں میں بروقت موجودنہیں ہوتے، شایدیہ سب ملی بھگت ہو، تبھی توکسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔

        یہ بیماری، جسے چمکی بخارکانام دیاجارہاہے، خطرناک صورت حال اختیارکرچکی ہے؛ لیکن افسوس ان نیتاؤوں سے کہیں زیادہ مجھے اُن اپنوں سے ہے، جوبڑی بڑی تنظیموں کے قائدہیں ، جوتنظیمیں قوم سے خوب خوب روپے بھی وصول کرتی ہیں خدمت خلق کے نام پر، سوال ان سے ہے کہ انھوں نے اب تک مددوتعاون کے لئے ریلیف کیمپ قائم کیوں نہیں کئے؟ کیاسیلاب اورزلزلہ کے متاثرین ہی ان کے دائرے میں آتے ہیں ؟ کیاان سے اس کی بابت پوچھ نہیں ہوگی؟ کیاوہ دوسرے صوبوں سے دواؤں اورمختلف ضروریات کی چیزوں کاکھیپ تیارکرکے نہیں لاسکتے؟ یہ توانسانیت کامسئلہ ہے، قرآن نے ایک جان بچانے کوپوری انسانیت کی جان بچانے سے تعبیرکیاہے، کیایہ ان سے پوشیدہ ہے؟ بچے توبے گناہ ہوتے ہیں ، معصوم ہوتے ہیں ، کیاپتہ ان معصوموں کی جان کے بدلہ ہی میں ہمیں جنت نصیب ہوجائے۔

        میری گزارش ہے قوم کے ہمدردوں سے، تنظیموں کے قائدین اورمالکان سے کہ جس طرح سیلاب وزلزلہ سے متاثرین کے لئے آپ آگے آتے ہیں اوروہاں مذہبی چشمہ اتارپھینکتے ہیں ، اللہ کے لئے یہاں بھی اتارپھینکئے اورتمام تنظیمیں مل جل کرتمام ترضروریات مہیاکرانے کی کوشش کریں ، ان شاء اللہ اس کابڑااجراس اللہ کے یہاں ملے گا، جس نے ایک فاحشہ کوایک پیاساکتے کوپانی پلانے کے عوض معاف کردیاتھا؛ لیکن اگرتوجہ نہیں دی گئی توکل قیامت کے دن پوچھ سے نہیں بچ سکتے۔

تبصرے بند ہیں۔