سود اور اس کی حرمت (قسط 9)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

بینکوں سے حاصل ہونے والا سود

      موجودہ دور میں بینک، تجارت اور اموال و نقود کی حفاظت کے لیے ایک اہم ترین ضرورت کی شکل اختیار کر گئی ہے، خاص کر تجارت پیشہ لوگوں کے لیے اس کے ذریعہ لین دین کرنا اور بیرونی شہر و ممالک میں اپنے ہم پیشہ افراد کے پاس اس کے ذریعہ روپیہ ٹرانسفر کرنا ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے، ہمیں اس کی بعض اہم افادی اور نفع بخش پہلوؤں سے انکار نہیں ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بینکوں سے حاصل ہونے والے سود کی حرمت پر اہلِ علم کا اجماع ہے، اگر اس میں موجود سودی خامیوں کو دور کر دیا جائے تو یہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری دنیائے انسانیت کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوگی اور آپسی لین دین کے معاملات میں سہولت و آسانی ہوگی۔ چناں چہ موجودہ بینکنگ نظام کی کچھ خدمات ایسی ہیں کہ ان کے بدلے اگر مناسب فیس لی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی، مثلاً ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ کو منتقل کرنے کی اجرت و فیس، بیرونی ممالک میں اپنی خدمات دینے اور سہولتیں فراہم کرنے اور اے ٹی ایم کارڈ جاری کرنے کی اجرت و فیس وغیرہ۔ بہرحال موجودہ سودی بینکوں کی جانب سے دیا جانے والا مخصوص اضافی رقم خالص سود ہے اور اسے لے کر اپنے مصرف میں لانا حرام و ناجائز ہے۔ فتویٰ جاری کرنے والی دائمی کمیٹی سعودی عرب کے مفتیانِ کرام کا کہنا ہے کہ :

      (لا يجوز للشخص أن يودع نقوده عند البنك، والبنك يعطيه زيادة مضمونة سنويا -مثلا- ولا يجوز أيضا أن يقترض من البنك بشرط أن يدفع له زيادة، في الوقت الذي يتفقان عليه لدفع المال المقترض، كأن يدفع له عند الوفاء زيادة خمسة في المائة، وهاتان الصورتان داخلتان في عموم أدلة تحريم الربا من الكتاب والسنة والإجماع، وهذا واضح بحمد الله.

      وأما التعامل مع البنوك بتأمين النقود بدون ربح وبالتحويلات، فأما بالنسبة لتأمين النقود بدون ربح؛ فإن لم يضطر إلى وضعها في البنك فلا يجوز أن يضعها فيه؛ لما في ذلك من إعانة أصحاب البنوك على استعمالها في الربا، وقد قال تعالیٰ : ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ [المائدة: 2] وإن دعت إلى ذلك ضرورة فلا نعلم في ذلك بأسا إن شاء الله. وأما بالنسبة لتحويل النقود من بنك لآخر ولو بمقابل زائد يأخذه البنك المحول فجائز؛ لأن الزيادة التي يأخذها البنك أجرة له مقابل عملية التحويل.)

      ’’کسی شخص کے لیے اپنے نقود کو بینک میں رکھنا جائز نہیں ہے اس طرح کہ بینک اسے مثلاً سالانہ کچھ زائد رقم دینے کی ضمانت دے۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ بینک سے اس شرط پر قرض لے کہ وہ اسے کچھ زائد ادا کرے گا اس وقت میں جس پر دونوں متفق ہو جائیں کہ وہ قرض دینے والے کا مال اتنے وقت میں لوٹا دے گا، مثال کے طور پر ادائیگی کے وقت وہ پانچ فیصد زائد ادا کرے۔ یہ دونوں صورتیں ربا کی حرمت سے متعلق کتاب و سنت کے دلائل اور حرمتِ ربا کی اجماع کے عموم میں داخل ہیں۔ الحمد للہ یہ معاملہ بالکل واضح ہے۔ اور رہی بات فائدہ کے بغیر اپنے نقود کی حفاظت کی خاطر بینکوں کے ساتھ معاملہ کرنا اور ان کے ذریعہ اپنے نقود منتقل کرنا۔ تو اگر انسان محض نقود کی حفاظت کی خاطر فائدے کے بغیر ہی بینک میں رکھنے کے لیے مجبور و مضطر نہ ہو تو اپنے نقود کو بینک میں رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں بینکوں کے مالکان کے ساتھ تعاون پایا جاتا ہے کہ وہ ان نقود کو سود میں استعمال کریں گے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

       ترجمہ : ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو نیز گناہ اور سرکشی کے کاموں میں مدد نہ کرو۔‘‘ [المائدة: 2]

      اور اگر اس بات کے لیے کوئی ضرورت متقاضی ہو تو پھر ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، إن شاء الله۔

      اور رہی بات ایک بینک سے دوسرے بینک کی طرف نقود منتقل کرنے کی تو یہ جائز ہے اگرچہ بینک اس کے مقابلے میں کچھ زائد رقم بطور چارج وصول کرے کیوں کہ جو زائد رقم بینک لیتا ہے وہ رقم کے منتقلی کی اجرت ہوتی ہے۔‘‘ [فتاویٰ اللجنة الدائمة 13 /370-371 فتویٰ نمبر: 1670]

      اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں :

      (أما وضع المال في البنوك بالفائدة الشهرية أو السنوية فذلك من الربا المحرم بإجماع العلماء، أما وضعه بدون فائدة فالأحوط تركه إلا عند الضرورة إذا كان البنك يعامل بالربا لأن وضع المال عنده ولو بدون فائدة فيه إعانة له على أعماله الربوية فيخشى على صاحبه أن يكون من جملة المعينين على الإثم والعدوان وإن لم يرد ذلك، فالواجب الحذر مما حرم الله والتماس الطرق السليمة لحفظ الأموال وتصريفها، وفق الله المسلمين لما فيه سعادتهم وعزهم ونجاتهم، ويسر لهم العمل السريع لإيجاد بنوك إسلامية سليمة من أعمال الربا إنه ولي ذلك والقادر عليه، وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه.)

      ’’بینکوں میں ماہانہ یا سالانہ فائدہ کی بنیاد پر مال رکھنے کا تعلق سود سے ہے اور بإجماع علما حرام ہے۔ البتہ فائدہ لیے بغیر رکھنے میں بھی زیادہ مناسب یہ ہے کہ ضرورت کے بغیر نہ رکھا جائے کیوں کہ جب بینک سودی کاروبار کرتا ہے تو فائدہ کے بغیر بھی اس میں مال رکھنا سودی معاملات میں تعاون کرنا ہوگا اس لیے اس بات کا ڈر ہے کہ صاحبِ مال بھی گناہ اور سرکشی پر مدد کرنے والوں میں شامل نہ ہو جائے گرچہ اس کا ارادہ تعاون کرنے کا نہ ہو۔ اس لیے واجب ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اس سے بچا جائے، اور اپنے اموال کی حفاظت و تصرف کے لیے (سود سے) پاک و صاف طریقے تلاش کیے جائیں۔ اللہ مسلمانوں کو ایسے کام کی توفیق دے جس میں ان کے لیے سعادت، عزت اور نجات ہو اور ان کے لیے جلد از جلد سود سے پاک اسلامی بینکوں کے قیام کو آسان بنائے۔ بیشک وہی اس پر قادر و کارساز ہے۔‘‘ [مجموع فتاویٰ ابن باز 4 /311]

      چناں چہ بینکوں میں رقم جمع کرنے کی بنا پر سودی بینکوں کی جانب سے جو زائد اضافی رقم متعین شرحِ فیصد کے ساتھ ملتا ہے یا بینک سے قرض لینے پر جو مخصوص اضافی رقم دینا پڑتا ہے یہ سب سود کی واضح صورتیں ہیں اس لیے اس کا لینا دینا حرام ہے۔ چوں کہ بینکوں میں جو رقم بطور امانت جمع کیا جاتا ہے وہ امانت کے شرعی مفہوم سے نکل جاتا ہے کیوں شریعت میں امانت اسے کہتے ہیں جو امانت دار کے پاس اسی حالت میں محفوظ رہے جس حالت میں اسے رکھا گیا ہے اور اس میں کسی طرح کا تصرف نہ کیا جائے، اور یہ معلوم بات ہے کہ بینک اس جمع شدہ مال میں تصرف کرتا ہے اس لیے اس کی شرعی حیثیت قرض کی ہو جاتی ہے اور قرض پر لیا جانے والا مشروط اضافہ سود ہے جیسا کہ گذشتہ صفحات میں اسے تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ بینکوں کے سود میں ربا الفضل (اضافہ کا سود) اور ربا النسیئۃ (مدت ادھار کا سود) دونوں پایا جاتا ہے، ایک تو نقد کے بدلے نقد کا تبادلہ ادھار کی صورت میں ہوتا ہے اور دوسرے کمی بیشی کے ساتھ ہوتا ہے۔

      بنا بریں سودی بینکوں سے لین دین رکھنا یا اس میں شراکت حاصل کرنا بھی حرام ہے اس لیے کہ حرام کام میں مدد و معاونت کرنا بھی حرام ہے، اس کی حرمت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے مگر چوں کہ یہاں ہمارے ہندوستان وغیرہ میں اس کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں ہے اس لیے سرمائے کی حفاظت اور تجارتی امور کے معاملات میں سہولت و آسانی اور کچھ دیگر حکومتی امور میں مجبور ہونے کی بنا پر علما نے اضطرار و مجبوری کی بنیاد پر ان سودی بینکوں میں کھاتا کھلوانے کے جواز کی بات کہی ہے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں :

      (لا يجوز التأمين في البنوك الربوية ولو لم يأخذ فائدة؛ لما في ذلك من إعانتها على الإثم والعدوان، والله سبحانه قد نهى عن ذلك، لكن إن اضطر إلى ذلك ولم يجد ما يحفظ ماله فيه سوى البنوك الربوية، فلا حرج إن شاء الله؛ للضرورة، والله سبحانه يقول:

﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾ [الأنعام : 119]

      ومتى وجد بنكا إسلاميا أو محلا أمينا ليس فيه تعاون على الإثم والعدوان يودع ماله فيه لم يجز له الإيداع في البنك الربوي.)

      ’’سودی بینکوں میں نقود رکھنا جائز نہیں ہے خواہ اس پر فائدہ نہ لیا جائے، کیوں کہ اس میں گناہ اور سرکشی پر مدد کرنا پایا جاتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس سے روکا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس کے لیے مجبور ہو اور اپنے مال کی حفاظت کے لیے سودی بینکوں کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہ پائے تو ضرورت کے تحت اس میں کوئی حرج نہیں ہے، إن شاء الله۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے :

      ترجمہ : ’’یقیناً اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں واضح کر دی ہیں جو تم پر حرام کی ہیں مگر جس کی طرف تم مجبور ہو جاؤ۔‘‘

      اور جب وہ کوئی اسلامی بینک پالے یا کوئی ایسی مامون جگہ دستیاب ہو جائے جہاں مال بطور امانت رکھنے میں گناہ اور سرکشی پر تعاون نہ ہو تو پھر اس کے لیے سودی بینک میں مال رکھنا جائز نہیں ہوگا۔‘‘ [مجموع فتاویٰ ابن باز 19 /414]

      یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ بدرجہ مجبوری یہ اجازت ہے لہذا بلا ضرورت فکس ڈپازٹ کرنا، سودی بینکوں سے لون اٹھانا، کریڈٹ کارڈ لے کر اس سے فائدہ اٹھانا اور کسی ضرورت کے بغیر مختلف سودی بیمہ پالیسیوں کو اپنانا قطعاً درست نہیں ہے۔ اسی بنیادی بات سے اس فکر و فلسفے کی بھی تردید ہو جاتی ہے کہ جب بینک ہمارے سرمائے سے خوب خوب کمائی کرتا ہے تو اس کا دیا ہوا معمولی نفع ہمارے لیے کیونکر حرام ہوگا جب کہ ہمارا مقصود نفع کمانا نہیں ہوتا ہے؟ گرچہ ہم نفع حاصل کرنے کی غرض سے بینکوں میں پیسہ نہیں جمع کرتے ہیں مگر ہمارا بنیادی مقصد اضطراری صورت میں اپنے پیسوں کی حفاظت، حکومتی پالیسیوں کی انجام دہی یا بعض تجارتی امور میں سہولت حاصل کرنا ہوتا ہے اور جب یہ مقصد اضطراری صورت میں ہم حاصل کر لیے تو پھر اس سے آگے بڑھنا ہمارے لیے کیونکر درست ہوگا؟ اور پھر وہ نفع مختلف طرح کے سودی قرضوں ہی سے حاصل شدہ رہتا ہے اس لیے اس نفع کو لینا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ درحقیقت اسلام میں منافع حاصل کرنے کا ذریعہ تجارت ہے اور جو مال بطور قرض یا بطور امانت دیا جائے اس سے متعین طور پر فقط منافع حاصل کرنا ہی سود ہے۔

      اب سوال یہ ہے کہ آخر بینک سے ملنے والے اس رقم کو کیا کیا جائے؟ اسے بینک ہی میں چھوڑ دیا جائے یا پھر نکال کر کہیں خرچ کر دیا جائے؟ اس سلسلے میں یہ بنیادی بات ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے کہ بہرحال وہ خبیث و ناپاک مال ہے اور بلاشبہ اپنے یا اپنی اولاد اور اپنے زیرِ کفیل لوگوں کے استعمال کے لیے اسے لینا حرام ہے، اور کہیں کسی بھی مصرف میں اسے صرف کرنے پر ثواب نہیں دیا جائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ خبیث مال قبول نہیں فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض علما اس نفع کو لینے اور کسی بھی مصرف میں اسے لگانے کے قطعی قائل نہیں ہیں کیوں کہ انسان طبعاً حریص واقع ہوا ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ اسے اپنے مصرف میں بھی لے لے یا آئندہ اس کی آل اولاد اس کی حرمت کو محسوس نہ کریں اور اس کا شکار ہو جائیں، اور پھر کتاب و سنت کے نصوص واضح طور پر اسے لینے کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں اس لیے اس کا نہ لینا ہی درست معلوم ہوتا ہے۔ مگر چوں کہ ہمارا تعلق جس ملک سے ہے یہاں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ رقم ہمارے ہی خلاف استعمال کیا جائے اس لیے اس رقم کو یہاں کے ان سودی ظالموں کے لیے چھوڑ دینا بھی خلافِ مصلحت معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم اسے اپنے اصلی سرمائے سے بالکل الگ رکھیں بلکہ اگر وسیع تجارت اور کافی سودی رقم ہے تو اس کے لیے علیحدہ اکاؤنٹ رکھیں تو زیادہ بہتر ہوگا تاکہ گھر کے سبھی افراد کے علم میں وہ رہے اور کسی ناگہانی حالت میں وہ اسے اپنے مصرف میں نہ لائیں۔ اور جس طرح اضطراری طور پر یہ زائد رقم ہماری چاہت و طلب کے بغیر ہمارے اکاؤنٹ میں آیا ہے اسی طرح اضطرار و مجبوری والی جگہوں میں اسے خرچ کر دیں یعنی ایسے نادار، مجبور، مفلس اور آفات میں گھرے لوگوں پر خرچ کیا جائے جن کے لیے بوقت مجبوری حرام کھانا جائز ہو جاتا ہے اور پھر اس پر ثواب کی عبث امید بھی نہ رکھیں کیوں کہ سود خباثت و گندگی ہے اور اللہ رب العزت صرف پاکیزہ مال قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾

      ترجمہ : ’’اے ایمان لانے والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالا ہے، اور گندی چیز خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو، حالاں کہ (وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے تو) تم اسے ہرگز لینا گوارا نہ کرو مگر یہ کہ تم اس سے چشم پوشی کر جاؤ، اور جان لو! بیشک اللہ بڑا بے نیاز بڑی خوبیوں والا ہے۔‘‘ [البقرة : 267]

      ہمارے یہاں یہ عام رواج چل پڑا ہے کہ سودی رقم چوں کہ گندگی ہوتی ہے اس لیے اس سے بیت الخلا بنوا دیا جائے، جس کی وجہ سے لوگ ہر عام و خاص کا بیت الخلا سودی اموال سے بنواتے پھرتے ہیں بلکہ جن کے خرچ کی کفالت ان کے ذمہ ہوتی ہے ان پر بھی سودی رقم خرچ کرتے ہیں، حتی کہ مساجد کے اجابت خانوں (ٹوائلٹ) کے بنوانے میں بھی سودی رقم صرف کرتے ہیں اور اس پر یہ سمجھتے ہیں کہ سودی رقم ہم اپنے مصرف میں نہیں لا رہے ہیں، یہ کیسی خام خیالی ہے!! سود کی حرمت سے متعلق شریعت میں جتنی شدت اختیار کی گئی ہے اسے دیکھتے ہوئے اس طرح کا رویہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔

      سودی رقم کے مصرف سے متعلق میں یہاں شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ کے فتاویٰ میں سے دو اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ شیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

      ’’روپیے پیسے کی حفاظت کا بینک کے علاوہ کوئی دوسرا محفوظ ذریعہ نہ ہو تو بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھولنا جائز ہے، اور اس صورت میں بینک سے جس قدر سود کی رقم ملے اسے بینک میں چھوڑا نہ جائے بلکہ نکال لیا جائے، لیکن اس کو اپنی یا اپنے کسی عزیز بلکہ کسی بھی مسلمان کی ضرورت جائزہ خاصہ یا مشترکہ میں صرف نہ کیا جائے، اس سے بیت الخلاء یا پلیا یا سڑک اور نہر وغیرہ بھی نہ بنوائی جائے، بلکہ کسی غریب غیر مسلم پر خرچ کر دی جائے، یا کسی ایسے کالج یا اسکول میں دے دی جائے جس میں پڑھنے والے صرف غیر مسلم ہوں، یا ایسے سرکاری ٹیکسوں میں خرچ کر دی جائے جو شرعاً محض جبر و ظلم اور ناحق ہیں، مثلاً بکری ٹیکس (سیلس ٹیکس) یا انکم ٹیکس یا ہاؤس ٹیکس وغیرہ۔ کسی بھی سودی رقم کا کسی مسلمان کی ضروریات میں خرچ کرنا، خواہ وہ کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو جائز نہیں ہے۔ یہ مال خبیث ہر مسلمان (مضطر مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں جیسا کہ آنے والے فتویٰ میں اس کی وضاحت موجود ہے) کے حق میں بہرحال خبیث ہی ہے۔ هذا ما ظهر لي والعلم عند الله تعالیٰ۔‘‘ [فتاویٰ شیخ الحدیث مبارک پوری جلد دوم ص: 367]

      شیخ رحمہ اللہ اپنے ایک دوسرے فتویٰ میں لکھتے ہیں :

      ’’سودی رقم چاہے اپنی ہو یا کسی دوسرے کی، اس کو بغیر اضطرار اور مجبوری کے اپنی ذات پر یا ان لوگوں پر جن کا نفقہ شرعاً آپ پر لازم ہو، خرچ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ سودی رقم سے کسی مسلمان کے لیے بلا اضطرار کسی قسم کے انتفاع کی صورت درست نہیں ہے۔ خوراک، لباس، پوشاک، دوا علاج، تعمیر مکان جس میں حمام، غسل خانہ اور نالی بنوانا، گلی میں کھڑنجا بچھوانا اور پلیا بنوانا، بجلی لگوانا سب شامل ہے۔ ان میں سے کسی صورت میں بھی صرف کرنا جائز نہیں ہے، اور اپنے کسی ملازم اور نوکر چاکر یا خادم پر بھی، مرد ہو یا عورت، صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ سود کی رقم کا مصرف سیلاب یا فسادات میں تباہ شدہ لوگ ہیں، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، اضطرار کی حالت میں جس طرح دوسرے اموال حرام کا بقدرِ ضرورت استعمال کرنا ایک ’’مضطر‘‘ مسلمان کے لیے جائز ہے، اسی طرح سود کی رقم کا بھی استعمال، اس کے لیے جائز ہے۔‘‘ [ایضاً جلد دوم ص: 549]

      بعض دیگر اہلِ علم، مجبوری کی حالت میں آنے والے سودی مال کو اپنی اور اپنے متعلقین کی ذات کو چھوڑ کر ہر کارِ خیر میں خرچ کرنے کے قائل ہیں۔ جیسا کہ سماحۃ الشیخ عبد العزیز ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

      (أما ما أعطاك البنك من الربح فلا ترده على البنك ولا تأكله، بل اصرفه في وجوه البر؛ كالصدقة على الفقراء، وإصلاح دورات المياه، ومساعدة الغرماء العاجزين عن قضاء ديونهم، وعليك التوبة من ذلك، ولا يجوز لك أن تعامل البنك بالربا ولا غير البنك؛ لأن الربا من أقبح الكبائر.)

      ’’بینک جو کچھ آپ کو نفع دے اسے بینک کی طرف نہ لوٹاؤ اور اسے آپ بھی نہ کھاؤ بلکہ اسے نیکی کے کاموں میں صرف کر دو مثلاً فقرا پر صدقہ، نالیوں وغیرہ کی اصلاح و مرمت، اپنے قرضوں کے ادا کرنے سے عاجز مقروضوں کی مدد وغیرہ۔ آپ کا سودی بینکوں کے ساتھ معاملہ رکھنے کی وجہ سے توبہ کرنا واجب ہے، آپ کے لیے بینک کے ساتھ یا بینک کے سوا کسی اور کے ساتھ سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ سود انتہائی قبیح کبائر میں سے ہے۔‘‘ [مجموع فتاوى ابن باز 19 /268]

      اسلامی فقہ کونسل نے رابطہ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ کے دفتر میں 1406ھ میں منعقد ہونے والی اپنی نویں اجلاس میں جو قرارداد پاس کی تھی اس میں سے ایک یہ بھی ہے :

      ’’ہر وہ مال جو سودی نفع کے طور پر حاصل ہو وہ شرعاً مالِ حرام ہے، لہٰذا کسی بھی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خود یا اس کے اہلِ خانہ میں سے کوئی اپنی کسی بھی ضرورت کے لیے استعمال کرے بلکہ واجب ہے کہ اسے مسلمانوں کی بہبود کے عام منصوبوں مثلاً سکولوں یا ہسپتالوں وغیرہ پر خرچ کر دیا جائے یہ صدقہ تو نہیں ہوگا لیکن اس سے ان کا مال حرام سے پاک ہو جائے گا۔ سودی فوائد کو سودی بینکوں ہی میں رہنے دینے جائز نہیں کیوں کہ اس سے سودی بینکوں کو تقویت حاصل ہوگی اور اگر یہ بینک غیر ملکی ہو تو اس میں سودی رقم چھوڑ دینے میں اور بھی زیادہ گناہ ہے کیوں کہ یہ رقم عموماً عیسائی اور یہودی اداروں پر خرچ کی جاتی ہے اور اس طرح مسلمانوں کے مال مسلمانوں ہی کے خلاف جنگ میں اسلحہ کے طور پر اور مسلمانوں کی اولاد کو ان کے عقیدے سے دور کر کے گمراہ کر دینے میں صرف ہوتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہے کہ نفع لیے یا نہ لیے بغیر ان سودی بینکوں کے ساتھ ہمیشہ لین دین کرتے رہنا بھی جائز نہیں ہے۔‘‘ [فتاویٰ اسلامیہ جلد دوم ص: 510]

      سودی مال کو صرف کرنے سے متعلق علما کے یہ دو طرح کے موقف ہیں ان میں سے آپ کسی پر بھی عمل کر سکتے ہیں جس پر آپ کو شرحِ صدر اور اطمنان حاصل ہو، مگر مجھے شیخ الحدیث علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ کا موقف زیادہ راجح اور أقرب إلی الحق معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ایک مسلمان شخص کے لیے سودی رقم کا استعمال کرنا بلا اضطرار و مجبوری کے درست نہیں معلوم ہوتا ہے خواہ وہ سودی رقم اس کے مال پر ملا ہو یا کسی اور کے مال پر ملا ہو بہرحال وہ سود ہی ہے۔

تعلیمی اخراجات کی فراہمی کے لیے سود یا سودی قرض لینا

      ابھی اوپر جو تفصیل پیش کی گئی ہے اس کی رو سے یہ بات واضح ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی حصول کے لیے ایک مسلمان طالبِ علم کے لیے سود کا لینا جائز نہیں ہے کیوں کہ سود کی حرمت امیر و غریب ہر ایک کے لیے عام ہے، اور یہ واضح حقیقت ہے کہ اسلام کی لازمی بنیادی تعلیمات کو ہم سودی قرض اور سود لیے بغیر بھی حاصل کر سکتے ہیں، باقی رہی بات تعلیمی میدان کے کسی بھی شعبے میں امتیاز و اختصاص حاصل کرنے کی غرض سے سود کا لینا تو یہ درست نہیں ہے اس لیے کہ تعلیمی میدان میں امتیاز و اختصاص پیدا کرنا ہر  انسان کے اوپر واجب نہیں ہے کہ آدمی اس وجوب کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو مجبور و مضطر سمجھے اور اس طرح اس کے لیے سود کا استعمال کرنا جائز ہو جائے؟   لہذا تعلیمی میدان میں مزید ترقی اور پیش رفت کے لیے سودی رقم کا لینا جائز و درست نہیں ہے، یہی بیشتر اہلِ علم کا موقف ہے اور جب سود کا لینا درست نہیں ہے تو پھر ایسی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے سودی قرض کا لینا بھی درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح طلبہ کی تعلیمی پالیسی کی خاطر والدین کا ان کے نام سودی بینکوں میں اس غرض سے بالاقساط روپیہ جمع کرنا کہ جب بچہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی عمر کو پہنچ جائے تو جمع شدہ رقم دگنی ہو جائے گی اور اس سے بچے کے تعلیمی اخراجات پورے ہوں گے، جائز و درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح عصری تعلیم میں بلندی حاصل کرنے کے لیے حکومتوں کی جانب سے بہت سی سودی پالیسیاں جا ری کی جاتی ہیں جو بحیثیت مسلمان ہمارے لیے قطعاً درست نہیں ہیں، ہمیں ہر طرح کے سودی معاملات سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر تعلیمی میدان کے کسی شعبے میں ہم اختصاص حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہماری تعلیمی حالت بھی مضبوط ہے تو ہمیں سودی لین دین اور معاملات کرنے کے بجائے اپنے اخوان و برادران کے سامنے اپنی بات رکھنی چاہے اور مسلمانوں کے متمول طبقے کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے غریب و نادار طلبہ کا تعاون کریں تاکہ وہ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں اور امت کے بہترین دماغ کام میں آسکیں۔ موجودہ دور میں ہمارے یہاں تو تعلیم کے نام پر رشوت خوری کی وبا عام ہو چکی ہے، جس میں آدمی دہرے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، ایک تو سودی مال جو کہ حرام و خبیث ہے اس کا حصول و استعمال اور دوسرے  رشوت جیسی گناہِ عظیم کا ارتکاب۔ اللہ ہمیں ان وباؤں سے محفوظ رکھے۔ آمین (جاری)

تبصرے بند ہیں۔