نقل ایک لعنت
آصف اقبال انصاری
ملک بھر میں میٹرک کے امتحانات اپنے اختتامی مراحل میں ہیں۔ محکمہ تعلیم نے امسال امتحانی ماحول کو سازگار بنانے کے لیے کئی دعوے کیے،جو دھرے کے دھرے رہ گئے۔ امتحان سے متعلق سب سے بنیادی مسئلہ وہ نقل کی روک تھام ہے۔
امتحان کا بنیادی مقصد وہ اسٹوڈنٹس کی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال ہوتی ہے اور یہ موقع سال بھر کی محنتوں کا ثمرہ حاصل کرنے کا ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے ملک میں کئی عرصے سے جاری اس نقل نے نہ صرف اسٹوڈنٹس کی صلاحیتوں کو مسمار کیا، بلکہ اس سے بڑھ کر اساتذہ کی محنتوں کو بھی پاؤں تلے روند دیا۔
گزشتہ چند روز قبل میٹرک بورڈ کے ایک پرائیویٹ آفیسر سے اس موضوع پر کچھ گفتگو ہوئی، جس میں انہوں نے امتحانی مراکز کے کچھ احوال سامنے رکھے۔۔۔۔۔جو مختصراً میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
(کہنے لگے)” ان دنوں میرا اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی کے کئی امتحانی مراکز جانا ہوا، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے موجودہ تعلیمی کیفیت یہ کسی آفت سے کم نہیں، کئی اسٹوڈنٹس پیپرز کے حل کے لیے اینڈروئیڈ فون استعمال کرتے نظر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک امتحانی مرکز میں، میں ایک اسٹوڈنٹس کے پاس سے گزرا، میسج ٹون کی آواز کانوں میں لگی۔۔۔۔۔میں رک گیا۔۔۔۔۔۔پاس بیٹھے ایک بچے سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔سیل فون ہے؟؟ کئی مرتبہ ہاں۔۔۔۔۔ نا۔۔۔ کے بعد سیل فون حوالے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی میں نے فون ہاتھ میں تھاما۔۔۔۔۔۔۔ پھر میسج۔۔۔۔۔۔۔۔موبائل لاک تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا اسے کھولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاسورڈ کے ذریعے فون کھولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو واٹس ایپ پر کئی تصویریں، جو کسی کاپی سے لی گئی تھیں،جس میں سوالات کے جوابات تحریر تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہا یہ کیا ہے؟؟؟؟ نظریں نیچی، ہاتھ لٹکے ہوئے، شرم سے چور، کچھ کہنے سے قاصر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالاخر میں نے وہ ساری تصویریں ڈیلیٹ کیں،موبائل نگران (invigilator) کے حوالے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیپر پر کراس (cross) نشان لگائے اور آگے بڑھ گیا”
ان ساری صورت حال میں سب سے پہلے تو اس مسئلہ کی بنیاد پر گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ آخر اس مسئلہ کی جڑ کیا ہے؟خرابی کہاں سے پیدا ہورہی ہے؟آخر کیا وجہ ہے، کہ اسٹوڈنٹس ذھنی طور پر امتحان سے قبل ہی بجائے امتحان کی تیاری کے نقل کے لیے تیار ہوتے ہیں؟ انہیں یہ کیوں نہیں سمجھایا جاتا کہ نقل کی نہیں، امتحان کی تیاری کریں۔ اور ساتھ یہ کہ عملہ کی موجودگی میں نقل کیسے ممکن؟؟
ان سارے سوالات کے جوابات دینا کوئی مشکل نہیں۔۔۔۔۔۔۔اگر اس مسئلہ کی بنیاد کی بات کی جائے تو سب سے بڑی وجہ وہ تعلیمی ادارے، جو ادارے کے نام و نمود کی خاطر امتحان سے قبل ہی ساز باز کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان اداروں کا مقصد محض فیس اور کمائی ہے، یہ ادارے تعلیمی ادارے نہیں ،بلکہ کاروباری مراکز ہیں۔ جہاں ابتداء سے ہیں بچوں کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ان کے روشن مستقبل کو داغ دار بنایا جاتاہے۔یہ وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے ابتداء سے ہی اسٹوڈنٹس میں نقل کا رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے، چونکہ اس کی نظر میں امتحان، امتحان ہی نہیں رہتا، تو بجائے وہ امتحان کی تیاری کے نقل کی تیاری میں لگ کر اپنا قیمتی سرمایہ خود اپنے ہاتھ سے برباد کررہے ہوتے ہیں۔
دوسری ایک بنیادی وجہ "اسٹاف” یعنی "امتحانی عملہ” کی لاپرواہی ہے، جو اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اگر "اسٹاف” امتحان سے قبل اور دوران امتحان مکمل چھان بین سے کام لے اور بلاامتیاز ہر امیدوار پر کڑی نظر رکھے، تو نقل کے نہ رکنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔
یاد رکھیں! نقل ایک لعنت ہے،نقل یہ حق تلفی ہے،نقل یہ حق والوں کے حق پر غاصبانہ قبضہ ہے، نقل شرعاً اور اخلاقاً دونوں اعتبار سے ناجائز ہے، لہذا محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ ایسے اداروں اور عملوں پر کڑی نظر رکھیں تا کہ قوم کی ڈوبتی ناؤ کو بچایا جاسکے۔
اگر ان صورت حال پر قابو نہ پایا گیا اور اس سے متعلق کوئی خاطر خواہ لائحہ عمل طے نہ کیا گیا، تو وہ وقت دور نہیں کہ نوجوان نسل علمی بانجھ ہوچکی ہوگی۔
تبصرے بند ہیں۔