انسان اور زمین کی حکومت (قسط 111)

رستم علی خان

دوسری جانب تورات کی عبارت میں تصریح ہے کہ حضرت اسماعیل فاران میں رہے اور تیر اندازی کرتے رہے- عیسائی کہتے ہیں کہ فاران اس صحرا کا نام ہے جو فلسطین کے جنوب میں واقع ہے اس لیے حضرت اسماعیل کا عرب میں آنا خلاف واقعہ ہے- البتہ جغرافیہ دانان عرب عموما متفق ہیں کہ فاران حجاز کے پہاڑ کا نام ہے- لیکن عیسائی مصنفین اس سے اتفاق نہیں کر سکتے اس کا فیصلہ ایک بڑی طول طویل بحث پر مبنی ہے جو مباحثہ اور مناظرہ کی حد تک پنہچ جاتی ہے اس لیے ہم اس کو نظر انداز کرتے ہیں البتہ اس قدر بتانا ضروری ہے کہ عرب کی حد شمالی کسی زمانہ میں کس حد تک وسیع تھی- سومیو لیبان، تمدن عرب میں لکھتے ہیں؛ "اس جزیرے کی حد شمالی اس قدر صاف اور آسان نہیں ہے یعنی یہ اس طرح پر قائم ہوتی ہے کہ غزہ سے فلسطین کا ایک شہر بحر متوسط پر واقع ہے، ایک حطہ جنوب بحر لوط تک کھینچا جائے اور وہاں سے دمشق اور دمشق سے دریائے فرات تک اور دریائے فرات کے کنارے کنارے لا کر خلیج فارس میں ملا دیا جائے پس اس خطہ کو عربستان کی حد شمالی کہہ سکتے ہیں-” اس بنا پر عرب کے حجازی حصہ کا فاران میں محسوب ہونا خلاف قیاس نہیں-

اس میں دوسری بحث یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کے دونوں بیٹوں یعنی حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل میں سے ذبیح کون ہے- تورات اگرچہ یہودیوں کی عدم احتیاط اغراض ذاتی اور زمانہ کے انقلابات سے سرتاپا مسخ ہو گئی اور خصوصا پیغمبر حاتم صلعم کے متعلق اس میں جو تصریحات اور تلمیحات کو یہود کے دست تصرف نے بلکل برباد کر دیا- تاہم حقائق کے عناصر اب بھی ہر جگہ موجود ہیں- تورات میں گو تصریحا حضرت اسحاق کا ذبیح ہونا لکھا ہے- لیکن مطاوی کلام میں اس بات کے قطعی دلائل موجود ہیں کہ وہ ہرگز ذبیح نہ تھے اور نہ ہو سکتے تھے- امور ذیل کو پیش نظر رکھنا چاہئیے-

1؛ شریعت سابقہ کی رو سے قربانی صرف اس جانور یا آدمی کی ہو سکتی تھی جو پہلوٹھا بچہ ہو- اس بنا پر ہابیل نے جن مینڈھوں کی قربانی کی تھی پہلوٹھے بچے تھے-

2؛ پہلے بچے کی اہمیت کسی طور زائل نہیں ہو سکتی- تورات میں مذکور ہے کہ اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں- ایک محبوبہ ہو اور دوسری غریب مرغوب ہو تو بھی فضیلت اسی اولاد کی ہو گی جو پہلوٹھی ہو چاہے وہ غیرمرغوب سے ہو- "کیونکہ وہ اس کی پہلی نعمت ہے پس اسی کو اولاد اولین ہونے کا حق ہے-"

3؛ جو اولاد خدا کو نذر کی جاتی تھی اسے باپ کا ترکہ نہیں ملتا تھا- تورات میں ہے؛ "تب خدا نے لادی کی اولاد کو اس لیے مخصوص کر لیا کہ خدا کے عہد کا تابوت اٹھائے اور تاکہ خدا کے آگے کھڑا ہو اور تاکہ خدا کی خدمت کرے اور اس کے نام سے آج تک برکت لیں- یہی وجہ ہے کہ لادیوں کو اپنے بھائیوں کے ساتھ کوئی ترکہ نہیں ملا کیونکہ ان حصہ خدا ہے-

4؛ جو شخص خدا کی نذر کر دیا جاتا تھا وہ سر کے بال چھوڑ دیتا تھا اور معبد کے پاس جا کر منڈاتا تھا جیسے آج حج کے موقع پر احرام کھولتے وقت سر منڈاتے ہیں- تورات میں ہے؛ "اب تو حاملہ ہو گئی اور بچہ جنے گی اور اس کے سر پر استرا نہ پھیرا جائے کیونکہ یہ بچہ خدا کے لیے نذر کیا جائے گا-"

5؛ جو شخص خدا کا خادم بنایا جاتا اس کے لیے "خدا کے سامنے” کا لفظ استمعال کرتے تھے-

6؛ تورات میں ہے کہ حضرت ابراہیم کو جس بیٹے کی قربانی کا حکم سنایا گیا اس کے لیے قید تھی کہ بیٹا اکلوتا ہو اور محبوب ہو-

اب ان شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے دلائل پیش نظر رکھنے چاہئیں- حضرت اسحاق کی ولادت حضرت اسماعیل کے بعد ہے اس لخاظ سے وہ اکلوتے اور پہلوٹھے نہیں پس ان کی قربانی کا حکم نہیں ہو سکتا- حضرت ابراہیم نے اپنا تمام ترکہ حضرت اسحاق کو وراثت میں دیا تھا جبکہ حضرت اسماعیل اور حضرت حاجرہ کو صرف ایک مشک پانی دیکر گھر سے رحصت کیا تھا- حضرت اسماعیل کی ہی سنت ہے کہ جب لوگ حج کے لیے جاتے ہیں تو احرام کھولنے تک سر کے بال نہیں منڈواتے- اور جو نام نذر دئیے جانے والے آدمیوں کے لیے استمعال ہوتا وہی نام حضرت ابراہیم نے اسماعیل کے لیے استمعال کیا جب آپ کو حضرت اسحاق کی خوشخبری سنائی گئی تو بمطابق تورات حضرت ابراہیم نے فرمایا؛ "کاش اسماعیل تیرے سامنے زندہ رہتا-” اس سب سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل ہی ذبیح ہیں نہ کہ حضرت اسحاق-

پھر جب اللہ نے حضرت ابراہیم کو اسحاق کی خوشخبری سنائی تو ساتھ ہی فرمایا تورات میں بیان ہے؛ "پھر خدا نے کہا تیری بیوی سارہ تیرے لیے ایک بیٹا جنے گی جس کا نام اسحاق ہو گا اور میں ابدی عہد اس کی نسل سے باندھوں گا-"

دوسری جانب تورات ہی میں زکر ہے کہ جب حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو قربان کرنے لگے تو فرشتے نےندا دی کہ ہاتھ روک لو اور پھر کہا؛ "خدا کہتا ہے چونکہ تو نے ایسا کام کیا اور اپنے بیٹے کو بچا نہیں رکھا میں تجھ کو برکت دوں گا اور تیری نسل کو آسمان کے ستاروں اور ساحل بحر کی ریتی کی طرح پھیلا دوں گا-"

اب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت اسحاق کی ولادت سے پہلے ہی اللہ نے آپ کی نسل کو بڑھانے کا عہد کر لیا تھا تو قربانی کا فیصلہ ان کے حق میں کیسے آ سکتا تھا اور پھر دوسری بار وہی عہد کیونکر دہرایا جاتا- ہاں اگر حضرت اسماعیل کو ذبیح تسلیم کر لیا جائے تو یہ مسلئہ آسانی سے سمجھ آتا ہے کہ حضرت اسحاق کی نسل بڑھانے کا عہد اللہ نے ان کی ولادت سے پہلے کیا تھا اور حضرت اسماعیل کو قربانی کے لیے راضی برضا خوشی سے اپنے باپ کی باپ تسلیم کر لینے پر یہ بشارت سنائی گئی-

چنانچہ نہ صرف عرب بلکہ تمام عالم میں عام ظلمت اور عالمگیر تیرگی اور وسیع اور ہمہ گیر تاریکی نے اپنا ڈیرہ جما رکھا تھا- ایسے میں ایک ایسے آفتاب عالم تاب کی حاجت تمام عالم کو تھی کہ جس کے نور انور سے کفر و شرک اور ظلم و بربریت کی تاریکیاں چھٹیں اور حق کا اجالا منور ہوتا- تب اللہ تبارک وتعالی نے انسانیت کے حال پر رحم فرمایا اور اپنا محبوب پیغمبر جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حاتم المرسلین بنا کر مبعوث فرمایا-

حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے؛ "محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف بن قضی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزاء بن معد بن عدنان-” صحیح بخار (باب مبعث النبی) میں یہیں تک ہے لیکن امام بخاری نے اپنی تاریخ میں عدنان سے حضرت ابراہیم تک نام گنوائے ہیں- یعنی "عدنان بن عدہ بن المقوم بن تارح بن یشجب بن قیدار بن نابت بن اسماعیل بن ابراہیم-"

حضرت اسماعیل کے بارہ بیٹے تھے جن کا زکر تورات میں ہے ان میں سے قیدار کی اولاد حجاز میں آباد ہوئی اور بہت پھیلی انہی کی اولاد سے عدنان ہیں اور آنحضرت صلعم اسی خاندان سے ہیں- عرب کے نسب دان تمام پشتوں کو محفوظ نہیں رکھتے تھے- چنانچہ اکثر نسب ناموں میں عدنان سے حضرت اسماعیل تک صرف آٹھ نو پشتیں بیان ہوئی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ اگر عدنان سے لیکر حضرت اسماعیل تک صرف نو دس پشتیں ہوں تو یہ زمانہ تین سو برس سے زیادہ نہ ہو گا اور یہ امر بلکل تاریخی شہادتوں کے خلاف ہے- علامہ سہیلی نے بہت سے تاریخی حوالوں اور شہادتوں سے ثابت کیا ہے کہ عدنان سے حضرت اسماعیل تک  چالیس پشتوں کا فاصلہ ہے- اور ایسا ہر گز نہیں کہ حضرت محمد صلعم سے حضرت اسماعیل تک دس بیس پشتوں کا فاصلہ ہو کیونکہ آپ کے بیچ زمانہ بہت زیادہ ہے-

اس غلطی نے بعض عیسائی مورخوں کو اس بات کا موقع دیا ہے کہ وہ سرے سے اس بات کے منکر ہو گئے کہ آنحضرت صلعم خاندان ابراہیم سے ہیں- اس غلطی کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ اہل عرب زیادہ تر مشہور آدمیوں کے نام پر اکتفا کرتے تھے- اور بیچ کی پیڑھیوں کو چھوڑ دیتے تھے- اس کے علاوہ اہل عرب کے نزدیک چونکہ عدنان کا حضرت اسماعیل کے خاندان سے ہونا قطعی اور یقینی تھا اس لیے وہ صرف اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ عدنان تک سلسلہ نسب صحیح طور سے نام بنام پنہچ جائے- اوپر کے اشخاص کا نام لینا غیر ضروری سمجھتے تھے، اس لیے چند مشہور آدمیوں کا نام لیکر چھوڑ دیتے تھے- تاہم عرب میں ایسے محققین بھی تھے جو فروگذاشت سے واقف تھے- علامہ طبری نے تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ "مجھ سے بعض نسب دانوں نے بیان کیا کہ میں  نے عرب میں ایسے علماء دیکھے جو معد سے حضرت اسماعیل تک چالیس پشتوں کے نام لیتے تھے- اور اس شہادت میں عرب کے اشعار پیش کرتے تھے-اس شخص کا یہ بھی بیان تھا کہ میں اس سلسلہ کو اہل کتاب کی تحقیقات سے ملایا تو پشتوں کی تعداد برابر تھی البتہ ناموں میں فرق تھا- اسی مورخ نے ایک اور موقع پر لکھا ہے کہ شہر ترمد میں ایک یہودی تھا جس کا نام ابو یعقوب تھا اور مسلمان ہو گیا تھا اس کا بیان ہے کہ ارمیا پیغمبر کے منشی نے جو عدنان کا نسب نامہ لکھا تھا وہ میرے پاس موجود ہے اس شجرے میں بھی عدنان سے حضرت اسماعیل تک چالیس نام ہیں- بہرحال یہ واقعہ یقینی ہے کہ عدنان حضرت اسماعیل کی اولاد ہے اور آنحضرت صلعم عدنان کے خاندان سے ہیں-

تبصرے بند ہیں۔