حفیظ جونپوری: ارباب ادب کی نظر میں

مبصر: ڈاکٹر فیاض احمد

مرتب: محمد عرفان جونپوری

صفحات:۔ ۲۹۶
قیمت:۔ ۱۷۳ روپئے
اشاعت:۔ ۲۰۱۹
ناشر:۔ محمد عرفان جونپوری۔ میر مست، جونپور، یو پی ۲۲۲۰۰۱

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوئں گھنی ہوتی ہے

ہائے  !کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

  حفیظؔ جونپوری کے تعارف کے لئے مذکورہ ایک شعر ہی کافی ہے۔ اردو دنیا میں اس شعر کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی اور شاید مہجری ادب میں بھی اس پائے کا کوئی دوسرا شعر نہ مل سکے۔ حفیظؔ جونپوری تا عمر مہاجروں کی طرح اپنے کاندھوں پر اپنی صلیب اٹھائے شہروں شہروں گھومتے رہے۔ جونپور، لکھنئو، دلی، بمبئی، دربھنگہ اور پٹنہ، کی خاک چھانتے ہوئے انہوں نے ہجرت کے درد و کرب کو خود جھیلا اورغریب الوطنی کے مصائب و مشکلات میں لاشعوری پر ان پر یہ شعر نازل ہوا جو مہجری ادب کا شاہکار نمونہ بن گیا۔ اس شعر میں لفظ ــ’’ہائے‘‘ نے جو سوز و گداز پیدا کیا ہے وہ لاجواب ہے۔ یہ ’’ہائے‘‘ زبان سے نہیں بلکہ دل سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ در حقیقت یہی کیفیت یعنی’’ از دل خیزد بر دل ریزد‘‘  ہی اچھی شاعری کی پہچان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حفیظ ؔجونپوری کا یہ شعر تمام مہجری ادب پر بھاری ہے یہ اور بات ہے کہ اب تک ناقدین شعر و ادب نے حفیظؔ جونپوری کی شاعری کو اس پہلو سے نہیں دیکھا اور اس انداز سے ان کی شاعری کا تجزیہ نہیں کیا۔ مستقبل میں کوئی حفیظ ؔشناس اس پہلو سے بھی ان کی شاعری کا تجزیہ ضرور کرے گا۔

        حفیظؔ جونپوری اپنے عہد کے نمائندہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری کلاسیکی ادب کا شاہکار نمونہ ہے جس میں حسن و عشق کی داستان کے ساتھ ہی زبان و بیان کی سادگی، اسلوب کی پختگی اور ادب کی چاشنی موجود ہے۔ عبد السلام ندوی، اشرف علی تھانوی جیسی شخصیات بھی حفیظؔ جونپوری کی شاعری اور ان کے فکر و فن کی مداح تھیں جس کا تفصیلی تذکرہ مذکورہ کتاب میں موجود ہے۔ جلیل ؔمانکپوری، ریاض ؔخیرآبادی، شادؔ عظیم آبادی اور امداد امام اثرؔ وغیرہ  سے حفیظ ؔجونپوری کے دوستانہ مراسم تھے جبکہ دیگر ہم عصر شعراء بھی معاصرانہ چشمک کے باوجود ان کی شاعری کے مداح و معترف تھے۔ لیکن حفیظ ؔکی شخصیت اور شاعری کو وہ مقام نہ مل سکا جو ان کے ہمعصروں کے حصے میں آیا۔ ناقدین شعر و ادب نے ان پر وہ کام نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے۔

         بہر کیف۔ ۔ ۔ ۔ دیر آید درست آید۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں طفیل انصاری صاحب نے پہلے’’ حفیظؔ جونپوری۔ حیات اور شاعری ‘‘اور اس کے بعد ’’کلیات حفیظ ؔجونپوری‘‘ شائع کر کے فرض کفایہ ادا کیا۔ طفیل انصاری صاحب کے بعد دوسرے حفیظ ؔشناس بلکہ حفیظؔ کے دیوانے محمدعرفان جونپوری صاحب نے اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے حفیظؔ جونپوری سے متعلق تمام مواد کو یکجا کرکے ’’حفیظؔ جونپوری۔ ارباب ادب کی نظر میں ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کو شائع کر کے محمد عرفان جونپوری صاحب نے حفیظؔ جونپوری سے عشق کی حد تک ذہنی لگائو اور محبت کا قرض ادا کیا ہے۔ اپنے اس کام کے لئے عرفان جونپوری صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

        اس کتا ب کا سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس میں حفیظؔ جونپوری سے متعلق تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین، مقدمات، پیش لفظ، تقریظات، تاثرات، تبصرے اور خطوط کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ کتاب کی ابتداء میں عرفان جونپوری کا مقدمہ انتہائی اہم اور معلوماتی ہے جس میں اس کتاب کی ترتیب میں پیش آنیوالی مشکلات  و مسائل کے ساتھ ہی حفیظ ؔجونپوری سے ان کا والہانہ لگاؤ اور اپنی مٹی سے ان کا عشق بھی نمایاں ہے۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں حفیظ ؔجونپوری کے مختلف دواوین پر لکھے گئے مقدمات و تقریظات کے علاوہ خود حفیظ ؔجونپوری کی تصنیف بعنوان ’’مآل ‘‘ شامل ہے۔ اس باب میں سب سے پہلے حفیظ ؔجونپوری کا مضمون’’عرض حال‘‘ہے جس میں حفیظؔ جونپوری نے بقلم خود اپنے سوانحی حالات و کوائف درج کئے ہیں۔ دوسرا مضمون بعنوان ’’دیوان دوم حفیظ ؔجونپوری باسم تاریخی خمخانہء دل‘‘ ہے جو قاضی بھیڑوی دربھنگوی کے قلم کا رہین منت ہے جس میں انہوں نے حفیظ ؔ جونپوری کی شاعری کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد کاملؔ جونپوری کے دو مضامین’’عرض حال‘‘ اور حفیظؔ جونپوری‘‘ ہے جس میں انہوں نے جونپور سے لکھنئو اور پھر لکھنئو سے پٹنہ تک کے حفیظؔ جونپوری کے شعری سفر کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس کے بعد نظامؔ جونپوری کا دو صفحات پر مشتمل بعنوان ’’جواہرات حفیظؔ‘‘ ہے جو در اصل ’’انتخاب حفیظؔ جونپوری‘‘سے ماخوذ ہے۔ اس کے بعد محمود الہی صاحب کا انتہائی وقیع پیش لفظ ہے جو ’’انتخاب غزلیات حفیظؔ جونپوری‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اسی انتخاب سے ماخوذ ایک اہم ’’مقدمہ‘‘ ہے جو محبوب الرحمن فاروقی صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد طفیل احمد انصاری صاحب کے دو مضامین ’’احوال واقعی ‘‘ ماخوذ از ’’حفیظؔ جونپوری۔ حیات اور شاعری‘‘ اور ’’تمہید ‘‘ ماخوذ از ’’کلیات حفیظؔ ؔجونپوری‘‘ شامل ہے۔ اس کے بعد شمس الرحمن فاروقی صاحب کا ایک تفصیلی دیباچہ ماخوذ از ’’کلیات حفیظؔ جونپوری‘‘ شامل ہے جس میں حفیظ ؔکی شاعری کا بڑا ہی خوبصورت اور جامع تجزیہ کیا گیا ہے۔ باب اول کا آخری حصہ ’’مآل ‘‘ پر مشتمل ہے جو دراصل حفیظؔ جونپوری کا ایک سفر نامہ اور سرگذشت ہے جو بقول حفیظؔ جونپوری ’’حقیقت میں تذکرہ ٔآخرت و داعی الی کسب الکمال المسمی بہ ’’مآل ‘‘ ہے۔ اسی کے ساتھ حفیظؔ جونپوری کی ’’ایک ضروری وصیت ‘‘ اور چند غیر مطبوعہ کلام ہیں جو شاید کلیات حفیظ ؔمیں شائع نہ ہو سکے تھے۔

        باب دوم میں چند مشاہیر اہل قلم کے مضامین ہیں جس میں سب سے پہلا مضمون عبد السلام ندوی کا ہے جو در اصل ان کی مشہور زمانہ تصنیف ’’ شعر الہند حصہ اول ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس میں انہوں نے حفیظؔ جونپوری کی شاعری کے مقام و مرتبہ کا تعین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس میدان یعنی (داغ ؔکی پیروی میں )جس نے داغ کے ساتھ دوڑنے کی کوشس کی ہے وہ حفیظ ؔجونپوری ہیں۔ ‘‘ اس کے بعد مولانا نے مختلف شعراء جیسے آتشؔ، جلالؔ، میرؔ اور داغؔ کے رنگ کو حفیظ ؔکی شاعری میں نمایاں طور پر اجاگر کیا ہے۔ اس کے بعد اس باب میں مجنوں گورکھپوری، پروفیسر فضل امام، سید اقبال احمد جونپوری، طفیل احمد انصاری، ایس ایم عباس، ایم نسیم اعظمی، ابوذر انصاری، اور ڈاکٹر تابش مہدی  وغیرہ کے مضامین شامل ہیں جو حفیظؔ جونپوری کی شخصیت اورشاعری پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔

        باب سوم میں مختلف طرحی گلدستوں اور ماہناموں میں حفیظؔ جونپوری کے کلام کی اشاعت کا تذکرہ ہے جن میں گلدستہ ’’نیرنگ خیال‘‘ جونپور، گلدستہ ’’پیام یار‘‘ جونپور، گلدستہ ’’آتش عشق‘‘ جونپور، طرحی گلدستہ ’’گل چیں ‘‘ (اولاً لکھنئو بعدہ گورکھپور )کے علاوہ ماہنامہ ’’عالمگیر‘‘ لاہور اور ماہنامہ ’’مخزن‘‘ لاہور قابل ذکر ہیں۔ اسی باب کے آخر میں ماہنامہ ’’مخزن ‘‘ میں ۱۹۰۷ ؁ء سے ۱۹۱۸ ؁ء تک شائع شدہ غزلوں کا تاریخی اشاریہ بھی شامل ہے۔

        باب چہارم میں حفیظؔ جونپوری کے چند خطوط ان کی اصل تحریر کے عکس کے ساتھ شامل ہیں۔ یہ خطوط مولانا قیام الدین بختؔ جونپوری، وسیمؔ خیرآبادی اور ریاضؔ خیرآبادی کے نام لکھے گئے ہیں جن سے ان کے ذاتی مراسم اور ادبی روابط کا اندازہ ہوتا ہے۔

        باب پنجم میں حفیظ ؔجونپوری سے متعلق متفرق تحریریں شامل ہیں جودراصل مختلف کتابوں کے فلیپ کورس کی تحریریں اور تبصرے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر تابش مہدی، ایس ایم عباس، اور عبداللہ فاروق کے علاوہ عرشی زادہ رامپور کا ایک مراسلہ بھی شامل ہے۔ کتاب کے آخر میں ’’کتابیات و مراجع ‘‘ کے عنوان سے صاحب کتاب نے حفیظ ؔجونپوری سے متعلق تمام بنیادی مآخذ کی نشاندہی کر کے مستقبل میں حفیظؔ جونپوری پر کام کرنے والوں کے لئے راہ ہموار کر دی ہے، جس کی روشنی میں کوئی بھی اسکالر حفیظ ؔجونپوری کی حیات و خدمات اور ان کے فکر و فن کے مختلف گوشوں پر تحقیقی اور تنقیدی کام بآسانی انجام دے سکتا ہے۔

        کتاب کے آخر میں عرفان جونپوری صاحب نے ایک نیا کام کیا ہے جسے میں بدعت سے تعبیر کرتا ہوں۔ جی ہاں ! اردو دنیا میں ان کا یہ کام ایک بدعت حسنہ ہے جو لائق تحسین بھی ہے اور لائق تقلید بھی۔ سستی شہرت اورصاحب کتاب ہونے کے شوق میں لوگ عام طور سے سیمینار اور کانفرنس کے مقالات یکجا کر کے یا پھر مختلف قلمکاروں سے مضامین لکھواکر صاحب کتاب ہو جاتے ہیں اور کتاب کے اصل مقالہ نگار گمنام رہ جاتے ہیں۔ اردو دنیا کی اس روش سے ہٹ کر عرفان جونپوری صاحب نے نہ صرف یہ کہ کتاب کے آغاز میں تمام مقالہ نگاروں کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے بلکہ کتاب کے آخر میں تمام مقالہ نگاروں کا تفصیلی تعارف پیش کرکے ایک بدعت کی داغ بیل ڈالی ہے۔ عرفان جونپوری صاحب کو اس کتاب کے ساتھ ہی اس بدعت کی ایجاد کے لئے بھی مبارکباد۔

        بحیثیت مجمو عی یہ کتاب کسی پی ایچ ڈی کے مقالہ سے زیادہ اہم اور مآخذ و مصادر کے لحاظ سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے اس لئے کہ اس میں حفیظؔ جونپوری سے متعلق تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد کو بڑی عرق ریزی و جانفشانی کے ساتھ بہت چھان پھٹک کرمصادر و مراجع کی نشاندہی کے ساتھ با قاعدہ اصول تحقیق کی روشنی میں یکجا کیا گیاہے اور کتاب کے آخر میں اصول تحقیق کے مطابق تمام حوالہ جات (References ( بھی موجود ہیں۔ اس طرح جو کام کسی یونیورسٹی کے پروفیسر یا ریسرچ اسکالر کو کرنا چاہیئے تھا وہ کام تن تنہا حفیظؔ جونپوری کے دیوانے عرفان جونپوری کے عشق اور جنون نے کر دکھایا۔ اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے یہ کتاب حفیظؔ شناسی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور حفیظؔ جونپوری کی حیات و خدمات اور ان کے فکر و فن پر کام کرنے والے ریسرچ اسکالرس اور محققین کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گی۔

تبصرے بند ہیں۔