پیج ندی کا مچھیرا 

تعارف و تبصرہ:  وصیل خان 

مصنفہ :  صادقہ نواب سحر
قیمت : 150/-روپئے
 صفحات :  152
طابع و ناشر:  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، فون : 23216162

رابطہ :  صادقہ نواب سحر فلیٹ نمبر 2پہلا منزلہ محسن منزل شاستری نگر کھپولی 410203 ضلع رائے گڑھ( مہاراشٹر )موبائل : 9370821955

صادقہ نواب سحر کا شمارہندوستان کے معروف فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے بیشتر افسانےروایتی طرز کے لیکن جدید اسلوب کے حامل ہوتے ہیں۔ تخلیقی اعتبار سے وہ تجربہ کاراور وسیع الفکر کہانی نویس ہیں، افسانوں کی تبدیل ہوتی تکنک، انداز بیان اور پیشکش کے تناظر میں ان کی تحریریں ندرت فکر اور جدیدطرزکا نمونہ کہی جاسکتی ہیں، ان کےیہاں فکری تسلسل کے ساتھ واقعات کا جماؤاور باہمی ارتباط کہانی کو منتشرنہیں ہونے دیتا، یہی وجہ ہے کہ ان کا قار ی انہماک کے ساتھ اول تا آخرکہانی سے جڑا رہتا ہے، کوئی بھی فنکار اپنی حساسیت اور فکری تفوق کی بنیاد پر آرٹ یا تخلیق کو قابل ذکر بناتا ہے۔

کہانیاں آسمانوں اور ہواؤں میں نہیں اڑتیں کہ انہیں مٹھی میں لے کر اوراق ابیض پر بکھیر دیا جائے اس کے لئے اسے خون جلانا پڑتا ہے، فکر واحساس کے سمندر میں غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے تب ہی یہ ممکن ہوپاتا ہے کہ کچھ ڈلکتے موتی اس کے ہاتھ آجائیں جن کی خیرہ کن چمک سے معاشرے کے بدن پر جمی میل کچیل صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ صادقہ نواب ہمہ جہت فنکار ہیں وہ محض فکشن پر ہی اکتفا نہیں کرتیں، اپنے خیالات کی موجوں کو شاعری اور ڈرامہ نویسی میں بھی ڈھالنے کا ہنر جانتی ہیں جس کا ثبوت ان کی وہ متعدد کتابیں ہیں جو نہ صرف منظر عام ہوچکی ہیں بلکہ اہل دانش و بینش سے خراج تحسین بھی حاصل کرچکی ہیں جن میں دو ناول، شعری و افسانوی مجموعوں کے علاوہ ڈراموں پرمبنی کتاب شامل ہے۔

موصوفہ کی زیاد ہ تر کتابیں میری نظروں سے گزر چکی ہیں اور کچھ پر راقم تبصرہ بھی کرچکا ہے، اس دوران مجھ پر تجربہ گزراکہ انہوں نے اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی اور طرز نگارش میں بہتر اور بتدریج ترقی کی ہے، ان کی شبیہ ہمارے درمیان ایسے چابکدست فنکار کی صورت ابھرتی ہے جن کی تجربہ کار اور دوررس نگاہیں سماجی نشیب و فراز سےنہ صرف آشنا ہیں بلکہ ان عوامل کے اچھے برے نتائج بھی چھان پھٹک کر الگ کرلیتی ہیں اور انتہائی نرمی کے ساتھ بڑے مثبت انداز میں ان کا حل بھی پیش کرتی ہیں۔ ان کے بیشتر افسانے گردو پیش کے مسائل پر محیط ہیں، انہوں نے سماجی معاشرتی، اقتصادی اور کہیں کہیں نفسیاتی اور جنسی مسائل کو بھی بحث کا  موضوع  بنایا ہے۔

افسانوں پر مشتمل ان کا تازہ مجموعہ ’ پیج ندی کا مچھیرا ‘ اس وقت ہمارے پیش نظر ہے جس کا مطالعہ ہمیں باور کراتا ہے کہ انہوں نے اسلوب اور بیانیئےپر گرفت کافی مستحکم کرلی ہے۔ ان کا زمینی تعلق آندھراکے نواح سے ہےکہیں کہیں وہاں کے کلچراور تہذیب و ثقافت کی بھی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ مجموعے میں کل بارہ افسانےشامل ہیں۔ ’ وہیل چیئرپر بیٹھا شخص ‘ خلیجی مسائل اور اس کے محرکات پر ان کا نمائندہ افسانہ کہا جاسکتا ہے جس کے ذریعے انہوں نے نقل وطن،مسافرتی کشمکش اور قلبی ہیجان کو بڑے نفسیاتی انداز میں پیش کیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ افسانہ خلیج میں رہ کر خلق کیا ہو، افسانہ قدرے طویل ضرور ہے لیکن کئی دشوار ترین گتھیوں کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اجاگر کرنے میں کامیاب ہے۔

اسی طرح پہلا افسانہ اسکولوں کی فضا اور جدید تعلیمی تہذیب و ثقافت کی اس صورتحال سے واقف کراتا ہے جس سے آج ہمارا معاشرہ جوجھ رہا ہے۔ یہ افسانہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ہی تہذیب و ثقافت بھی ہماری زندگی کا جزولاینفک ہے جو بڑی سرعت کے ساتھ ہمارےہاتھوں سے پھسلتا جارہا ہے۔ ’ پیج ندی کا مچھیرا ‘ زندگی سے جنگ لڑنے اور حوصلہ مندی کا زبردست محرک اور انتہائی سبق آموزافسانہ ہے۔

مجموعے کے سبھی افسانے کوئی نہ کوئی پیغام دیتے ہیں۔ لیکن صفحہ ۱۰۸ پر ایک بنیادی چوک تھوڑی دیر کیلئے انقباضی کیفیت پیدا کرتی ہے جسے دور کرنے کی ضرورت تھی۔ یعنی مہادو کا دایاں ہاتھ بارود سے کٹ جاتا ہے، پھر وہ داہنے ہاتھ سے کس طرح اپنے بائیں ہاتھ پر رومال باندھ کر خون روکنے کی کوشش کرتا ہے۔

جزئیات نگاری کا وصف ان کی کہانیوں کو مزید پرکشش اور بصیرت افروز بنادیتا ہے وہ کہانی کو کہانی ہی رہنےدینا چاہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ علامات اور تجریدیت کے زور پر کہانی کو چیستاں نہیں بننے دیتیں بلکہ ان کی پوری توجہ مقصد پر مرکوز ہوتی ہے تاکہ سماجی خرابیوں کو زیادہ سے زیادہ طشت از بام کیا جاسکے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی کہانیوں میں انسانی نفسیات، جبلت اور ہوسناکیوں کے مختلف مظاہر سامنے آتے ہیں اور یہ عوامل ہر لمحہ ایک مستحکم اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کا پیغام دیتے ہیں، فی زمانہ جس کی ضرورت پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہم ایوان ادب میں صادقہ نواب سحر کی  اس تازہ کتاب کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔