قرآنی مزاج کے مطابق ترجیحات کا تعین کرنا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے ترجیحات کا تعین قرآنی احکامات و تعلیمات کے مطابق کرتا ہے۔ عموماً انسان کی زندگی میں درست ترجیحات کے تعین کا اہم رول ہوتا ہے چونکہ جو قوم ناقص حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے درست ترجیحات کا تعین نہیں کرپاتی وہ ناکام و نامراد ہوجاتی ہے اور تمام وسائل ترقی مہیا رہنے کے باوجود تنزل و انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے تو دوسری طرف جو قوم سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرتی ہے، جامع اصلاحات کو اپناتی ہے اور درست ترجیحات کا صحیح تعین کرتی ہے تو ذہنی سکون، قلبی طمانیت، روحانی تسکین اس کا مقدر بن جاتا ہے اورمعیارِ زندگی از خود بلند ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو درست ترجیحات کا تعین کرنا انسانی زندگی کا ایک انتہائی اہم اور دشوار کن مرحلہ ہے جس کو پورا کرنے میں بعض لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور بعض لوگ ناکام۔

 درست ترجیحات کے تعین کا مدار تجربات اور علمی فہم و فراست پر ہوتا ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے تو دوسری جان ب جب ارباب علم و دانش اپنی فراست کا استعمال کرتے ہوئے درست ترجیحات کا تعین کرنے کی کوشش و سعی کرتے ہیں تو علم میں موجودہ ابہام و خطائوں، نفسانی خواہشات، دنیا پرستی اور شیطانی وساوس اس میں مخل ہوجاتے ہیں جس کے سبب درست ترجیحات کے تعین میں انسان علم کے زیور سے آراستہ ہونے کے باوجود بری طرح ناکام ہوجاتا ہے اور بظاہر پسندیدہ چیزوں جیسے شراب و جوا خوری میں چھپے ہوئے شرور و فتن اور بظاہر ناپسندیدہ اشیاء جیسے صدقات و خیرات میں پوشیدہ فوائد و منفعت کو دیکھنے میں بھی ناکام ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان برائیوں کی طرف آسانی سے مائل اور اچھائیوں سے اعراض کرتا چلا جاتاہے۔ اسی لیے انسان کو نماز اور دیگر اچھائیوں کے لیے وقت نکالنا بہت دشوار محسوس ہوتا ہے لیکن اسی انسان کے لیے لہو و لعب میں گھنٹوں ضائع کردینا بہت آسان لگتا ہے جس کی بین دلیل نوجوان نسل کا مساجد اور دینی محافل سے دوسری اختیار کرنا اور واٹس اپ، فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام کا بیجا استعمال کرتے ہوئے گھنٹوں ضائع کردینا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ انسان کی تباہی و بربادی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسانی مجہولات کے مقابل انسانی علم کی حقیقت دریا کے مقابل قطرہ کی سی ہے۔ اشیاء میں مخفی خیر و شر کے حقائق سے واقف رب کائنات کا مسلمانوں پر کتنا بڑا کرم اور مہربانی ہے کہ اس نے ترجیحات کی ترتیب و تشکیل میں ہونے والی لغزشوں، کوتاہیوں اور دشواریوں سے بچانے کے لیے ہمیں قرآن مجید جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا جس نے والآخرۃ خیر و ابقیکہہ کر تمام معاملات میں ترجیحات کی بنیاد فراہم کردی یعنی ہر اس کام کو ترجیح دی جائے جو دنیا و آخرت سنوارنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔

اگر اس آیت مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید نے دنیا کی مذمت نہیں کی بلکہ آخرت کو دنیا سے بہتر کہا یعنی دنیا بھی اچھی چیز ہے لیکن اس سے بہتر آخرت ہے۔ چونکہ دنیا تو بے وقعت، موقتی اور فانی ہے جبکہ آخرت بہتر، دائمی اور لافانی ہے۔ اگر دنیا سراسر بری اور ممنوع چیز ہوتی ہے تو قرآن مجید ہمیں یہ دعا تعلیم نہ فرماتا جس میں فرمایا گیا ترجمہ‘ ’’اے ہمارے رب! عطا فرما ہمیں دنیا میں بھی بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی ‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت 201) یعنی یہ حقیقی مومن کا شیوہ ہی نہیں کہ وہ دنیوی زندگی کو مکمل فراموش کردے۔ مومن کے افکار و فہم اس قدر وسیع ہوتے ہیں کہ وہ صرف اخروی زندگی کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتا بلکہ وہ دنیوی منافع و مقاصد کے ساتھ اخروی سعادتمندیوں کا بھی خواستگار ہوتا ہے۔ اگر مسلمان قرآن مجید کے اس ترجیح پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو انہیں زیر کرسکے یا شکست دے سکے۔

 تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب تک امت مسلمہ قرآن مجید کی روشنی میں اپنے درست ترجیحات کا تعین کرتی رہی مسلم حکمرانی کا دائرہ حجاز مقدس سے نکل کر یورپ تک پہنچ چکا تھاجو بجا طور پر مسلمانوں کے عروج کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اور جب سے امت مسلمہ تعلیمات اسلامی کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق ترجیحات کا تعین کرنے لگی تب سے مسلمانوں کے زوال کا تاریک دور شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ مسلمانوں کا انفرادی سطح سے لیکر عالمی سطح تک ہر محاذ پر ناکام ہونا، مخالفین اسلام کے ظلم و تشدد کا شکار ہونا، وطن عزیز ملک ہندوستان میں ہجومی تشدد کی وجہ سے ہلاک کیا جانا، بہترین زندگی گزارنے کے مواقع سے محروم کردیا جانا اس کی بین دلیل ہے۔ م

سلمانوں کی اس کمسپرسی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کے احکامات کی کھلی خلاف وزری کی ہے۔ قرآن مجید نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کا حکم فرمایا لیکن ہم آخرت پر دنیا کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ کسی کے گھر میں قرآن خوانی اور قرآن فہمی کی محفل ہوتی ہے تو ہمارے دل میں یہ جذبہ جاگزیں نہیں ہوتا کہ ہم بھی اسی طرح کی محافل کا انعقاد کریں لیکن جب معاشرے میں برائیاں پھیلتی ہیں جیسے تقریب ولیمہ میں پودینہ کے ہار پہنانا وغیرہ تو ہم بھی اس فعل قبیح میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے ورنہ ہماری زندگی کے اکثر معاملات کا یہی حال ہے۔ قرآن مجید نے بالفاظ صریح ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم اعمال خیر اور نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں۔ تعلیمی ادارے، شفا خانے، عدالتیں تجارتی مراکز میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ غیر مسلم اقوام کے پاس حلال و حرام کا تصور نہیں ہے ان کے لیے دنیا ہی جنت ہے اگر وہ اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور دنیا کی خاطر آخرت کو ترک کررہے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن مومن جسے قرآن مجید نے باربار نیکیوں اور حسنات سے محبت کرنے اور گناہوں اور سیئات سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہو اگر وہ بھی بداعمالیوں کا شکار ہوجائے تو پھر ہم میں اور غیر مسلم میں کیا فرق رہ جائے گا؟

اگر آج کا مسلمان دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے تعلیمی اداروں، دواخانوں اور عدالتوں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق کام کرتے ہوئے پیسہ بٹورنے سے زیادہ انسانی خدمت کو فوقیت دینے لگے تو یقینا ہمارا یہ اقدام موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات کی عملی تصویر پیش کرنے کا سبب بنے گا اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی اور سسکتی ہوئی انسانیت کے زخم پر مرحم کا کام کرجائے گا اس طرح لوگ ہماری اس عملی تبدیلی کی وجہ سے اسلام میں جوق در جوق داخل ہوں گے۔ موجودہ دور کے ابتر حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ مومن اپنی قدر و قیمت سمجھیں اور اپنی استعداد اور لیاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی طور پر تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیں جو وقت کی اہم اور سخت ضرورت ہے۔ اگر ہم ان تمام حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے دنیا پرستی ہی کو ترجیح دینے لگیں گے اور مفاد پرستی کی اسی غلط روش کو اختیار کرتے ہوئے خدائی احکامات اور فرامین رسالت مآبﷺ کو فراموش کرتے رہیں گے تو رب کائنات ہمیں ایسے عذاب میں مبتلا کرے گا کہ ہماری دنیا بھی تباہ و و تاراج ہوجائے گی اور آخرت بھی (العیاذ باللہ )۔قرآن مجید بارہا انسان بالخصوص مسلمانوں اور مومنوں کومتعدد مرتبہ آگ سے بچنے کا حکم فرمایا ہے لیکن ہماری تقاریب میں ہم آتش بازی کرتے ہوئے آگ سے کھیلنے کی نہ صرف جرأت کرتے ہیں بلکہ خدائی فرمان کی نافرمانی بھی کرتے ہیں۔ آتشبازی میں نہ صرف آگ سے کھلنا ہے بلکہ پیسہ کا ضیاع بھی ہے اور صوتی و فضائی آلودگی کا گناہ بھی ہے۔ گویا ہم نکاح اور ولیمہ جیسے مبارک ایام میں آتشبازی کرکے اپنی زندگیوں میں نحوست اور عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ اس لیے ہورہا ہے کہ چونکہ موجودہ دور میں والدین اپنی اولاد کی اسلامی نہج پر تربیت کرنے میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں اسی کا خمیازہ ہے کہ مسلم معاشرہ تباہی و بربادی کے دور سے گزر رہا ہے۔ موجودہ دور میں جانور کی قیمت و اہمیت ہے لیکن مسلمان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں تعلیم کے ساتھ تزکیہ کا ذکر ملتا ہے جو تصفیہ قلب و باطن کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے۔ انسان کی نصف شخصیت عقل و خرد سے اور نصف شخصیت طبعی میلانات و خواہشات سے تشکیل پاتی ہے اسی لیے انسان کو جس قدر تعلیم کی ضرورت ہے اسی طرح وہ تربیت کا بھی محتاج ہے۔ لیکن صد حیف کہ قرآن مجید کو ماننے کا دعوی کرنے کے باوجود مسلم معاشرہ تربیت کی اہمیت و افادیت کو بھلا بیٹھا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں پچھلے کچھ سالوں میں تعلیمی گراف بڑھنے کے باوجود مسلم معاشرے میں برائیاں بھی پھیلی ہیں۔

مسلم معاشرہ کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف تعلیم کے ساتھ تربیت کو ترجیح دیں بلکہ سیاسی، معاشی، معاشرتی، اقتصادی، انفرادی، اجتماعی، اخلاقی، روحانی الغرض جملہ معاملات میں قرآنی مزاج کے مطابق ترجیحات کا تعین کریں۔ اگر ہم اب بھی خواب غفلت سے نہیں جاگیں گے تو آنے والے دن مزید ابتر ہوسکتے ہیں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔