چند باتیں عمران خان اور حضرت مولانا فضل الرحمن سے!

مولانامحمدجہان یعقوب

حالیہ انتخابات میں ملک کی تیسری سیاسی جماعت کہلانے والی پاکستان تحریک انصاف نے واضح کام یابی حاصل کی ہے اور آیندہ چند روز میں جناب عمران احمد خان نیازی وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے ہیں، اس تناظر میں سب سے پہلے ہم انہی سے مخاطب ہوتے ہیں۔

محترم عمران خان صاحب!آپ کی پارٹی اس الیکشن کی فاتح ٹھہری، آپ وفاق کے علاوہ دوصوبوں میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں، شایدبلوچستان حکومت میں بھی آپ کی شراکت داری رہے، یوں ایک صوبہ سندھ کوچھوڑکرآپ ملک بھرکے حکم ران بننے جارہے ہیں۔ آپ کی 22سالہ سیاسی جدوجہدرنگ لارہی ہے، خواہ اس کے عوامل کچھ بھی ہوں، بہرحال خواہی نہ خواہی آپ کی فتح آخرکارسب کوماننی ہی پڑے گی۔ آپ سے چندگزارشات کرنے کی جسارت کررہاہوں، کیوں کہ آپ کے دائیں بائیں جولوگ نظرآرہے ہیں، وہ آپ کی ناتجربہ کاری کافائدہ اٹھاکرآپ کوعوامی عدالت ہی نہیں، اللہ کی عدالت میں بھی ناکام کرسکتے ہیں۔

پہلی بات :

یہ ملک اسلام کے نام پربناہے، یہاں مسلمان یعنی اہل سنت اکثریت میں ہیں، ان کے خلاف اقلیتوں کوخوش کرنے کے لیے آپ سے کوء بھی قدم اٹھوایاجاسکتاہے، مثلا:قراردادمقاصدکاخاتمہ، 1973کے آئین کی اسلامی دفعات پرشب خون، قادیانیوں کوکافرقراردینے کے متفقہ فیصلے کے خلاف کوئی بھی اقدام، جیسے نوازدورمیں حلف کے الفاظ کوتبدیل کرنے کی کوشش کی گء، خودآپ کے بھی ایسے بیانات آتے رہے ہیں اورآپ کی پارٹی میں بھی ایسے راہ نماموجودہیں، جنھیں اسلام سے خداواسطے کابیرہے۔ ۔ ۔ یادرکھیے!آپ نے ایساکوئی بھی قدم اٹھایاتوآپ کاحشراپنے پیش روسے براہوگا۔ اسلام اورآئین کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے اس قوم کوکسی ایوان کی ضرورت نہیں، باہررہ کربھی بڑے بڑے فرعونوں کاراستاروکاجاسکتاہے، ماضی اس پرگواہ ہے۔

دوسری بات:

محترم، آپ یاآپ کے یمین ویساراورسپورٹرزکی تہذیب جوبھی ہو، اس ملک کی تہذیب پردے اورحیاکے خمیرسے تیارشدہ ہے، اگراس ملک کومغرب ویورپ کے طرزپرمادرپدرآزادمعاشرہ بنانے کی کوشش کبھی نہ کیجیے گا۔ اپنی تہذیب کے متبادل یہ زندہ قوم کسی تہذیب کوقبول نہیں کرے گی۔ آپ کے ایسے کسی بھی اقدام سے ملک انارکی کاشکارہوسکتاہے، جس کافائدہ دشمن کوہوگا۔

تیسری بات:

مساجدومدارس اسلام کی نرسریاں ہیں۔ ان کی حریتِ فکرکوکبھی پابندکرنے کی کوشش نہ کیجیے گا۔ جس کسی طالع آزمانے بھی دین کے ان مراکزکوچھیڑاہے، اللہ نے اسے نشان عبرت بنایاہے۔ تمام مدارس کواپناسمجھیے۔ قوم کی ایک بڑی یوتھ پاوران مدارس میں ہے، جوٹیلنٹ میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ آپ کو یاد دلانا چاہوں گا:’’مدارس کے بچے قوم کے بچے ہیں، ہم ان کامورال بلندکریں گے۔ ‘‘یہ آپ کاعزم رہاہے، پہلے آپ کے پاس ایک صوبہ تھا، اب تین صوبے اوروفاق ہے، لہٰذااس عزم کوپایہ تکمیل تک پہنچائیے۔ آپ جوپانچ کروڑنء ملازمتیں دینے جارہے ہیں، ان میں اہلِ مدارس کوبھی حصہ دیجیے۔ یہ ملکی تعمیروترقی میں آپ کادست وبازوبنیں گے۔ یہ بات مکرریادرکھیے۔ ۔ ۔ کہ مراعات کاجھانسادے کرانھیں خریدنے کی کوشش کی، تویہ بوریہ نشین آپ کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوں گے۔ جنھوں نے اپنی جانیں اللہ اورجنت کے بدلے بیچ رکھی ہیں، ان کاسوداکوئی نہیں کرسکتا۔

چوتھی بات:

اپنے منشورکوہروقت ملحوظ خاطررکھیے۔ آپ قومی حکم ران ہیں۔ صرف سوشل میڈیایاالیکٹرانک میڈیاپروپیگنڈوں کالالی پاپ اس باشعورقوم کومطمئن نہیں کرسکتا۔ صرف دعوے نہیں، عمل کرکے دکھلائیے۔ آپ کویاددلاتے چلیں کہ آپ نے عدلِ فاروقی کے قیام کے وعدے کیے ہیں۔ بے گھرلوگوں کے لیے ایک کروڑگھرتعمیرکرنے ہیں۔ ڈالرکی اڑان کوقابوکرناہے۔ بیرونی قرضے ختم کرنے ہیں۔ مہنگائی کے جن کوبوتل میں قیدکرناہے۔ امریکاکی مداخلت کاخاتمہ کرناہے۔ قوم کی مظلوم بیٹی حافظہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی کورہاکرواناہے۔ معاشی استحکام اورروپے کی قدرمیں اضافہ کرناہے۔ ملک کے ہرادارے سے کرپشن وبدعنوانی کوجڑسے اکھاڑ پھینکناہے۔ لوٹی ہوء دولت بیرونی بینکوں سے واپس لاکرملکی خزانے میں جمع کرنی ہے۔ پانی کے خطرناک بحران پرقابوپانے کے لیے  فوری بنیادوں پرنئے دیم تعمیرکرنے ہیں۔ آپ کے عزائم کی جولانی اورمنشورکی ہمہ جہتی نے آپ کویہاں تک پہنچایاہے، اب اس منشور کی لاج رکھناآپ کافرض ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وقت ضایع کیے بغیرکام کیاجائے۔

ایک آخری گزارش:

آپ اس ملک کی پہچان ہیں۔ خدارا، اپنے لب ولہجے، اپنے مزاج کی درشتی، اپنے کردارکی رنگینی اوراپنے جوشِ انتقام پرقابوپائیے۔ آپ کی یہ کم زوریاں اپ کوناک آؤٹ کرسکتی ہیں۔ پیرنی جی سے اپ کی محبت وعقیدت تسلیم، مگرسوقیانہ اوردقیانوسی پرمبنی حرکتیں آپ کوزیب نہیں دیتیں۔ یہ اس قوم کے اجتماعی مزاج سے بھی لگانہیں کھاتیں۔ اس لیے ذراسوچ سمجھ کرقدم اٹھائیے۔

اب آتے ہیں عمران خان مخالف سیاسی جماعتوں کی مزاحمتی سیاست کی طرف، جس کے بنیادی محرک اور سب سے زیادہ اس حوالے سے پر جوش وپرعزم عزت م آب مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم العالیہ ہیں، سو ہم براہ راست انہی کی خدمت میں چند معروضات رکھنے کی کوشش کریں گے۔

حضرت مولانا!آپ پکارتے رہے: اسے ووٹ نہیں دینا، یہ یہودی ایجنٹ ہے۔ اس کی حکومت آگئی تواسلام مٹ جائے گا۔ مان لیجیے!آپ کابیانیہ کم زورتھا، جوآپ اس کی راہ نہ روک سکے۔ آپ الزامات کی سیاست میں لگے رہے، اس نے آپ کے صوبے کے عوام کی دکھتی رگ پرہاتھ رکھا۔ جواسپیس آپ سے رہ گیاتھا، اسے پرکیا۔ آپ کے سب سے بڑے ووٹراورسپورٹراہلِ مدارس وائمہ پراپنی توجہ مرکوزکی، ان کے عصری تعلیم یافتہ لوگوں کوملازمتیں دیں، ائمہ کووظائف کاپیکیج دیا، ان کامورال بلندکرنے کے وعدے کیے۔ آپ چیختے رہے:یہ این جی اوزکاحربہ ہے۔ ۔ ۔ لیکن معذرت کے ساتھ معاشی استحکام ہرفرداورہرمعاشرے کی اولین ضرورت ہے، جس کی طرف آپ نے توجہ نہ دی۔ یہ تھاوہ خلا، جوآپ سے رہ گیاتھا، اوراس یہودی ایجنٹ نے اسے پوراکیا۔ آپ نے ثواب اورجنت کی بشارتیں دیں، اس نے مستقبل کاروڈمیپ دیا۔ آپ نے فتاوی پیش کیے، اس نے مسائل کاحل تجویزکیا۔ اب ملک کو77والی پوزیشن پرنہ لے جائیے، جس کے آپ چشم دیدگواہ ہیں۔ جس فوج سے دھاندلی کے شکوے ہیں، اسے ٹیک اوورکااوردشمن کوجگ ہنسائی کاموقع نہ دیجیے۔

مزاحمتی سیاست کاوقت گزرچکا۔ ہاں !جس وقت آپ کے حلیف ایک قدآورلیڈرکوجیل ہورہی تھی، تب آپ اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے۔ وہ وقت تھامزاحمتی سیاست اوراینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیے کا۔ آپ نے وہ موقع گنوادیا۔ دوسراآپشن آپ کے پاس انتخابات کے بائیکاٹ کاتھا، اس کوبھی آپ نے ضایع کردیا۔ آپ سیاست کے مردِمیداں ہیں۔ وقت کی پکارپرکان دھریے۔ ڈی چوک پردھرنے آپ کے شایانِ شان نہیں۔ مدارس بندکرکے علماوطلبہ کوسڑکوں پرلانے کی بات جتنی آسان ہے، اس پرعمل اتناآسان نہیں۔ اہلِ منبرومحراب کوایسی مشقت میں نہ ڈالیے، ان کے اعصاب اس کے متحمل نہیں۔ دوسروں کی کیابات، خودآپ کی مجلس میں شامل کوء جماعت آپ کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی۔ اس کاآپ کوبھی اندازہ ہے۔ خدارا!مزاحمت کے بجائے اس منہ زورطوفان کے مقابلے پرتوجہ دیجیے۔ آپ کاسپورٹرابھی تک آپ کاووٹرنہیں بن سکا، اس کی تربیت پرتوجہ دیجیے۔ سابقہ خامیوں کی تلافی کی سعی کیجیے۔ ان شا اللہ!آنے والاوقت آپ کاہوگا۔ اگریہ پانچ سال بھی مزاحمتی سیاست کی نذرہوگئے، توپھرشاید، خاکم بہ دہن، تاریخ دوبارہ اتنی آسانی سے موقع نہ دے، کہ لمحوں کی خطابسااوقات صدیوں کی سزاں کاپیش خیمہ بن جاتی ہے۔

تاریخ نے قوموں کی، وہ دوربھی دیکھے ہیں

لمحوں نے خطاکی ہے، صدیوں نے سزاپائی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔