قرآن مجید کا فلسفئہ ’خطوات الشیطان‘

قمر فلاحی

دو قدموں کے درمیان کی جگہ کو خطوة کہتے ہیں اس کی جمع خطا اور خطوات ہوتی ہے ، مگر قرآن مجید نے صرف خطوات ہی استعمال کیا ہے۔

شیطان کی بات، عمل ،طریقہ جس کی طرف وہ بلاتا ہے اور تمام محرمات خواہ اس کا تعلق استکبار سے ہو یا تکذیب سے یا معصیت سے یا استہزاء سے ان تمام کو خطوات شیطان میں شمار کیا جائیگا۔ یہ کتاب وسنت کی ضد ہے اسی لئے اللہ سبحانہ نے اس کی الگ اصطلاح بیان فرمائی ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ شیطانی عمل یا شیطانی سنت کی پیروی نا کرو۔

اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں بار بار شیطان سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور اسے واضح کرنے کیلئے شیطان کو انسانوں کا کھلا دشمن بھی کہا ہے کیونکہ انسان کی فطرت میں ہے کہ اسے  اپنے دشمن  کی ہر چیز سے بیر ہوتی ہے مثلا ایک ضرورت کا سامان بھی انسان اپنے دشمن کی دکان سے خریدنا گوارا نہیں کرتا ہے۔

اللہ سبحانہ نے یہ نہیں فرمایا کہ لا تتبعوا الشیطان بلکہ یہ فرمایا کہ لاتتبعوا خطوات الشیطان مطلب یہ ہے کہ شیطان دکھنے والا وجود نہیں ہے مگر اس کے خطوات دکھیں گے (جس طرح سنت دکھتی ہے) کیونکہ وہ سنت کی ضد ہوتے ہیں۔

یوں بھی اگر انسان کے سامنے شیطان آجائے تو وہ اس کی کسی بات کو نہیں مانے گا۔

مباحات میں توسع اختیار کرنا کہ اسے کرنے میں کیا حرج ہے کیونکہ  اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے جبکہ وہ سنت میں موجود بھی نا ہو  اور متشابہات میں تساہلی یہ جانتے ہوئے کہ یہ حرام سے قریب لگتا ہے مگر وہ کام کر گزرنا، یہ سب خطوات الشیطان سے قریب لے جاتے ہیں اور شیطان کی پیروی کروادیتے ہیں۔

اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں چار جگہوں پہ خطوات الشیطان کا ذکر کیا ہے اس میں سے دو کا تعلق کھانے سے ہے۔

تیسرے کا مکمل طور پہ اسلام میں داخل ہونے سے اور چوتھے کا تعلق فواحش سے بچنے سے ہے۔

[يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ] {البقرة:168} وقال تعالى [كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ] {الأنعام:142}..

  [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ] {البقرة:208}.

 [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالفَحْشَاءِ وَالمُنْكَرِ] {النور:21}

معلوم یہ ہوا کہ کھانے کے معاملہ میں تساہلی اور لاپرواہی اور اسلام کے بعض احکامات کو ماننا اور بعض کا انکار کرنا اور فواحش سے قریب ہونا شیطان کے خطوات کی اتباع کرنا ہے۔

غذا کا خصوصیت کے ساتھ ذکر اس وجہ سے ہے کیونکہ انسان کی طلب اور محتاجی دونوں ہی غذا کے تعلق سے شدید  ہوتی ہے اسی لئے شیطان کو اس راستے سے بہکانے کا آسان راستہ مل جاتا ہے۔

شہوات کا تعلق بھی انسان کے پیٹ سے ہی ہے جیسی غذا کھائی جائیگی مزاج ویسا ہی بنیگا۔حتی کہ غذا پہ دعا کی مقبولیت کا بھی انحصار ہے۔

اللہ سبحانہ نے درندوں کے گوشت کھانے کو اسی لئے حرام کیا ہے کیونکہ وہی صفت انسانوں میں پیدا ہوجاتے۔ اسی پہ اور جانوروں کو قیاس کرلیں۔

حضرت آدم علیہ السلام کو غذا کے راستے ہی بہکایا گیا تھا۔

اسی لئے اللہ سبحانہ نے حرام غذا کی مکمل تفصیل بتائی ہے۔ اور اس کے کھانے کی دو شرطیں بتائیں ہیں۔ عمدہ ہو اور حلال ہو۔(حلالا طیبا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود ہلاک وبرباد ہو کیونکہ جب اللہ سبحانہ نے انکے لئے چربی حرام کی تو وہ اس سے باز نہیں آئے بلکہ اس کی تجارت کی اور اور اس کی قیمت کھائی۔(بخاری ۲۲۳۶۔مسلم ۱۵۸۱۔عن جابر رضی اللہ عنہ )

معلوم یہ ہوا کہ محرمات سے قربت ہلاکت کی وجہ بنتی ہے۔

کسی حلال شئ سے متعلق مشکوک ہونا اور وسوسے کا شکار ہونا اور حلال چیزوں کے ملنے کے بعد اس پہ اپنی زبان اور عمل سے اللہ سبحانہ کا شکر گزار نہ ہونا بھی شیطان کی پیروی ہے۔

شیطان نے کہا تھا :

لاتجدوا اکثرھم شاکرین تو ان کی اکثریت کو ناشکرا پائیگا۔(الاعراف ۱۶۔۱۷۔)

تبصرے بند ہیں۔