اسلام میں حیوانات کے حقوق
محمدصابر حسین ندوی
زمانۂ جا ہلیت انسانیت کا تاریک ترین اور گمراہ کن دور تھا، جس کی عمارت کی ہر اینٹ اپنی جگہ سے متزلزل اور بے بنیاد تھی، ظلم و جور کی چادر ہر جان و بے جان پر تنی ہوئی تھی، رحمت و مودت اور اخوت و بھائی چارگی نے دم توڑ دیا تھا، قدم قدم پر جنونیت و دیوانگی کے مدفن نے ؛فطرت انسانی کو اپنے آپ میں دفن کر لیا تھا، خدا تعالی کی نت نئی مخلوقات پر مشتمل اس دنیا کی ہر ذی روح ؛گھٹن اور بے کسی کی شکار تھی، جانور و حیوانات رفق ونرمی سے سراپا محروم تھے ؛بلکہ بسااوقات ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے آرام و آرائش کا خیال رکھنے کو قصۂ استعجابیہ سے دیکھتے اور اسے بے جا شوق پورا کر نے، ایک دوسرے پر اپنے آپ کی فضیلت ثابت کر نے کا ذریعہ سجھتے تھے، دیوان جاہلی میں ایسے بہت سے قصوں کا ثبوت ملتا ہے ؛جنہیں پڑھ کر انسانی طبیعت بے ساختہ مچل اٹھتی ہے، اور طبیعت انسانی کے مسخ ہونے پر شاہد ہوتی ہے، ان کی قساوت و سنگدلی کا عالم یہ تھا کہ فیاضی کی آڑ میں جانوروں کو عامیانہ طور پر مار گراتے تھے اور لوگوں سے کہتے :تم انہیں کھا جاؤ!، تو وہیں دو آدمی شرط لگا کرکھڑے ہو جاتے تھے اور باری باری سے اپنا اونٹ ذبح کرتے جاتے تھے ؛جو رک جاتا وہ ہار جاتا تھا، اور مذبوحہ جانوروں کو احباب کی ضیافت کا ساماں کر دیتے تھے، حتی کہ ا یک دستور کے مطابق جب کوئی مرجاتا تو اسکی سواری کے جانور کو اسکی قبر پر باندھتے اور اس کا غلہ، پانی اور گھاس بند کر دیتے تھے ؛یہاں تک کہ وہ بھوکے پیاسے سوکھ کر اسی حالت میں مر جاتا، ایسے جانوروں کو ’’بلیہ‘‘ کہتے تھے، کبھی کبھی کسی خاص جانور کو باندھ کر تیر اندازی کرتے اور اپناق نشانہ درست کرتے تھے یا انہیں آپس میں لڑواکر ان کی خوں ریزی کا لطف اٹھاتے تھے، حد تو یہ تھی کہ ان پر سواری کرتے، نقل مکانی اور باربرداری کا کام لیتے، جنگ و جدل میں بے دریغ استعمال کرتے لیکن ان کے کھانے، پینے کی چنداں پرواہ نہ کرتے تھے، مزید یہ کہ اگر اس جانور کا کوئی عضو اچھا لگتا تو اسے یوں ہی کاٹ لیتے اور کھاجاتے، جنگلوں میں شب و روز نکل جانا اور بیجا ولغو شکار کرنا ؛ بہادری کامعیار مانا جاتا تھا، انہیں ذبح کرنے اور کاٹنے کے معاملہ میں تو پتھر اور ناخن کا بھی استعمال کر لیتے تھے ؛جن سے جانور ذبح کم اور گھٹن سے زیادہ جاں سونپ دیتا تھا اور اگر کوئی جانور ان کے قابو و گرفت سے باہر ہوجاتا خواہ اس کی پیر سالی وضعف کی وجہ سے کیوں نہ ہو ؛اسے لعنت و ملامت کا نشانہ بناتے تھے۔
حقیقت یہ ہیکہ اسلام ایسے ہی پرآشوب حالات، بے دردوں اور بے دلوں میں رونماہوا، اور ایک نبی امی محمد مصطفیؐ اپنی ردائے رحمت ہر سو پھیلانے لگا، جس کی شفقت و یاروی کی بساط نہ صرف انسانوں پر ؛بلکہ حیوانات پر بھی دراز ہوئی، جس کی پاداش میں سابقہ مظالم کی گرفت اور بے سروپا کے رسوم پر قدغن لگایاگیا، ان کے حقوق و احکام کی بات ہوئی اور شرف و عزت نے انہیں بھی لمس کیا، جہاں انانوں کو بتلایا کہ تم اس دنیا کے امین و خلیفہ ہو۔ ’’انا عرضنا الأمانۃ علی السموات والأرض والجبال فأ بین أن یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان ‘‘(احزاب:۷۲)تو وہیں انہیں یہ تعلیم بھی دی کہ :حیوانات کے بارے میں بھی محتاط ہوجاؤکیونکہ ان کے بارے میں بھی تم سے باز پرس ہوگی’’اتقواللہ فی عبادہ وبلادہ فانکم مسؤولون حتی عن البقاع والبھائم‘‘(من اقوال علی بن طالبؓدیکھئے:نھج البلاغۃ:۲؍۸۰، بحارالانوار:۳۲؍۹۔ ۔ ۔ ، البدایۃوالنھایۃ:۷؍۲۵۴)، یہاں تک کہ ان کے ساتھ عمدہ برتاؤ پر جنت کی عنایت بھی ہوئی(صحیح بخاری:۲۳۲۳۔ صحیح مسلم:۲۲۴۴)اور برے سلوک پر جہنم کی سیر بھی کروائی گئی(صحیح بخاری:۷۰۳۔ ھکذا:نسائی:۱۴۶۵)، بلکہ انہیں کھلانا صدقہ کرنا بتلایا گیا:’’مامن مسلم یغرس غرساالا کان مااکل منہ صدقۃ‘‘(بخاری:۲۳۲۰۔ مسلم:۱۵۵۲)، ساتھ ہی حضوراکرمؐ نے ایسے لوگوں پر سخت لعنت فرمائی جو جانوروں کو نشانہ بنائیں یا تیر اندازی کی مشق کریں ’’لعن رسول اللہ ؐ من اتخذ شیأ فیہ الروح غرضاوفی روایۃ ان تصبر البھائم ‘‘(بخاری: ۵۵۱۵، ۵۱۹۵۔ مسلم:۱۹۵۸)، ایک روایت میں ہیکہ :ایک لڑکااسی طرح مرغی کو باندھ کر تیر کا نشانہ بنارہاتھا، حضرت عبداللہ بن عمر کو دیکھا تو وہ بھاگ نکلا، یہ دیکھ آپؓ نے فرمایا:جو لوگ ایسا کرتے ہیں آپؐ نے انہیں ملعون قرار دیا ہے (بخاری:کتاب الصید)، حتی کہ آپؐ نے فرمایا کنکری و غلیل کا بھی استعمال نہ کیاجائے کیونکہ اس سے بجز انہیں تکلیف کہ ؛کچھ حاصل نہیں ’’نھی النبیؐ عن الخذف، وقال:انھا لاتقتل الصید، ولا تنکی العدو، ولکنھا تفقأ العین، وتکسر السن‘‘(ابن ماجہ: ۳۲۲۶)، انہیں آپس میں لڑوانے اور لطف اندوز ہونے سے منع فرمایا:’’نھی عن التحریش بین البھائم‘‘(ابوداؤد:۲۵۶۲)، اسی طرح ان پر ضرورت سے زائد بوجھ ڈالنے اور ان کا خیال نہ رکھنے پر اللہ کے رسول ؐ نے تنبیہ فرمائی:’’اماتتقی اللہ فی ھذہ البھیمۃ التی ملککھااللہ لک انہ شکا الی انک تجیعہ وتدئبہ‘‘(مسلم:۱؍۲۶۸۔ ابوداؤد:۲۵۴۹۔ ابن ماجہ:۳۴۰، ۱؍۱۲۲۔ احمد:۱؍۲۰۴)، اور جوزندہ جانوروں کاگوشت کاٹ کر کھا جایا کرتے تھے ؛اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ مردار کھا رہے ہیں ’’ماقطع من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ ‘‘ ( ابوداؤد : ۵ ۲۴۷)، ’’ماقطع من الحی فھو میت‘‘ (ترمذی : ۱۴۰۰)، ’’حرمت علیکم المیتۃ۔ ۔ ۔ الا ما ذکیتم‘‘(مائدۃ:۳)، اور بلا ضرورت کسی جانور کو قتل کرنے پر عنداللہ مسؤول ٹھہراگیا’’ما من انسان قتل عصفورا فما فوقھا بغیر حقھا الا سالہ اللہ عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(نسائی:۴۲۷۴)، اور ان کے ساتھ بہتری کا معاملہ کرتے ہوئے ذبح کے وقت آسان سے آسان طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا:’’ان اللہ کتب الاحسان علی کل شیئی فاذا قتلتم فاحسنواالقتلۃ واذا ذبحتم فاحسنوالذبح ولیحد احدکم شفرتہ ولیرح ذبیحتہ‘‘(صحیح مسلم:۳۶۱۵)، ساتھ ہی اسے برا بھلا کہنے اور لعنت و ملامت کرنے سے بھی منع کیا گیا :’’لا تسبن احدا قال فما سببت بعدہ حرا ولا عبدا ولا بعیرا ولا شاۃ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(ابوداؤد:۴۰۸۴)۔
دراصل حیوانات خدا تعالی کی عظیم مخلوقات میں سے ایک ہیں، جنہیں صرف انسانوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے (یس:۷۱۔ ۷۳)بلکہ قرآن کریم کا بیان ہے کہ انہیں انسانی زندگی میں باعث شرف و زینت بنایا گیا:’’والخیل والبغال والحمیر لترکبوھا وزینۃ ویخلق مالاتعلمون‘‘(نحل:۸)، شاید اشرف المخلوقات سے منسوب ہونا ہی اس کا وہ شرف ہے جس کی وجہ سے بارہا قرآن کریم میں ان کا ذکر کیا گیا، یہاں تک کہ بہت سی سورتوں کو ان کی طرف منسوب کیا گیاجیسے:سورہ بقرۃ، نحل، نمل، عنکبوت، فیل وغیرہ اور بالخصوص بقرۃ: ۶۷، ۶۸، ۶۹، ۷۱، عمران: ۱۴، انعام:۱۴۲، نحل:۸۰، شعراء:۱۳۳، حج:۳۰، مؤمنون:۲۱، غافر: ۷۹، زخرف:۱۲۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ کی آیتیں جانوروں سے وابستہ کی گئیں اور انسانی افادیات کی تمام حقیقتوں کو اس طرح واضح کیا گیا:’’والانعام خلقھا لکم فیھا دفء ومنافع ومنھا تاکلون، ولکم فیھا جمال حین تریحون وحین تسرحون، وتحمل اثقالکم الی بلد لم تکونوا بلغیہ الا بشق الانفس۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ‘ (نحل:۴تا۷، دیکھئے:یس:۷۱تا۷۳)، اللہ تعالی نے جانوروں کو ایک امت تک قرار دیا ہے ’’وما من دابۃ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امم امثالکم ‘‘ (انعام:۳۸)اور اسی پیش نظر ان کے ساتھ رحم و کرم اور ہمدردی ورواداری نیز ان کے حقوق کا تذکرہ بھی مختلف مقامات پر کیا گیا’’مامن دابۃ الا ھو آخذ بنا صیتھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(ہود:۵۶، نیز دیکھئے:عنکبوت:۶۰، طہ:۵۴، نازعات:۳۳، سجدہ:۲۷، یونس:۲۴)، تو وہیں بہت سے حیوانات کا تذکرہ ان کے نام کے ساتھ کیا گیا، ان میں بعض جانوروں کا ذکر بہت خاص انداز میں ہے، جس سے عنداللہ ان کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے جیسے:ہد ہد، ابابیل وغیرہ۔ (مزید تفصیل کیلئے ان آیتوں کی تفاسیر دیکھی جا سکتی ہیں )۔
قرآن و حدیث کے اسی فیضان کے صدقہ مفسرین و محدثین اور فقہاکرام نے بھی حیوانات کے حقوق کی صدا بلند کی اور قول وعمل اور اپنی قیمتی تصانیف کے ذریعہ ان کے تئیں ذمہ داریوں اور فرائض کورونما کیا، چنانچہ فرمان الہی’’والانعام خلقھا لکم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مالا تعلمون‘‘(نحل:۴تا۷)کی تفسیر کرتے ہو ئے فقہاء و محدثین نے درج ذیل چار نتائج اخذ کئے ہیں :۔
۱۔ انسان کا حیوانات کے ساتھ خاص اور گہرا ربط ہے’’ان الحیوان شدید الارتباط بالانسان وثیق الصلۃ بہ، قریب الموقع منہ، من ھنا کان علی الانسان حرمۃ وذمام‘‘(القرطبی:۱۰؍۶۹)
۲۔ موجودات عالم میں انسانوں کے بعد سب سے اشرف حیوانات ہیں ’’ان الاشرف الاجسام الموجودۃ فی العالم السفلی [بعدالانسان]سائر الحیوانات لاختصاصھا بالقوی الشریفۃ وھی الحواس الظاھرۃ والباطنۃ والشھوۃ والغضب‘‘(الرازی:۱۹؍۲۲۷)۔
۳۔ قرآن نے جانوروں کو صرف مادی پہلو سے دیکھنے کے بجائے اسے زینت و جمال کے پہلو سے بھی دیکھنے کا حکم دیا، اور اس طرح ان کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاملہ کی ترغیب بھی دی، علامہ رازی ؒنے اسکی وجہ بتلائی کہ جب جانور شام کو چراگاہ سے لوٹتے ہیں تو مالک کی اپنی ایک شان ہوتی ہے’’قال الرازی: وا علم ان وجہ التجمل بھا ان الراعی اذا روحھا بالعشی وسرحھا بالغداۃ تزینت عند ذلک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وعظم وقعھم عندالناس بسبب کونھم مالکین لھا‘‘ (۱۹ ؍۲۲۸)، اسی طرح علامہ قرطبی لکھتے ہیں :’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قول الناس اذا رأوھا :ھذہ نعم فلاں ولانھا اذاراحت توفرت حسنھا وعظم شأنھا وتعلقت القلوب بھا‘‘ (۱۰؍۷۰)۔
۴۔ قرآن کریم میں بعض حیوانات کا ان کے نام کے ساتھ ذکر کرنے کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ بقیہ حیوان اس سے خارج ہیں ؛بلکہ ان کا ذکر بطور مثال ہے نہ کہ حصر؛اسی لئے اللہ نے فرمایا:’’ویخلق مالا تعلمون‘‘(الرازی:۱۹؍۲۳۱، دیکھئے:نظرۃ الاسلام الی الحیوان :ش)۔
اسی طرح محدثین نے بھی حیوانات کے حقوق کوصحاح ستہ اور دیگر شروحات میں جگہ دی ہے اور ان کے نام پر مستقل ابواب قائم کئے ہیں ’’کتاب الصید، کتاب الذبائح، والعقیقہ ‘‘وغیرہ، نیز فقہاکرام نے بھی اسی کے ابواب متعین فرماکر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی اور پوری امت کو ان کے حقوق سے باور کرایااور تمام ہی نے بقدر کفاف نفقہ اور حسن سکوک کو واجب قراردیا (دیکھئے:تبیین الحقائق:۳؍۶۶، مواھب الجلیل:۴؍۲۰۷، مغنی المحتاج:۳؍۴۶۲، کشاف القناع:۵ ؍۴۹۳، الانصاف: ۹ ؍۴۱۴ )یہاں تک کہ جانوروں کو امام ابوحنیفہ ؒ دیانۃ اور امام ابو یوسف ؒقضائً نفقہ نہ دینے پر مجبور کرنے کاحکم دیتے ہیں ( فتح القدیر:۴؍۳۱۔ ۲۳۰)۔
تبصرے بند ہیں۔