انسان اور زمین کی حکومت (قسط 38)
رستم علی خان
ایک روایت (جسے حضرت علی رضی اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے) کے مطابق یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو چاٹتے ہیں اور ہتھیار ان کے پاس نہیں کہ جس سے دیوار کو توڑیں صبح سے شام تک چاٹتے ہیں اور جب ایک کاغذ جتنی باریک رہ جاتی ہو تو سورج غروب ہو جاتا ہے اور پھر یہ کہتے ہوئے چلے جاتے ہیں کہ صبح اسے ضرور توڑ دیں گے- اور صبح وہ دیوار پھر اتنی ہی موٹی ہوتی ہے- اور روز ایسا ہی کرتے ہیں- جب قیامت قریب ہو گی تو ان میں ایک بچہ مسلمان پیدا ہو گا اور وہ بھی ان کے ساتھ آئے گا اور بسم اللہ پڑھ کے چاٹنا شروع کرے گا اور جاتے ہوئے یوں کہے گا کہ کل انشآء اللہ توڑ دیں گے- پھر دوسرے دن وہ دیوار جتنی وہ چھوڑ کر گئے ہوں گے اتنی ہو گی پھر اسے آسانی سے توڑ دیں گے اور نکل آئیں گے- پہلے شام کی طرف آئیں گے پھر وہاں سے پورے عربوں میں اور دنیا میں پھیل جائیں گے۔
چند حوالے اس دیوار کے بارے میں سدّ ِ ذوالقرنین کا محلِ وقوع
تاریخی طور پر یہ امر ثابت ہے کہ شمال میں بسنے والی اقوام جنوبی علاقوں کی طرف تاخت و تاراج کرتی تھیں۔ مختلف زمانوں میں ان کے متعدد خروج ہوئے۔ چنانچہ متوقع حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان علاقوں میں مختلف دیواریں تعمیر کی گئیں، جن میں سے حسبِ ذیل قابلِ ذکر ہیں:
(۱) دیوارِ چین: یہ دیوار سب سے زیادہ مشہور اور لمبی ہے۔
(۲) سدّ دربندیاباب الابواب: داغستان (موجودہ روس) میں بحیرہ خزر (Caspean Sea) کے مغربی کنارے ’’دربند‘‘ نام کا ایک شہر آبادہے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر اسے باب الابواب کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہاں قدیم زمانے میں ایک سدّ (دیوار) موجود تھی۔
(۳) سدّ درّہ داریال: مذکورہ باب الابواب سے مغربی جانب، کاکیشیا (پہاڑ) کے بلند حصوں میں دو بلند پہاڑوں کے درمیان درّہ داریال (Darial) ہے۔ موجودہ نقشوں میں اس کا محل وقوع قفقاز کاکیشیا (Vladi Kavkaz) اور تفلیس کے درمیان دکھایا جاتا ہے۔ وہاں بھی قدیم زمانے سے ایک سدّ ملتی ہے، تاہم اس کے بانی کا نام غیر معلوم ہے۔ یاقوت الحموی کے مطابق یہ دیوار تانبا پگھلا کر بنائی گئی۔ یہ دیوار آہنی دروازہ (باب الحدید) کے نام سے معروف ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان مذکورہ دیواروں میں سے سدّ ِ ذوالقرنین کون سی ہے؟
مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن میں متعدد قدیم و جدید حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ دیوار (جو دربند سے داریال تک پھیلی سمجھنی چاہیے) کا بانی ذوالقرنین (سائرس) تھا اور یہی دیوار مذکورہ قرآنی ’’سد‘‘ کے مصداق ہے۔ ترجمان القرآن میں اس کی حسبِ ذیل تفصیل آئی ہے۔
ایک قدیم شہر دربند ٹھیک اس مقام پر واقع ہے جہاں قفقاز کا سلسلۂ کوہ ختم ہوتا اور بحرِ خزر سے مل جاتا ہے۔ یہاں ایک دیوار موجود ہے جو سمندر سے شروع ہو کر تقریبًا تیس میل تک مغرب میں چلی گئی ہے جہاں قفقاز کا مشرقی حصہ بہت زیادہ بلند ہے۔ یوں دیوار نے ایک طرف بحرِ خزر کا ساحلی مقام بند کر دیا اور دوسری طرف پہاڑ کا وہ تمام حصہ بھی روک دیا جو ڈھلوان ہونے کی وجہ قابلِ عبور ہو سکتا تھا۔ ساحل کی طرف یہ دیوار دہری ہے۔
اگر آذربائیجان سے ساحل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھیں تو پہلے ایک دیوار ملتی ہے جو سمندر سے برابر مغرب کی طرف چلی گئی ہے۔ اس میں ایک دروازہ تھا۔ دروازے سے جب گزرتے تو شہر دربند شروع ہو جاتا۔ دربند سے آگے پھر اسی طرح کی ایک دیوار ملتی لیکن یہ صرف ایک میل تک گئی ہے۔ اس کے بعد اکہری دیوار کا سلسلہ ہے۔ دونوں دیواریں جہاں جا کر ملتیں وہاں ایک قلعہ ہے۔ قلعے تک پہنچ کر دونوں کا درمیانی فاصلہ سو گز سے زیادہ نہیں رہتا لیکن ساحل سے پانچ سو گز دور ہے۔ اسی پانچ سو گز کے درمیان شہر دربند آباد ہے۔
اِس دیوار کو قدیم زمانے سے دوبارہ یعنی دہرا سلسلہ کہتے تھے۔ یہ دیوار ۱۷۹۶ء تک موجود تھی، جس کی روسی سیاح کی بنائی ہوئی ایک تصویر ایچ والڈ (Eich Wald) نے اپنی کتاب ’’کواکیس‘‘ میں نقل کی ہے۔ لیکن ۱۹۰۴ء میں جب پروفیسر جیکسن نے اس کا معاینہ کیا توگو اس کے آثار باقی تھے مگر دیوار گر چکی تھی۔
تلاشِ سدّ کی مہمات
یاجوج ماجوج کی سدّ کی دریافت کے سلسلے میں جو علمی اور جغرافیائی مہمات دورِ اسلام میں وہاں گئیں، وہ تاریخی ترتیب سے حسبِ ذیل ہیں:
(ا) وہ بزرگ جنھوں نے حضور نبیِ اکرمؐ سے سدّ کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کیے، ممکن ہے قصدًا وہاں گئے ہوں یا اتفاقیہ ان کا وہاں گزر ہو گیا۔ آغازِ ۵ھ سے ربیع الاول ۱۱ھ تک کسی زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے آکر بیان کیا میں نے ’’سدّ‘‘ کو دیکھا ہے اور وہ خوبصورت دھاری دار چادر (مجر) کی طرح ہے۔
(ب) حضرت عمرؓ کے آخری زمانۂ خلافت ۲۲ھ میں آرمینیا پر حملہ ہوا۔ تاریخِ طبری میں اس عنوان کے تحت ’’روم‘‘ کے مشاہدے منقول ہیں۔ اس دیوار کا نام بھی بعض اشخاص کی زبان پر آتا ہے جس سے ثابت ہے کہ یہ دیوار اس زمانے میں موجود تھی اور لوگ اس سے واقف تھے۔ مطر بن ثلج التمیمی کا بیان ہے کہ میں عبدالرحمٰن بن ربیعہ کے پاس گیا، وہاں ’’شہر براز‘‘ (نامی شخص) بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص ان کے پاس آیا جس پر سفر کی تکان کا اثر تھا۔ وہ شہربراز کے برابر بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔
اس کی باتوں سے فرصت پا کر شہربراز نے عبدالرحمٰن سے کہا: ’’امیر! آپ جانتے ہیں، یہ شخص کہاں سے آیا ہے؟ میں نے اس کو دو برس ہوئے ’’سدّ‘‘ کی طرف بھیجا تھا تا کہ وہاں کا حال دیکھ آئے اور پتا چلائے کہ اس کے آگے کون رہتا ہے۔ اسے میں نے بہت سا مال دیا تھا اور آس پاس کے سلاطین کے نام خطوط اور ہدیے دئیے تھے۔ یہ بالآخراس بادشاہ کے پاس پہنچا جس کی قلمرو میں ’’سدّ‘‘ واقع ہے۔ وہ پھر حاکم کے بازیار (رہنما) اور عقاب کے ساتھ ’’سدّ‘‘ پہنچا‘‘… (اب مذکورہ شخص بیان کرتا ہے)…
’’وہاں دو پہاڑ ہیں، جن کے درمیان سدّ بنی ہوئی ہے۔ یہ دونوں پہاڑوں کے برابر آنے کے بعد کچھ اونچی بھی ہو گئی ہے۔ سدّ کے آگے خندق ہے جو بہت گہری ہونے کے سبب رات سے زیادہ تاریک ہے۔ میں نے یہ دیکھ کر جب پلٹنا چاہا تو بازیار نے کہا، ابھی ٹھہرو! اس نے پھر تھوڑا سا گوشت کاٹ کر جو ساتھ لے گیا تھا، ہوا میں پھینکا۔ عقاب اس پر جھپٹا، لیکن گوشت خندق میں جا چکا تھا۔ عقاب بھی اندر گیا۔ جب وہ گوشت کوپنجوں میں دبائے ہوئے باہر آیا تو گوشت کے ساتھ ایک سرخ یاقوت چپکا ہوا تھا۔‘‘
شہربرازنے وہ یاقوت اس شخص سے لے کر عبدالرحمٰن بن ربیعہ کو دیا۔ عبدالرحمٰن نے دیکھ کر واپس کیا اور اس شخص سے پوچھا ’’’’روم‘‘ کا کیا حال ہے؟ وہ (دیوار) کیسی ہے؟‘‘
وہ بولا ’’بالکل ایسی جیسا ان کا کپڑا (مطر کی قبا)۔‘‘
مطر نے عبدالرحمٰن سے کہا ’’یہ سچ کہہ رہا ہے۔ یہ وہاں تک گیا ہے اور دیکھ کر آیا ہے۔‘‘
عبدالرحمٰن بولے ’’ یہ غالباً لوہے اور پیتل کی صورت بیان کر رہا ہے۔‘‘
لیکن درج بالا واقعہ سے واضح نہیں ہوتا کہ اس سے مراد ‘‘سدّ ِ دربند‘‘ ہے یا ’’سدّ ِداریال؟‘‘ خلیفہ واثق باللہ عباسی (۲۲۷ھ تا ۲۳۲ھ) نے خواب دیکھا کہ سدّ کا کچھ حصہ کھل گیا ہے۔ اس نے تحقیق کے لیے آدمی بھیجنا چاہا۔ وزراء نے رائے دی کہ اس کام کے لئے سلام مترجم سے موزوں کوئی آدمی نہیں کہ وہ تیس زبانیں جانتا ہے۔ خلیفہ نے اس کو پچاس مستعد اور مضبوط جوانوں کے ساتھ مہم پر روانہ کیا۔ گرم کپڑوں کے علاوہ پانچ ہزار دینار صلہ کے طور پر اور دس ہزار درہم دیت (اگر جان ضائع ہو جائے) کے طور پر۔ علاوہ ازیں سال بھر کے اخراجات ان جوانوں کے حوالے کئے گئے۔
یہ مہم ۱۵ماہ میں ’’سرمن رائے‘‘ سے چل کر تفلیس (آرمینیا)، سریر، لان، فیلان شاہ، طرخان (خزر) سے ’’سدّ‘‘ تک پہنچی۔ راستہ میں ۲۲ ساتھی ہلاک ہوئے۔ واپسی دوسرے راستے سے ہوئی۔ اس میں ۱۲ ماہ صرف ہوئے اور ۱۴ آدمی جان سے گئے۔ اس طرح ۳۶ ساتھی اس تحقیقی مہم میں کام آئے۔ سوا دو سال سے کچھ اوپر مدت میں یہ سفر تمام ہوا۔
چین کی دیوار کی ماہیت
عالم اسلام کے ممتاز جغرافیہ داں، ابن خردازیہ نے اپنی کتاب ’’المالک و الممالک‘‘ میں سدّ ِ ذوالقرنین کی ہیت کچھ یوں بیان کی ہے:
’’سدّ‘‘ کے پاس ایک بلند گول پہاڑ پر ایک قلعہ ہے اور وہ سدّ جو ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ہے، وہ ایک راستہ (درّہ) دو پہاڑوں کے درمیان تھا۔ یہ ۲۶۰؍ ہاتھ چوڑا تھا۔ اس راستے سے یاجوج و ماجوج قتل و غارت گری کرنے آیا کرتے۔ ذوالقرنین نے راستے کو بند کرنے کے لئے جو دیوار اٹھائی، اس کی بنیاد ۳۰؍ ہاتھ گہری کھدوائی، پھر اس کو لوہے اور تانبے سے بنوا کر زمین کے برابر تک لایا۔ راستے کے دونوں پہلوئوں پر پہاڑ سے ملے ہوئے دو بازو بنوائے۔ ہر بازو ۲۵؍ ہاتھ چوڑا اور ۵۰؍ہاتھ اونچا تھا۔ یہ سب لوہے کی اینٹوں کا تھا، جس پر تانبا پگھلا کر ڈال دیا گیا۔ ہر اینٹ ۴ انگل موٹی اور ڈیڑھ ہاتھ لمبی اور چوڑی تھی۔ لوہے اور تانبے کی یہ ساری عمارت پہاڑ کی چوٹی تک چلی گئی ہے۔ اس کے اوپر لوہے کی ۳۷؍ برجیاں ہیں۔ ہر برجی ۵؍ ہاتھ لمبی اور ۴؍ ہاتھ چوڑی ہے۔ دروازہ بھی لوہے کا ہے۔ اس کے دو پٹ ہیں۔ ہر پٹ ۵؍ ہاتھ چوڑا، ۷۵؍ ہاتھ لمبا اور ۵؍ ہاتھ موٹا ہے۔ دروازے اور پہاڑ میں اتنی درز بھی نہیں کہ ہوا آ سکے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ڈھال دیے گئے ہیں۔
دروازے پر قفل بھی ہے۔ یہ قفل ۷ ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ موٹا گولائی میں ہے۔ اسے دو آدمی اپنے گھیرے میں نہیں لے سکتے۔ یہ زمین سے ۲۵؍ ہاتھ اونچا ہے۔ اس کی کنجی ڈیڑھ ہاتھ لمبی اور اس میں ۱۲ دندانے ہیں۔ اس کی گولائی ۴؍ بالشت ہے۔ دروازے کے ساتھ ۲؍ قلعے ہیں۔ قلعوں کے دروازوں پر ۲ درخت ہیں اور دونوں قلعوں کے درمیان آبِ شیریں کا چشمہ ہے۔ سدّکی تعمیر کے وقت لوہے کے دیگدان (چولھے) اور ہانڈیاں، جن میں تانبا پگھلایا گیا تھا، وہ سب یہاں موجود ہیں۔
ابوریحان البیرونی (۴۲۱ھ) نے سدّ ذوالقرنین کے جائے وقوع کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دنیا کے شمال مغربی حصہ میں ہے۔ الادریسی نے چھٹی صدی کے وسط میںنزہۃ المشتاق لکھی، اس میں دنیا کا نقشہ بنایا اور نقشے میں سدّ ِ ذوالقرنین کا جائے وقوع بھی دیا۔ محققین کی آراء اور ان کا اختلاف اپنی جگہ لیکن ایک بات قابلِ غور ہے، یہ کہ اب تک صرف دو مقامات ایسے ہیں جہاں سدّ ِ ذوالقرنین کے آثار اور کھنڈرپائے جاتے ہیں۔ یہ دو مقامات ’’دربند‘‘ اور ’’داریال‘‘ ہیں۔ ان کے علاوہ اور کہیں اس کے آثار نہیں ملے۔
اس صورت میں یہ تو متحقق ہو گیا کہ سدّ ِ ذوالقرنین دربند میں تھی یا داریال میں۔ اب سوال ہے کہ دونوں میں سے وہ ایک کون سا مقام ہے جہاں ذوالقرنین نے دیوار بنائی۔ وسطِ ایشیا کے نقشے پر غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دربند شہر سے مغربی سمت وہ علاقہ جو آج کل ’’ولادی قفقاز‘‘ (Vladi Kavkaz) کہلاتا ہے، وہیں کسی جگہ درّہ داریال واقع ہے۔ ان ہر دو مقامات کے درمیان اتنا طویل فاصلہ نہیں جسے ہم بہت کہہ سکیں۔ لہٰذا دربند اور داریال کے اس سارے علاقے کو ایک ہی علاقہ شمار کر لینے میں کوئی خاص چیز مانع نظر نہیں آتی۔
بعض محققین دیوار کو نوشیرواں یا سکندرِاعظم سے منسوب کرتے ہیں، تب بھی ۵۰؍ میل کے اس علاقے میںاتنی لمبی دیوار تعمیر کرنے میں پہل کس نے کی؟ ظاہر ہے پانچ سو قبل مسیح میں ذوالقرنین کے سوا، جسے ایرانی ’’کوروش‘‘ اور یورپی ’’سائرس‘‘ کہتے ہیں، اس علاقے میں اور کوئی فاتح نہیں پہنچا۔ سبھی فاتحین ذوالقرنین کے بعد ہی وہاں پہنچے۔ چنانچہ ایک کام کی ابتدا کرنے والے کو اس سے نسبت دینے میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن پاک کا حوالہ اس ضمن میں کافی اور مضبوط ہے۔ مولانا مودودیؒ کی رائے بھی اس سلسلے میں وقیع ہے، ملاحظہ کیجئے۔ مولانا تفہیم القرآن کی تیسری جلد کے ضمیمہ نمبر ۲ میں فرماتے ہیں:۔
’’ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں کا یہ غلط خیال ہے کہ اس سے مراد مشہور دیوار چین ہے۔ حالانکہ دراصل یہ دیوار قفقاز (Caucasus) کے علاقے داغستان میں دربند اور داریال (Darial) کے درمیان بنائی گئی۔ قفقاز (کاکیشیا) بحیرہ اسود (Black Sea) اور بحیرہ خزر (Caspian Sea) کے درمیان واقع ہے۔ اس علاقے میں بحیرہ اسود سے داریال تک نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درّے ہیں کہ کوئی بڑی فوج نہیں گزر سکتی۔ البتہ دربند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے، اس میں پہاڑ زیادہ بلند نہیں اور ان میں کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔‘‘
’’قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اسی سمت سے جنوب کی طرف غارت گرانہ حملے کرتی تھیں۔ ایرانی فرماروائوں کو اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ انھی حملوں کو روکنے کے لئے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی گئی جو ۵۰؍ میل لمبی، ۲۹۰؍ فٹ بلند اور ۱۰؍ فٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک تاریخی طور پر یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ دیوار ابتداً کب اور کس نے بنائی مگر مسلمان مؤرخین اور جغرافیہ نویس اسی کو سدّ ِ ذوالقرنین قرار دیتے ہیں۔ اس کی تعمیر کی جو کیفیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے، اس کے آثار اب بھی وہاں پائے جاتے ہیں۔‘‘
’’ابنِ جریر طبری اور ابنِ کثیر نے اپنی تاریخوں میں یہ واقعہ لکھا ہے اور یاقوت نے بھی معجم البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے آذربائیجان کی فتح کے بعد ۲۲؍ ہجری میں سُراقہ بن عمرو کو باب الابواب (دربند) کی مہم پر روانہ کیا۔ سُراقہ نے عبدالرحمٰن بن ربیعہ کو اپنے مقدمۃ الجیش کا افسر بنا کر آگے بھیجا۔ عبدالرحمٰن جب آرمینیا کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں کے فرمانروا، شہربراز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کر لی۔ اس کے بعد انھوں نے باب الابواب کی طرف پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر شہربراز نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے ایک آدمی کو سدّ ِ ذوالقرنین کا مشاہدہ اور اس علاقے کے حالات کا مطالعہ کرنے بھیجا تھا، وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کر سکتا ہے۔‘‘
’’چناچہ اس نے عبدالرحمن کے سامنے اُسے پیش کر دیا۔ اس واقعہ کے ۲؍ بعد عباسی خلیفہ واثق (۲۲۷ھ۔ ۲۳۳ھ) نے سدّ ِ ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لیے سلام الترجمان کی قیادت میں ۵۰؍ آدمیوں کی ایک مہم روانہ کی جس کے حالات یاقوت نے معجم البلدان اور ابنِ کثیر نے البدایہ و النہایہ میں خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ یہ وفد سامرہ (سُرَّ مَنْ رَأیَ) سے ثقلیس، السّریر اور اَللّان سے ہوتا ہوا فیلان شاہ کے علاقے میں پہنچا۔ پھر خزر کے ملک میں داخل ہوا اور اس کے بعد ’’دربند‘‘ پہنچ کر اس نے سدّ (دیوار) کا مشاہدہ کیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں بھی مسلمان عموماً قفقاز کی دیوار ہی کو سدّ ِ ذوالقرنین سمجھتے تھے۔‘‘
’’یاقوت نے معجم البلدان میں متعدد مقامات پر اسی امر کی تصریح کی ہے۔خزر کے زیرِ عنوان وہ لکھتا ہے ’’یہ ترکوں کا علاقہ ہے جو سدّ ِ ذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے اور جسے ’’دربند ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ خلیفہ المقتدرباللّٰہ کے سفیر، احمد بن فضلان کی ایک اطلاع نقل کرتا ہے جس میںمملکتِ خزر کی تفصیلی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام اتل ہے۔ دریائے اتل اسی شہر کے درمیان سے گزرتا ہے۔ یہ دریا روس اور بلغار سے آکر بحرِ خزر میں گرتا ہے۔‘‘
’’یاقوت باب الابواب کے زیرِ عنوان لکھتا ہے کہ اس کو الباب اور دربند بھی کہتے ہیں۔ یہ بحرِ خزر کے کنارے واقع ہے۔ بلادِ کفر سے بلادِ مسلمین کی طرف آنے والوں کے لئے یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ ایک زمانے میں یہ نوشیرواں کی مملکت میں شامل تھا اور شاہانِ ایران اس سرحد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔
قرآن پاک میں سدّ کا گرنا اور یاجوج ماجوج کا ہر بلندی سے اترنا مذکور ہے۔ پہلی بات کا بائبل میں ذکر نہیں کیونکہ اس وقت تک سدّ تعمیر نہیں ہوئی تھی، دوسری اس کے مطابق ہے۔ احادیث میں خروجِ یاجوج ماجوج قیامت کے دس آثار میں سے ایک ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ اِن اقوام کا خروج اقوامِ عالم کے لئے سخت خطرہ اور سخت ترین خونریزی کا موجب ہوگا اور یہ خطرہ قیامت سے پہلے ضرور وقوع میں آئے گا۔ چنگیز خان کی قیادت میں منظم ہونے والے تاتاری جنگجو قبائل کا خروج ایک مصداق تو ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں کہ قیامت تک ان کا کوئی خروج نہ ہو۔ عین ممکن ہے کہ شمالی اقوام پھر کسی وقت اس سے بھی زیادہ تباہ کن حملہ کریں اور امنِ عالم کو تہ و بالا کر ڈالیں۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی طے شدہ ہے کہ وہ غارت گر اقوام اُسی سمت (شمالی پہاڑی علاقوں) سے اُتر کر آئیں گی جس سے عہدِ عتیق میں آتی رہی ہیں۔
تبصرے بند ہیں۔