لطیف آنچ پہ سب کچھ بھلا کے تپنے کا

افتخار راغبؔ

لطیف آنچ پہ سب کچھ بھلا کے تپنے کا

ہے عشق نام ہی تڑپانے اور تڑپنے کا

بندھی تھی عشق میں دستار جب فضیلت کی

ملا تھا کام فقط ایک نام جپنے کا

بتاؤ کس سے رہی اور داد کی خواہش

نہ کوئی شوق ہی مجھ کو رہا ہے چھپنے کا

اترتے جاتے ہیں دل میں بتاتے کچھ بھی نہیں

ارادہ دل میں ہے بسنے کا یا ہڑپنے کا

یہی بنیں گے تناور درخت یاد رہے

ملا جو ٹھیک سے موقع انھیں پنپنے کا

پھر اس کے بعد مری نیند اُڑ گئی راغبؔ

کسی نے سرمہ لگایا تھا میرے سپنے کا

1 تبصرہ
  1. محمد حسن کہتے ہیں

    ’لطیف آنچ پہ سب کچھ بھلا کے تپنے کا‘ جناب والا ! ویسے تو میں آپ کی بہت ساری غزلوں کو پڑھا اور بار بار پڑھا، آپ کے کچھ اشعار کو کبھی مرجع بھی بنایا لیکن اس غزل کوپڑھتے ہی گنگنانے لگا، آواز بے سر ہی سہی لیکن مست ہوگیا اور خیالوں میں کھو گیا، کمال کی ندرت ہے اور انوکھے تعبیرات ہیں اس غزل میں۔ اللہ کرے زمانہا سلامت رہیں اور خوب ترقی کریں!

تبصرے بند ہیں۔