برداشت (آخری قسط)

ندرت کار

روحانی سکالر میاں مشتاق عظیمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

’’ہمارے معاشرے کا عجیب ہی چلن ہو گیا ہے، بچہ والدین کی بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اسی طرح والدین بچے کی بات نہیں مانتے،  معاشرے میں افراد کی اکثریت اپنا موقف درست تسلیم کئے جانے پر مصر ہے چاہے وہ صحیح ہے یا غلط، اس کے لئے انھوں نے طرح طرح کے دلائل گھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے میں عدم تحفظ بہت زیادہ پایا جاتا ہے کوئی فرد جو گھر سے نکلتا ہے اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ گھر کو واپس لوٹے گا بھی کہ نہیں۔

عدم برداشت کی ایک وجہ معاشی بدحالی بھی ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزگار کے وسیع مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بھی افراد کی اکثریت ذہنی دباؤ میں رہتی ہے جس سے انسانی رویے میں غصہ پیدا ہوتا ہے، جیسے ایک خاتون اگر بازار میں خریداری کرنے جاتی ہے تو اس میں اس وجہ سے غصہ پیدا ہو رہا ہے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔
یہ غصہ پورے معاشرے میں ہے اور جس کا اظہار کبھی احتجاج کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں، جرائم بڑھ رہے ہیں، فرقہ واریت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسلام رواداری کا درس دیتا ہے، اگر ہم لوگ حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں تو ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔  حکومت ہر فورم پر رواداری کو اجاگر کرنے کے لئے کوشش کرے، مذہبی و سماجی رہنما اس حوالے سے خاص طور پر کردار ادا کر سکتے ہیں۔  عوام میں پایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں اس سے عوام کو ذہنی سکون ملے گا۔اور اس سے  عوام میں پایا جانے والا خوف یا غصہ بھی کم ہو گا۔ ‘‘

برداشت اور قوتِ برداشت !

فصلِ گل ہو یا فصلِ دل۔  جس کی برداشت زیادہ ہوتی ہے، وہ فصل بارآور بھی زیادہ ہوتی ہے۔ برداشت کاتعلق قوت سے ہے اور قوت کا تعلق برداشت سے!! برداشت ایک تخلیقی قوت ہے۔ قوتِ برداشت حسن کو عدم سے وجود میں لاتی ہے اور عدم برداشت وجودِ حسن کو سوئے عدم لے جاتی ہے۔ برداشت ترتیب کا باعث ہے اور ترتیب جب اپنے حسنِ ترتیب کو پہنچتی ہے تو حسن کہلاتی ہے۔عدم برداشت ایک داخلی انتشار ہے۔۔۔ اور انتشار وجود میں ہو یا خیال میں ‘ زندگی کی لَو مدھم پڑجانے کی علامت ہے۔ برداشت مخفی کو ظہور میں لاتی ہے۔ درحقیقت باطن میں موجود بے پایاں حسن کو پردۂ ظاہر پر لانے کی موجد قوت کانام برداشت ہے۔

برداشت دانائی کا پیش خیمہ ہے۔ جب ہم برداشت کے خیمے میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں توقف اور تفکر کا موقع ملتا ہے۔ تفکر کی خوبی یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنی خامیوں پرمتفکر ہوتاہے۔جب تک اپنی خامیاں نظر میں رہیں‘ اِنسان غرور کے پھندے میں نہیں پھنستا۔ اپنی کوتاہیاں پیشِ نظرہوں تو دوسروں کو معاف کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

ہمیں دوسروں کے عمل سے زیادہ اُن کی نیت پر غصہ آتا ہے۔ ۔۔ حالانکہ دوسروں کی نیت اُن کے متعلق ہمارا ایک گمان ہی تو ہوتا ہے۔۔۔ اور ہمارا گمان ہمارے اختیار میں ہے۔گمان اچھا بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ نیت کے بھید تو دلوں کے بھید جاننے والا ہی بہترجانتا ہے۔
ایک چھوٹی سی برداشت‘ بڑی دانائی دے کر جاتی ہے۔کسی معاشرے میں قوتِ برداشت کا ہونا اُس کے تہذیب یافتہ ہونے کی علامت ہے اور عدم برداشت جہالت کی نشانیوں میں سے ہے۔ انسانی تہذیب کی ساری تاریخ بس ایک قوتِ برداشت کی بتدریج ترویج سے عبارت ہے۔

آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ اس لیے اِس کی طینت میں عاجزی کو دخل ہے۔ ابنِ آدم جب تک انکسار میں رہتا ہے، اپنی فطری جوہر کے قریب رہتا ہے، عافیت میں رہتا ہے۔ جب آگ بگولا ہوتا ہے ‘اپنی طینت سے بغاوت کا مرتکب ہوتا ہے۔ مٹی کا و صف، جو اِسے آگ سے ممتا ز کرتا ہے، وہ اس کی قوتِ برداشت ہے۔ زمین کی قوتِ نمو، اِس کی قو تِ برداشت کے سبب ہے۔ یہ زمین کی کشادگی ہے کہ بدبودار کو ڈھانپ لیتی ہے اور خوشبودار پیدا کیے چلے جاتی ہے۔

بس صفتِ "بوترابی” یہی ہے کہ زمین کے بیٹے بھی دوسروں کے بدبود ار رویے اپنی برداشت کی عبامیں چھپا لیں۔ ۔۔بدلہ نہ لیں۔ ۔۔ بلکہ بدبو کے بدل میں خوشبو دار رویوں کو فضا میں درد کے سورج کی طرح اُچھال دیں۔  بہشت سماوی سے نکل کر آنے والوں پر لازم ہے کہ اپنے جنت زار رویوں سے یہاں بہشتِ ارضی پیدا کریں۔ ظاہر ہے، بہشتی دروازہ زمین پر نصب ہوتا ہے۔اِخلاقیات کے تمام سَوتے برداشت سے پھوٹتے ہیں۔اِلٰہیات اخلاقیات کے بغیر محض ایک فلسفہ ہے۔

گویا دین کو فلسفے سے نکال کر عمل میں داخل کرنے والی قوت ، قوتِ برداشت ہے۔ اخلاقیات کا سارا نصاب اپنی انا کی تیز دھار تلوار کو برداشت کی نیام میں رکھنے پر مشتمل ہے۔ جس کی اَنا طاقتور ہوتی ہے، اُس کیلئے برداشت ایک کڑاا متحان ہے۔ عاجزی کی گدڑی پہننے والے برداشت کی کڑوی گولی دانت پیسے بغیر نگل لیتے ہیں، نتیجہ یہ کہ شفا یاب ہوجاتے ہیں۔ اِس کے برعکس اَناکی کلف والے جاڑجٹ میں ملبوس لوگ خود کوگلیوں بازاروں میں کتنا بھی مہذب ظاہر کریں ، جب انسانی معاملات کے آنگن میں آنکلتے ہیں تو یکدم ننگے ہوجاتے ہیں۔

برداشتایک خالصتاً دینی جذبہ ہے۔ اگر اِسے دین سے ہٹ کر پروموٹ کیا جائے تو self-improvement اور selfishness میں فرق نہیں رہتا۔ صرف اپنے فائدے کیلئے اخلاقیات کا سبق سیکھا جائے تو نفاق اور diplomatic tactics کے ہنرکے سوا اور کیاہے۔
اِخلاق اور نفاق میں فرق صرف اخلاص کا ہے۔اِخلاص اپنے مفاد اور مزاج کی نفی کا نام ہے۔ اِخلاص صرف فی سبیل اللہ ہوتا ہے اور اللہ ایک ذات کا نام ہے، کسی سائینسی اور اخلاقی مجوعۂ قوانین کا نام نہیں۔  وہ مقدس ذات اپنے مزاج یعنی پسند اور ناپسند کی خبر جس ذات کے ذریعے مخلوق کو دیتی ہے ‘ وہ ذات مخبرِصادق ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔

مکّے کی گلیوں میں کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی خبر گیری سے لے کر طائف کی وادی میں لہو سے وضوکرنے کے بعد اہلِ طائف کے حق میں دعا کرنے تک۔  سارا سفر اخلاق کا سفر ہے۔۔۔ اور  یہ سفر برداشت کی سواری پر طے ہوتا ہے۔ صلحِ حدیبیہ سے فتحِ مکہ تک‘ سارے معرکے، دراصل قـــــــــوتِ برداشـــــــت کے معرکے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔