شام کا عام: اتحادکاایک ژاویہ نگاہ

رضی الہندی

اکثر اسلام پسند مسلمانوں کو دیکھا جائے تو آج شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں، تبصرہ کرنے سے مختلف فوائد حاصل کیے جاتے ہیں:

1۔ دل کو سکون مل جاتا ہے کہ ھم بھی مظلوم بھائیوں کے غم میں شریک ہیں .

2۔  سامنے والے کو دلاسہ دے دیا جاتا ہے کہ ہم بیدار ہیں۔

3۔ آزو بازو کے افراد مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم مجبور ضرور ہیں لیکن ناکارہ نہیں۔

4۔ تبصرہ کار کا سینہ 56 انچ کا ہو جاتا ہے کہ لوگوں نے اس کی سنی اور متفق ہوئے ہیں۔

لیکن غور کریں تو یہ سب وقتی فائدے ہیں ان سے دور رس نتائج نہیں نکالے جا سکتے ہم آپ تعلیم کے میدان میں تحریروں کے ذریعے احتجاج کر رہے ہیں عملی طور پر ناکام ہورہے ہیں۔ کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جتنے صفحات ہم نے سیاہ اپنی معصومیت کے اثبات میں کئے ہیں اسکا دس فیصد بھی کام نہیں کر رہے۔

سچ ہے شام اکھاڑہ کا میدان بنا ہوا ہے اور ہر بڑا کھلاڑی اپنا داؤ چل رہا ہے اور حتی الامکان بہتر مظاہرہ کر رہا ہے اور اپنی رنگ کی ہر چھوٹی وبڑی مٹی کو ھباءمنثورہ کر رہا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

 ہم دور بیٹھے ہوئے ہیں اور تماشہ بیں بنے ہوئے ہیں کیونکہ ہم نے اپنی زندگی میں  چوٹ کھائی ہے اپنے اعضاء کھوئے نہیں ہیں اور فلمی دنیا کے مکاروں کی طرح فن اداکاری دکھانے میں لگے ہیں۔ ہر ایک فنکار بنا اور اپنے اس جوھر سے شہرت ھمالیہ اور دولت کا  دریا کمانا چاہتا ہے۔

 ملک شام انبیاء کرام کی سرزمین رہی ہے اور یہاں پر عظیم الشان پیغمبروں کی قبریں ہیں تو وہیں انکے بعد صحابہ کرام کی گور بھی ہیں۔

آج یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس زمین میں علم توحید کے علمبردار مدفون ہیں وہاں پر کشت و خون کا بازار گرم ہے اور یہ نکتہ بھی ذھن میں رکھیں کہ انکی امتیں جو کہ بعد کو امت محمدیہ میں ضم ہو گئیں انکی بھی اس سرزمین میں قبریں ہیں۔ ۔

1۔انبیاء کرام کی قبریں

2۔انبیاء کرام کے اصحاب و حواریین کی قبریں

3۔اصحاب خاتم النبیین ومحمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبریں ہیں

مذکورہ تین نکات کو سامنے رکھکر سوچیں جنکو جنت کی بشارت دنیا میں مل چکی ہے۔

انبیاء کرام علیہم السلام

انکے جنتی ہونے میں کسی کو شبہہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہے!

ان کے متبعین کے بہشتی ہونے میں کوئی شک کہ وہ بزبانِ رسالت خوشخبری پاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ؟

نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہے۔ ۔ !

پھر رحمۃ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء و اصحاب ان کے انجام آخرت میں کوئی تردد۔ ۔ ۔۔ ۔ ؟

نہیں ہے!

میرے ان بھائیوں کو سوچنا چاہئے کہ جب وہ آج شام کے حالات میں اہل شام کا اپنی قبروں و مرقدوں سے مدد نہیں کر پا رہے۔ ۔ ۔ تو انکے مقابلے میں آجکل کے پیر فقیروں، اور نام نہاد و جھوٹے، من گھڑت اولیاء کی کیا حیثیت ہے،  ادھر انبیاء کرام امت محمدیہ کے افراد کے معین ومددگارنہیں بن پا رہے ہیں تو خواجہ و علماء  آخرت کے میدان میں سپر پاور سے کیا مقابلہ کر پائیں گے۔

دوستوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

اسلام میں زندگی کے جو راہنما اصول بتائے گئے ہیں انکو اپنانے کی ضرورت ہے اور پھر باباوآباپرستی سے توبہ کر صحابہ کرام کے عقیدہ کا محافظ بن نے کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔ ۔نہیں تو یاد رکھیں۔

شام میں گزشتہ کئی سالوں سے خانہ جنگی ہو رہی ہے یہ جنگ عوام کی طرف سے شروع ہوئی جس میں بشار الاسد جو کہ کئی سالوں سے ایک آمر بن کر شام پر حکوت کر رہا ہے اور مامورین پر دست درازی کی اور کبھی بیس ہزار  تو کبھی سینکڑوں کی تعداد می بطریقہ فرعون موحدین کو موت کے گھاٹ اتار دیا کرتا تھا قوت برداشت جواب دے گئی اور بغاوت کا سماں پیدا ہوا باغیوں کو کچلنے کیلئے حکومت نے اپنے پالتو انسان نما درندوں کو چھوڑ دیا یہ باغی موحدین تھے ان کو بھی روز روز کی بزدلانہ موت برداشت نہیں انہوں نے بلا تعاون غیرے مقابلہ شروع کر دیا اور جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھا۔

بعد ازاں اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ میں بدل دیا گیا۔ جس میں ایران و عراق و ملیشیاء اور پاکستان کے شیعہ بھی کثیر تعداد میں شرکت کر رہے ہیں جب کہ سنی مسلمانوں کی متحدہ فو ج اس وقت بھنگ پی کر سو رہی ہے اور الفاظ کے توپ اور نعرہ اتحاد کی میزائلیں چلا رہی ہیں۔

گزشتہ سال سنیوں کے علاقہ حلب کو جہنم کدہ بنایا گیا جس میں ہزاروں بچے بوڑھے ، خواتین شہید ہوئیں گزشتہ دنوں سے اب ایک اور شامی شہر روس اور شیعہ ملیشیا کی زد میں ہے جس کا نام غوطہ ہے جس پر دن رات بمباری ہو رہی ہے اور افسوس کی بات کے اس بار نشانہ عوام کے ساتھ بچے و دارالشفاءبھی ہیں۔ اب کس جگہ علاج معالجے کیلئے دوڑینگے نتیجتاً زخم خوردہ افراد تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔

ہسپتال ختم اس صورت حال کو بھانپ کر کچھ انسان دوست آگے بڑھے لیکن مشرقی غوطہ میں طبی امداد کے لئے کسی بھی ملک کو نہیں جانے دیا جا رہا اور نہ ہی ریڈ کراس کو اندر جانے دیا جارہا ہے اور خدشہ بھی ہے کہ اس بار حملوں میں نئے جدید ہتھیار آزمائیں جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ کیمیکل ہتھیار کا بھی استعمال ہورہا ہے۔

ہم آج تک قرآن و احادیث صحیحہ کی بنیاد پر متحد نہیں ہو رہے اور ہمارا دشمن مبدء وحی مکہ مکرمہ اور مسکن رسول آخرالزماں کی طرف اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔

حوثی باغی یہ عقل کے پجاریوں اور رافضیوں کا ٹولہ جسکو ایران وشام ترکی وملیشیا کے شیعوں کی حمایت حاصل ہے اور ابتک یہ گروہ اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ حرمین الشریفین کو ٹارگیٹ کرنے والی میزائلیں تک تیار کر چکا ہے اور سو سے زائد میزائلوں وقفہ وقفہ سے بیت اللہ و مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا چکا ہے اور یہ مقام مسرت ہے کہ سعودی فوجیوں نے انکے ہر حملے کو ناکام بنا دیا ہے ذرا سوچئے کسی دن چوک ہوگئی تو کتنا بڑا حادثہ ہوجائے گا۔وقت ہے ہوش کے ناخن لیں۔  اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے پاسبان بنا۔ ۔ ۔ آمین

اس ہفتے سلامتی کونسل میں ایک قرار داد منظور ہوئی جس میں فوری جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا لیکن خبر رساں ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود بھی روزانہ کیبنیاد پر لڑائی جا ری ہے۔ یہ تو محض اہل دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونپنے کیلئے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔