انسان اور زمین کی حکومت (قسط 87)

رستم علی خان

چنانچہ بموجب حکم حضرت لقمان کے بیٹا جب رخت سفر باندھ چکا تو دوبارہ اپنے والد یعنی حکیم لقمان کی خدمت میں حاضر ہوا- تب لقمان کہنے لگے، اے بیٹا! جب جاو گے راہ میں ایک میدان پاو گے- اس میدان میں ایک چشمہ ہے- جس کا پانی نہایت ٹھنڈا اور شیریں ہے- اور اس کے کنارے ایک درخت ہے جس کی چھاوں گھنی اور فرحت بخش ہے- لیکن خبردار اس درخت کے سائے تلے ہرگز نہ بیٹھیو اور اللہ تم کو اس مہلکہ سے محفوظ رکھے- اور وہاں تم کو ایک شخص بوڑھا ضعیف تم کو ملے گا جو عمر میں اس درخت سے بڑا ہے- پھر جیسا وہ تم کو کہے اس کی بات لازمی مانئیو- اور دوسری بات یہ کہ جب آگے جاو گے تو فلاں گاوں میں جانا وہ لوگ میرے دوست ہیں اور تم کو اپنے گھر لے جائیں گے تعظیم و تکریم سے اور اس گاوں میں ایک عورت ہے نہایت حسین و جمیل اور مالدار پس تم کو اس عورت سے بیاہ دینا چاہیں گے لیکن تم ہرگز قبول نہ کیجئو اور خدا اس سے تمہیں اپنی پناہ میں رکھے- اور تیسری بات یہ کہ ایک شخص فلاں نامی اور فلاں شہر میں رہتا ہے- ایک مدت ہوئی مجھ سے قرض لیکر گیا ہے پس اس سے وہ قرض وصول کیجئو اور خبردار شب کو وہاں نہ ٹھہرنا- اور یہ تمام نصیحتیں یاد رکھنا اور اب جاو میں نے تمہیں خدا پر سونپا-

چنانچہ وہ اپنے باپ کی بتائی گئی باتوں کو تسلیم کر کے سفر پر نکلا- جب میدان مذکورہ میں پنہچا جس کے بارے اس کے باپ نے نصیحت کی تھی- اس کے کنارے ایک چشمہ پانی کا پایا- اس کا پانی نہاہت شیریں و شفاف اور اس چشمہ کے کنارے ایک درخت پایا جس کے سائے تلے ایک شخص بزرگ کامل بیٹھا ہوا تھا- مارے گرمی اور پیاس کے چاہتا تھا کہ اس چشمہ سے پانی پئیے اور اس درخت کے سائے تلے دم بھر کے لیے آرام کرے- لیکن اسی وقت اسے اپنے باپ کی کی گئی نصیحت یاد آئی تو وہاں سے قدم آگے بڑھانے لگا-

تب اس بزرگ نے جو درخت کے نیچے بیٹھا تھا پکارا، اے لڑکے کہاں جاو گے ایسی دھوپ میں اور سخت گرمی پڑ رہی ہے پس اس چشمے کا ٹھنڈا پانی پئیو اور زرا چھاوں کے تلے دم لے لو میرے پاس آ کر بیٹھو-

لڑکا بولا ہرگز نہیں بیٹھوں گا کہ میرے باپ نے مجھے منع کیا ہے اس درخت کے سائے میں بیٹھنے سے- تب وہ بزرگ کہنے لگا قسم ہے تیرے رب کی اس دھوپ اور گرمی میں نہ جا اور میرا کہا مان- یہ بات سنتے ہی لڑکے کو باپ کی بات یاد آئی کہ وہ بزرگ تجھے جیسا کہے اس کا کہا مانئیو- تب لڑکے نے اس بزرگ کا کہا مانا اور خلاف اس کے نہ کیا سلام کر کے بیٹھ گیا- چشمے سے ٹھنڈا پانی پئیا اور تھوڑی دیر سستانے کو لیٹ گیا اور سو گیا- تبھی اس درخت پر سے ایک سانپ اس لڑکے کو کاٹنے کے لیے اترا لڑکا سوتا تھا لیکن بزرگ جاگتے تھے پس اس بزرگ نے سانپ کو مار کر سر اس کا کاٹ لیا- جب لڑکا آٹھا تو دیکھا کہ ایک سانپ مردہ پڑا ہے بغیر سر کے پس بزرگ سے حال حقیقت معلوم کر کے متعجب ہوا اور باپ کی پہلی نصیحت کا راز جانا-

بعد اس کے لڑکا وہاں سے اٹھا اپنا اسباب سفر باندھا اور اس بزرگ کو سلام کر کے جانے کی اجازت طلب کی- تب بزرگ آدمی نے پوچھا کہ تم کہاں کا عزم سفر رکھتے ہو- لڑکے نے کہا فلانے گاوں میں جاتا ہوں کہ وہاں میرے باپ کے دوست ہیں- بزرگ نے کہا اگر تم کہو تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں- لڑکے نے کہا بہت اچھا آپ بھی چلئیے- تب دونوں اس گاوں میں کہ جہاں کا ارادہ تھا پنہچے تو وہاں کے لوگوں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو- تب لڑکے نے کہا میں لقمان حکیم کا بیٹا ہوں اور یہاں تجارت کی غرض سے آیا ہوں- تب گاوں کے لوگ انہیں نہایت تعظیم و تکریم سے اپنے گھر لے گئے- اور انہیں کھانا کھلایا اور ہر روز مہمانداری کرنے لگے-

تب ایک دن کہنے لگے اے لڑکے ہماری قوم میں ایک عورت نہایت خوبصورت، نیک بخت، مالدار اور حسب و نسب میں درست ہے- ہم چاہتے ہیں کہ تم سے اس کا نکاح کر دیویں کہ یہ بات تمہارے واسطے اچھی ہو گی کہ مال و دولت خوب ہاتھ لگے گی- تب لڑکے نے کہا میرے باپ نے اس سے منع کیا ہے کہ سفر میں کسی امر کے پابند نہ ہونا ورنہ نقصان اور تکلیف اٹھاو گے- تب اس بزرگ نے جو ساتھ تھا کہنے لگا کہ جب یہاں کے سبھی رئیس آرزومند ہیں اور اس کی گواہی دیتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ حسین و مالدار ہے تو شادی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور کوئی اندیشہ نہ کر- تب لڑکے کو باپ کی نصیحت یاد آئی کہ وہ بزرگ جو بھی کہیں اس پر عمل کرنا۔

تب پسر سلیمان نے اپنے مصاحب یار کے کہنے سے اس عورت مالدار سے نکاح کیا- تب ایک شخص اس قوم کا لڑکے کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں حضرت لقمان کی بہت عزت و تکریم کرتا ہوں اور اس سبب سے تمہارا بھی خیرخواہ ہوں- تم نے ناحق اس عورت سے نکاح کیا- وہ بہت بری ہے اور قبل تم سے اپنے نو شوہروں کو اپنی خلوت گاہ میں مار چکی ہے- پس اب تم کو بھی مار ڈالے گی- سو اگر تم بھلا چاہتے ہو تو کسی حیلے بہانے سے یہاں سے نکل جاو- تب لڑکا اس شخص کی باتیں سن کر ڈرا اور لگا پچھتانے اور مغموم ہوا-

چنانچہ جب لڑکے کے مصاحب نے اسے رنجیدہ دیکھا تو پوچھا کہ تم کس بات کا اندیشہ کرتے ہو کیا سبب ہے جو میں تمہیں پریشان دیکھتا ہوں- تب لڑکے نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ میری بی بی کہ جس سے میں نے یہاں نکاح کیا ہے مجھ سے پہلے نو شوہروں کو پہلی خلوت شب زفاف میں مار ڈالا ہے ڈرتا ہوں کہ شائد مجھے بھی نہ مار ڈالے اور شائد اسی بات کے سبب سے میرے باپ نے مجھے اس نکاح سےمنع کیا تھا-

تب اس بزرگ نے کہا کچھ اندیشہ نہ کرو اور خاطر جمع رکھو- میں تمہیں ایک حکمت بتلائے دیتا ہوں اس کو کیجئو- وہ یہ کہ جب شب کو تمہاری بیوی تمہارے پاس خلوت کدے میں آئے تو کسی بہانے سے اسے وہاں چھوڑ کر میرے پاس آئیو تب ہم اس کی تدبیر اور علاج کریں گے- غرض جب اس کی بیوی شب کو اس کے پاس خلوت کدہ میں آئی تب اس نے بہانے سے کہا کہ تم یہاں بیٹھو میں زرا باہر سے ہو کر آتا ہوں- بیوی نے پوچھا کہاں جاتے ہو- لڑکے نے کہا کہ قضائے حاجت کو جاتا ہوں تم تب تک یہاں انتظار کرو اور اس کے علاوہ بھی ایک کام ہے وہ آن کے بتلاتا ہوں- تب لڑکا وہاں سے نکلا اور سیدھا اس بزرگ کے  پاس پنہچا- تب اس نے ایک آتشدان انگاروں سے بھرا ہوا لانے کو کہا- جب لڑکا آتشدان لے آیا تو بزرگ نے اس میں سر سانپ کا جو درخت کے نیچے سے کاٹ کر لایا تھا اس کو اس آتشدان میں رکھ دیا اور آتشدان کو لڑکے کے حوالے کیا اور کہا، اسے لیجاو اور اپنی بیوی سے کہو کہ برہنہ ہو کر اس آتشدان پر خود کو سینکواور بعد اس کے آتشدان کو دوبارہ میرے پاس لے آنا-

تب لڑکا وہاں سے گیا اور جیسا اس بزرگ نے کہا  تھا اپنی بیوی کو کہا- اور بعد اس کے سینکنے کے آتشدان واپس لے گیا- تب اس بزرگ نے دیکھا کہ دو سانپ اس انگیٹھی میں جل رہے ہیں- تب بزرگ نے کہا اب جاو اور بےخطر اپنی بیوی سے جماع کرو کہ جس کا ڈر تھا سو سانپ اس انگیٹھی میں جل رہا ہے- پس اسی سبب سے پہلے شوہر اس کے مارے جاتے تھے- چنانچہ پسر لقمان تمام شب اپنی بیوی کے پاس رہا اور فجر کو باسلامت خلوت سرا سے باہر آیا- اور اہل قریہ تمام ماجرا سنکر متعجب ہوئے اور پسر لقمان کے بچ جانے سے خوش بھی ہوئے-

بعد اس کے پسر لقمان نے ارادہ کیا کہ اپنے باپ کے قرض دار کے پاس جا کر قرض وصول کرے- تب اس بزرگ سے کہا کہ فلاں گاوں میں ایک شخص کے پاس میرے باپ کا روپیہ ہے سو چاہتا ہوں جا کر اس سے وصول کروں- تب اس پیر بزرگ نے کہا میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا- تب دونوں آدمی اس شخص کے پاس گئے- وہاں کے لوگوں سے اس کے بارے پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ وہ شخص تو بڑا فسادی اور دغاباز ہے- پس تم ناحق یہاں اپنی جان گنوانے کے واسطے آ گئے ہو- سو تمہارے حق میں بہتر ہے یہاں سے چلے جاو اور وہ دغاباز آدمی کسی کا روپیہ لیکر واپس نہیں کرتا-

لیکن ان دونوں نے لوگوں کی بات نہ مانی اور وہاں سے اس شخص کے پاس پنہچے اور بعد سلام کے لڑکے نے کہا کہ میں حکیم لقمان کا بیٹا ہوں اور اپنے والد کا قرض وصول کرنے کو آیا ہوں- تب اس نے کہا بہت اچھا آپ ہمارے بزرگ زادے ہیں سو آج کی رات مہمان نوازی کا شرف بخشئیے صبح کو حساب کتاب کر کے جو روپئیہ بنتا ہو سو واپس کر دوں گا- لڑکے نے کہا میرے باپ کا حکم نہیں کہ شب کو یہاں ٹھہروں- تب اس بزرگ نے کہا جو اس کے ہمراہ تھے کہ اے لڑکے کچھ پرواہ نہیں چلو آج کی شب یہاں رک جاتے ہیں پھر جو خدا نے ہماری قسمت لکھی ہے سو ہو کر رہے گا-

تبصرے بند ہیں۔