خوگر حمد سے کچھ گلا بھی سن لے

رفیع الدین حنیف قاسمی

آج ہمارا مادر وطن، ہمارا ملک عزیز ۷۱یوم جمہوریہ منارہا ہے، ہمارا ملک ساری دنیا میں جمہوریت اور سیکولرزم کے اعتبار سے مضبوط جمہوریت شمار ہوتا ہے، جن لوگوں نے اس کے دستور اور قانون کو بنایا تھا، وہ جہاں دیدہ اور ملک ووطن تئیں پیار ومحبت اور یہاں کے باسیوں کے چین وسکون کودیکھنا چاہتے تھے، انگریزکی غلامی کی شکل میں طوق وسلاسل کوانہوں نے اپنے گلوں سے لگا کر بہت کچھ سہا تھا، اب کے یہاں دینے کے لئے کچھ نہ تھا، ان تمام گرد وپیشکے حوال ،بیتے ہوئے دنوں کی خونچکاں داستاں ،تن کے گورے من کے گالوں نے جو غلامی کا طوق ہماریگلوں میں ایسا ڈال دیا تھاکہ ہمارا ملک خود ہمارے لئے ایک زنداں اور قید وبند سے کم نظر نہیں آتا تھا، ہمارے ملک کے قانون کے بنانے والوں نے ملک کے قوانین کو جب وقت ترتیب دیا اور اس کو بنایا تو اس وقت ان کے پیش نظر انگریزوں کی ظلم واستبداد کی خونچکاں داستانیں تھی،وہ ان کی ظلم واستبداد کی چکیوں میں پس کر تیارہوچکے تھے ، وہ بالکل ہوش مند، خرد نواز تھے انہوں نے اپنے آپ کو مصیبت کی بھٹیوں میں تپ کر کندنکند ن کرلیا تھا،  جس کے پیش نظر وہ نہیں چاہتے تھے ہمارے قانون میں کوئی بند یا شق ایسی ہو جو ملک کے کسی بھی باسی کے لئے اس کے چین وسکون اور اس کے راحت وآرام کے تج دے ، وہ خود اپنے اس ملک میں رہتے ہوئے اجنبی بن جائے ، جیسا انگریزوں کے دورِ غلامی میں تھا، ہندو مسلم سکھ عیسائی ملک کے ہر باسی نے جنگ آزادی میں ملک کو ان من کے کالوں سے آزاد کرانے میں اتنا ہی کردار ادا کیااور ان ہی خون دیا اور قید وبند کی صعوبتوں اور اذیتوں اور تکالیف کو سہا جس قدر کسی بھی  اس ملک کے باسی کو آزاد دیکھنے ، آزاد بولنے ، آزاد لکھنے ، آزاد کھانے ، آزاد پہنے اور آزاد زندگی گذارنے کے لئے کئے چاہاتھا، آج ہمارے ملک کو آزاد ہوئے تقریبا پون صدی گذرنے کو ہے ، جس آزادی کا خواب ہم نے دیکھا تھا، کیا وہ خواب پایہ تکمیل کو پہنچا ہے ؟ ، اس کے ثمرات اور اثرات وواقعتا روئے زمین پر نظر آنے لگے ہیں ؟، یا آج بھی ہم غیروں کے نہیں اپنوں کی غلامی تئیں کسک رہے ہیں ؟ یا آج بھی خوف وہراس کے سائے ہمارے مسلسل پیچھا کررہے ہیں ؟ کیا ہر شخص کو اپنی مذہبی آزادی کے اعتبار سے جینے رہنے ، سہنے ، پہنے اوڑھنے بلکہ قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت بھی حاصل ہے ؟ آج اتحادواتفاق، آپسی یگانگت ،بھائی چارہ، میل ومیلاپ ، ایک ملک کے باسی ہونے کے ناطے ہر ایک کو دوسرے سے ہمدری ، محبت ، الفت ، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت، بلا کسی عصیبت ، گروہ واری ، انتشار وافتراق کے ہر شخص اپنے زندگی کے ہر معاملے میں آزاد ہے ؟ یا کسی طرح سے کسی ایک مذہب کے حوالے سے پابند بنانے ، یا کسی بھی ملک کے باسی کو اس کے مذہب کے تئیں ہراساں اور پریشان کرنے کے مواقع تو فراہم نہیں کئے جارہے؟ ، آج ہمارے ملک کی داستاں عصبیت ، گروہ واریت کیادنیا کے سامنے نہیں ہے ؟ کیا ہم واقعتا کہہ سکتے ہیں ، ہم آزاد ہیں ، ہمارا ایک قانون او ردستور ہے ، جس کو ان لوگوں نے بنایا ہے جنہوں نے اس دھرتی کو غیروں سے آزاد کرنے کے لئے اپنے جسم وجان اور مال ومتاع اور اپنے سب کچھ سرمایہ تج دیا تھا، کیا وہ اپنے تیار کردہ دستور اور قانون کے ذریعے ایسا ہی ہندوستان چاہتے تھے؟ اور ہمارا ایسا ہی ملک چاہتے تھے؟ ، جس میں خصوصا اقلیتوں کو ہراساں اور پریشان کیا جاتاہے ،گاؤ کشی، لو جہاد، دہشت گردی ، ملک دشمنی کا لیبل لگا کر ان کو ہراسا پریشان کرنا اور ان کو بھیڑ کی شکل میں جمع ہو کر مجمع عام میں قتل کرنا اور دہشت گردی کے نام سے ان کو پابند سلاسل کرنا ؟، سب سے زیادہ کیوں مدارس باشندگان ہند کے گلوں کی ہڈی بنے ہوئے ہیں ؟

تاریخ ہند کا پھر سے دوبارہ سے مطالعہ کیا جائے کہ کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے جتنا خون دیا ہے ، یقین جانئے کہ تاریخ بزبان حال وقال گواہی دے گی کہدیگر مذاہب کے ماننے والوں نے  اس کے لئے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ، یہ تلخ مگر حقیقت ضرورہے ،  ان بوریہ نشیں او ر گوشہ نشیں علماء اور اہل مدارس نے انگریزوں کے خلاف جہاد کے فتوے جاری کئے اور ان سے قتال کو اور ملک حفاظت کے لئے جان قربان کرنے کو اپنی شریعت کا حصہ قرار دیا ، آج یہ بارکرایا جاتا ہے ، مسلمان ملک کے وفادار نہیں !!! ملک سے ہماری وفاداری کے فسانے تاریخ کے دریچوں اور اوراق سے پوچھئے ؟

انگریزجس وقت ملک پر قابض ہوئے تھے ، مسلمان نہیں تو کیوں دوسرے  اپنا خون دیتے، حکومت تو مسلمانوں کی گئی تھی، قربانیاں علماء نے دیں ، انہیں قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے پڑی، مالٹا اور جزیرہ انڈومان کے قید خانوں میں انہیں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑیں ، ممکن ہے تقسیم ہند کے بعد جو چلے گئے، چلے گئے ، لیکن ہم تو ہمارے ہی ملک میں ہیں ، جہاں ہم پیدا ہوئے ہیں ، ہمیں ہمارے ملک میں آزادی کے ساتھ جینے کا حق کیوں نہیں دیاجاتا؟، مختلف ناموں ، مختلف شوشوں گوشوں سے مسلمانوں کی گھیرا بندی کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے ؟ ہمارے ملک وقانون او رہماری جمہوریت کے دن کے منانے سے قبل یہ سوچنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ کیا اس وقت واقعی ہمارا ملک جمہوریت کے راہ پر گامزن ہے ؟ یا کچھ عناصر اس کو عصبیت ، فرقہ واریت ، تقسیم اور عدم روادای کی آگ میں جھونکنے پر تلے ہوئے نہیں ہیں ؟ اگر بجائے ترقی کے بانٹو ، تقسیم کرو اور راج کرو جیسے صورتحال جس کو انگریز نے اپنایا ہوا تھا اسی پرتو ہم نہیں چل رہے ؟ اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے ، کیا ہمارا سمدھان او رقانون پوری طرح محفوظ ہے ؟  کیا اس میں حل وفک اور کتر وبیونت کی تو کوشش نہیں کی جارہی؟ کیا قانون کے حوالے سے کسی فرقہ کے ساتھ سوتیلا رویہ تو اپنایا نہیں جارہا ؟ کیا ہمارا ملک اور ہمارے قانوں اور ہمارے تمام قانونی ادارے بالکل محفوظ ہیں ؟ کیاان کو کھلے طور پر اور پورے طرح سیمکمل آزادی کیساتھ اپنے کار انجام دیئے جانے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے ؟ کیا ہمارے عدالتوں کو اپنے اغراض ومفاد کے لئے تو استعمال نہیں کیا جارہا؟

کیا ہمارے سرکشا ایجنسیاں اور تنظیمیں سی بی آئی، ریزو بنک او ردیگر قانونی ادارے کیا واقعی عدل وانصاف کے ساتھ آگے بڑھ رہے اور ان کو پوری آزادی اور ایمان داری کے ساتھ کام کرنے کا اختیار دیا جارہا ہے ،؟ یہ سب ادارے جمہوریت کی طاقت وقوت ہوا کرتی ہیں ، جن کے سامنے حاکم وقت بھی مسئول ہوتا ہے ،کیا ایسا تو نہیں کہ یہ تمام ادارے حاکم وقت کے سامنے مسئول ہوگئے ؟ یا صحافت اور میڈیا جس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، کیا یہ اپنے فرائضِ منصبی اور اپنے آزادانہ اور بابے کانہ صحافت پر قائم ودائم حکومت وقت سے اپنے کئے کاموں کا حساب لے رہا ہے ؟ یا یہ بھی حکومت وقت کے مسئول ہوگئے ؟ کیا صحافیوں کو اپنی بات رکھنے اور آزادی کے ساتھ حکومت کی حصولیابیوں پر سوال کھڑے کرنے کی اجازت دی جارہی ہے ، یا ان کے ہاتھ باندھ گئے ہیں ؟ الیکشن کمیشن جو کہ جمہوریت کو قائم کرنے والا اور جمہوریت کی بنیاد رکھنے والا  اہم ادارہ ہوتا ہے ، اس کو بھی اپنے فرائض منصبی پر عمل کے حوالے سے بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ؟ یا وہاں پر بھی لا قانونیت  کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں ؟  یہ صرف چند ایک سوالات ہیں ، جس کے جواب ہر ملک کے باشندے کو دینا ہے ، جو ملک کے تئیں محبت رکھتا ہے ، جو ہمارے ملک کو ایک گلدستے کے مانند شمار کرتا ہے ، جو مختلف مذاہب ، بولیوں اور مختلف تہذیبوں کا سنگم اور گہوارہ کہاجاتاہے ، اس کی رنگ برنگی ، انگنت اور متنوع تہذیبوں ثقافتوں اور مختلف نسل ورنگ ہی سے اس کی پہچان ہے ، اس کے گلدستے میں ہر پھول اپنے جگہ یکساں اور فٹ ہے ، کیا کسی پھول اور چمن کے کسی درخت کو مالی اکھاڑپھینکنے پر تو نہیں لگا ہواہے؟گلدستی کی خوبصورتی اسی وقت تک باقی رہتی ہے جب کہ اس کے تمام رنگ برنگی پھول اپنی جگہ صحیح سالم ہوں ، ایک بھی پھول کو نوچ لیا جائے تو اس میں نقص اور کمی آجاتی ، گلدستے کی رونق تھیکی پڑجاتی ہے۔

چمن کے ایک درخت کے بھی سوکھ جانے سے چمن کے رونق کے ختم ہونے کا امکان ہوتا ہے ، اس لئے ہر ملکی باسی کے لئے ضروری ہے ، وہ ملک کی تخریب کے بجائے تعمیر میں لگے ، فرقہ واریت ، گروہ بندی، عصبیت اور عدم روادی کو پنپنے دینے کے بجائے  یکسانیت ، اتحاد، ہمدردی اور حسن سلوک کو اپنائے اور ملک کے ہر باسی کو جس کا مذہب کچھ بھی ہو جس مٹی کی وہ پیداوار ہے ، وہ بھارت ہی تو ہے وہ مرنے کے بعدبھی تو اسی مٹی کا  حصہ بنتے ہیں ،، اسی زمین کے ایک حصہ بن جانا ہے ، اس کی ساخت وبناوٹ بھی ایک ہی مٹی سے ، جانا بھی ایک ہی مٹی میں ہے ، پھر کیوں کر اس مٹی جو کہ مختلف رنگوں نسلوں مذہبوں کی شکل میں پامال کرنے اور اس کی عزت وآبرو کو سر بازار نیلام کرنے کی کوشش میں ہم لگے ہوئے ہیں ؟ اپنے ملک ہی ملک کی مٹی اوراس کے جزو سے ہمارے نفرت کیوں کر ہے ؟ کیا یہ جرم عظیم نہیں ہے؟ جب تک فرقہ واریت اور عصبیت اور گروہ بندی کا مدوا نہیں کیاجاتا، آپس میں بھائی چارہ کو فروغ نہیں دیا جاسکتا ہے ، ہر ملک کے باسی کو باعزت زندگی گذارنے کا موقع فراہم نہیں کیا، ملک کی ترقی اور عروج میں ہر کا اپنا حصہ اور کردا ر نہیں ہوتا ، جس سے ہمارے ملک کی نیک نامی ساری دنیا میں ہو ، اس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہوتا، کیا ہر ملک کا ہر باسی اپنے تئیں پرسکون ہے ؟ اس کو روزگار کے تمام مواقع فراہم ہیں ،  اس کو نوکریاں فراہم ہیں ، وہ باعزت زندگی گذار رہاہے ، لوگوں میں غریبی اور بھوک مری کا ختم ہوگیا، جہالت اور عدم خواندگی کا تناسب ختم ہوگیا؟ کیا ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک صفوں میں آچکا، ایک گھر میں کئی ایک بھائی الگ الگ سوچ اور فکر کے حامل ہوں تو کیا ان بھائیوں کا خونی اور مٹی کا رشتہ ختم ہوجاتاہے ، ہزار اختلاف کے  باوجود وہ ایک ہی ماں کے بیٹے اور ایک ہی مٹی کی پیداوار ہوتے ہیں ، ان میں سے کسی ایک فرد کے ساتھ سوتیلا سلو ک اپنے خاندان اور اپنے باپ کی نیک نامی کو خراب اور اپنے خاندان کی مٹی کو پلید کرنا ہے ، ملک کے باسیوں میں سے کسی کے ساتھ ذرہ سا سوتیلا سلوک، آپسی ہماری گھر کے لڑائی بیرونی طاقتوں کو ابھرنے کا موقع نہیں دے گی؟

وہ اسی تاک وفراق میں تو بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب ملک کے باسی ٹکڑیوں اور فرقوں میں بٹ جائیں ، وہ آپس میں کشت وخون اور ایک دوسرے کے قتل اور بربادی کے درپے ہوں ، وہ اپنے طاقت کو اپنے ہاتھوں سے کمزور کریں ، وہ بجائے ملک کی ترقی اور اس کی فکری بلندی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اپنے ملک کو کھڑاکرنے ، ملک کے افرادی قوت کو آگے بڑھانے ، مسابقتی میدان، سائنس وٹکنالوجی اور تعلیم وثقافت میں میدان میں آگے بڑھا کر ملک کانام وکام روشن کرنے کاموں میں مشغول دیکھنا چھوڑ کر وہ چاہتے یہی ہیں ، وہ ہمیں غافل دیکھ ، ہماری خواب غفلت اور آپسی بھید بھاؤ اور لڑائی میں ہمیں ایسی بانٹ دیں ، بھائی بھائی کے خون کے درپے ایسی کردیں کے ہمیں اپنوں سے فرصت نہیں کہ ہم غیروں کی فکر کرسکیں بہر حال یوم جمہوریہ کا موقع یہ سبق دیتا ہے کہ ہم کسی بھی حالت ایک جٹ رہیں ، ہمارے قانون اور دستور پر عمل پیرا رہیں ، کسی بھی طرح ہمارے قانون کی اساس اور بنیاد جو کہ عد ل وانصاف اور برابری باہمی رواداری اور کھلی آزادی اور چین وسکون سے رہنے کاحق دیتا ہے ، اس کو مضبوطی سے تھامے رہیں ، آپس میں ملک کے باسی پیار ومحبت چین وسکون کے ماحول میں ملک کی ترقی وعروج کے لئے کام کریں۔ ورنہ تباہی وبربادی کے جب بگل بجتے ہیں تو سب ہی بلا تفریق کے چاول کے ساتھ گھن بھی پیسے جاتے ہیں۔ کہیں ہمارا آپسی خلفشار طول پکڑ جائے تو باہر کی طاقتوں کو ہمارے ملک کی طرف نگاہِ بد ڈالنے کی کہیں ہمت نہ پیدا کردے، پھر بغرص اصلاح مداخت کے بہانے ہماری تخریب کا سامان نہ کردیں ،جیسا دیگر کمزور اور متفرق قوموں اور ملکوں اور ٹکڑیوں میں بٹے ممالک کی صورتحال یہی صورت حال ہے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔