اونچی اونچی گردنوں والے خمیدہ سر ملے
مقصود اعظم فاضلی
اونچی اونچی گردنوں والے خمیدہ سر ملے
راہِ الفت میں کئی ٹوٹے ہوئے شہپر ملے
…
چاند تاروں کو تھی جن میں مات دینے کی صفت
ریگزاروں میں ہمیں ایسے بھی کچھ گوہر ملے
…
آپ کی جو بات ہے وہ آپ ہی کی بات ہے
اک سے بڑھ کر ایک دنیا میں حسیں پیکر ملے
…
عشق اپنا اب تو عالم آشکارا ہوگیا
اس سے کہدو اب نہ ہم سے اس قدر چھپ کر ملے
…
زندگی میں غم کی عظمت کم نہ ہوجائے کہیں
اس لئے جب بھی کسی سے ہم ملے ہنس کر ملے
…
کرسیاں سوداگرانِ قوم کے حصے میں آئیں
"دار پر ہم جانثارانِ وطن کے سر ملے "
…
جسم شیشے کی طرح شفاف تھے اعظم مگر
جس قدر ناسور تھے سب روح کے اندر ملے
تبصرے بند ہیں۔