الطاف حسین جنجوعہ
بروز منگل بتاریخ 20مارچ شام7:52بجے پردفتر میں معمول کے ادارتی کام کے دوران اچانک میری نظر ظفر اقبال منہاس کے فیس بک اسٹیٹس پر پڑی توپورا جسم ہی ٹھنڈا پڑ گیا۔ میرا ہاتھ Mouseپرتھا اور وہیں جم سا گیا اور آنکھیں بس اُسی پوسٹ پر اٹک گئیں ۔ ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی جوکہ شاہد آج سے قبل کبھی نہ ہوئی تھی۔ اس پوسٹ میں لکھاتھا’’Shocking News.Maqbool Sahil is no more‘‘۔ میرے پاس ہی شیخ خالد کرار صاحب اور کچھ دوری پر رحمت اللہ رونیال صاحب بیٹھے، اس دل دہلادینے والی خبر سے بے خبر، اداراتی کام میں مصروف تھے۔ مجھے ہمت نہیں ہورہی تھی کہ میں انہیں اس بارے کیسے مطلع کرؤں کہ ساحل مقبول صاحب ہمارے بیچ نہیں رہے۔ تقریباً7منٹ بعد بڑی مشکل سے میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کپکپاتے ہونٹوں سے کہاکہ ساحل صاحب وفات پاگئے ہیں ۔ یہ خبر ہم سبھی کے لئے ایک دھماکہ کی طرح تھی، کچھ دیر کے لئے دفتر میں ایک عجیب سی مایوسی چھاگئی، ہرکوئی گہرے صدمے میں تھا اور افسوس تھا۔ میں نے فوری ساحل مقبول صاحب کے فیس بک پیج پر کلک کر کے ان کے پوسٹ پر نظر دوڑائی تو پتہ چلا کہ وہ تو اپنے جانے کا اعلان اشاروں میں ایک دن پہلے ہی کر گئے تھے۔
16مارچ 2018کو شام6:16منٹ پر ان کا پوسٹ معہ تصویرتھا’Zamana hum ko dhoonday ga….?” I doubt…‘”(زمانہ ہم کو ڈھونڈے گا…؟ مجھ شک ہے…)۔ کوئی اور پوسٹ ڈھونڈنے کی کوشش کی ٹائم لائن پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ اتنا طویل تھا کہ گھنٹوں ماؤس کلنگ کے بعد ایک اور …پوسٹ پڑھا’’ زندگی! خوش نما تو اور بھی ہوسکتی تھی…شرط لیکن سخت تھی، اُس کو بھی رکھنا تھا قریب …۔ شاہد انہیں پہلے ہی آثار آگئے تھے کہ اس عارضی دنیا کو چھوڑ کر جانے کا وقت قریب ہے۔ ساحل اِس وقت رائزنگ کشمیر کے اردو پبلی کیشنز ہفتہ وار کشمیر پرچھم اور روزنامہ بلند کشمیر میں چیف سب ایڈیٹر کے طور اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ خطاط (کاتب)سے نامور شاعر، ادیب اور صحافی کے طور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے ساحل مقبول 49سال7ماہ اور25دن کی عمر میں 20مارچ2018کی شام لال بازار سرینگر میں اس دنیا کا سفر مکمل کر کے دار فانی کی طرف کوچ کرگئے۔ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ ان کی موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور ہر ایک کا اسٹیٹس ان کی بے وقت موت بارے ہی تھا۔
23جولائی1968کو جنوبی کشمیر کے کوکرناک علاقہ کے گاؤں اڈہل(Adhal)میں پیدا ہوئے ساحل مقبول کاپورا نام محمد مقبول کھوکھر ہے اور قلمی نام ساحل کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ کھوکھر راجپوت قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد محمد جمال الدین کھوکھر انہیں ساحل نام سے پکارتے تھے اور بعد میں یہی اسی کو انہوں نے اپنا قلمی نام رکھا۔ مقبول نے سائنس سٹریم میں ایس پی کالج سے گریجویشن کی اور مقامی روزنامہ’مارننگ ٹائمز‘سے کیرئرکی شروعات کی جہاں انہوں نے 1986سے 1989تک کام کیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے اخبار’اذان‘کے لئے صفحہ اول کے خطاط (Calligrapher) کے طور فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے 80دہائی کے وسط سے ہی ریڈیو کشمیر سرینگر اور ڈی ڈی کاشیئر کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے پہاڑی پروگرام ’لشکارے‘ سے کافی مقبولیت حاصل کی اور اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اہم روہ رہا۔ وہ اس پروگرام کے ساتھ25برس تک کام کیا۔
سال1989میں انہوں نے اردو روزنامہ ’ڈیلی آفتاب‘میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر کام شروع کیا۔ 1989میں انہوں نے نامور فلمساز مظفر علی کا سرینگر کے سینٹور ہوٹل میں انٹرویو کیا۔ اردو پر ان کی دسترس سے متاثر ہوکر مظفر علی نے انہیں ، اپنی فلم’’زونی‘‘میں رول کی پیشکش کی جس کی وہ کشمیر کے اندر ہدایتکاری کر رہے تھے۔ اس پروجیکٹ کا ونود کھنہ، ڈمپل کپاڈیہ اور جیکی شراف حصہ تھے لیکن ملی ٹینسی کی وجہ سے پروجیکٹ کو ادھورا ہی چھوڑکر ممبئی واپس لوٹنا پڑا۔ وہ پرامید تھے کہ فلم مکمل ہوگی لیکن حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے یہ فلم نہ بن پائی۔ جنوری1990میں مقبول اداکاری، فوٹوگرافی اور سیمیٹو گرافی سیکھنے ممبئی گئے۔ چندی گڑھ سے تعلق رکھنے والے فلم ساز رجنیش نے انہیں پنجابی فلم میں رول کی پیشکش کی۔ 1998میں انہیں فلم ’میرے اپنے‘ جس میں امریش پوری بھی تھے، میں رول کی پیش کش کی گئی لیکن یہ فلم بھی مکمل نہ ہوسکی۔
ممبئی کی مایہ نگری میں اطمینان نہ ملا تو سال1992کو ساحل مقبول کشمیرلوٹ آئے۔ اس وقت وادی کے اندر حالات انتہائی مخدوش تھے۔ انہوں نے بطور صحافی کیرئرشروع کیا۔ انہوں نے دہلی بیسڈ نیوز چینل اور میگزین کے ساتھ فری لانسر فوٹوگرافر کے طور کام کیا۔ جیون ٹی وی کیرلہ، انڈین ایکسپریس اور بی بی سی نیوز جیسے ملکی وعالمی سطح کے مشہور میڈیا ہاؤسز کے ساتھ بھی وہ وابستہ رہے۔ بی بی سی میں انہوں نے جنوبی ایشیاء کے نامہ نگار ڈیوڈ لائن اور جنگی نامہ نگار مارٹین بیل کے ساتھ کام کیا جوکہ بی بی سی کے لئے 17جنگوں کی کوریج کا امتیاز رکھتے ہیں ، جس میں سال 1960کی مشہور ویتنام جنگ بھی شامل ہے۔ 1999میں مقبول ساحل نے، اس وقت کے مشہور ہفتہ وار اردو اخبار’چٹان‘کے ساتھ کام کرنا شروع کیاجہاں انہوں نے تحقیقی مضامین اور خبریں کیں ۔ سال2004کو انہیں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی(آئی ایس آئی)کے ساتھ مبینہ روابط ہونے کے الزام میں گرفتار کیاگیا، ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کیاگیا۔ ان پر خفیہ دستاویزات رکھنے اور پاکستان کے لئے جاسوسی کا الزام لگایاگیا۔ ساڈے تین برس کی جیل کے دوران مقبول ساحل نے شبستان وجود(جیل ڈائری)کتاب تحریر کی جس کو انعام بھی ملا۔ 3½برس تک ایام اسیری کے دوران انہوں نے شبستانِ وجود‘ تحریر کی جس کو سال 2009میں ’رپورٹرز وِ د آؤٹ بارڈرز(RSF)‘انعام سے منتخب کیاگیا۔
ان کی دیگر کتابوں میں پہاڑی مجموعہ کلام ’پرچھاواں ‘، افسانوی مجموعہ قدم قدم تعزیر، شعری مجموعہ خاموش طلاطلم قابل ذکر ہیں۔ کشمیر کی تاریخ پر ان کی مشہور کتاب’تنازعہ کشمیر‘کودانشوروں اور قارئین نے بہت پسند کیا۔ پہاڑی کتاب پرچھاواں کے لئے انہیں ریاستی اکیڈمی کی طرف سے بہترین پہاڑی کتاب ایوارڈ سے نوازاگیا۔ وہ کئی ادبی تنظیموں سے بھی وابستہ تھے۔ ریاستی، ملکی وبین الاقوامی سطح پر کئی ورکشاپوں ، سیمینار، کانفرنسوں میں بھی تسلسل سے شرکت کرتے تھے۔ کشمیر کی شاہد ہی کوئی بڑی ادبی محفل ایسی ہوتی تھی جہاں مقبول ساحل موجود نہ ہوں۔
مرحوم مقبول ساحل صاحب سے فون اور سوشل میڈیا پر تو بات چیت ہوتی رہتی تھی لیکن پہلی مرتبہ ان سے ملاقات ’عصرحاضر میں پہاڑ ی زبان‘پر17اور18اپریل 2017کو کلچرل اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ کانفرنس کے دوران ہوئی۔ میں اکثر ان کے مضامین مختلف اخبارات وجرائد میں پڑھتا رہتا تھا، ساتھ ہی دور درشن پران کے پروگرام’ لشکارے ‘سے کافی متاثر تھا۔ اتنی ذہانت اور صلاحیت کے مالک اس شخصیت سے ملاقات کاکافی اشتیاق تھا لیکن میں اپنی جگہ خود کو حقیر سمجھ رہاتھاکہ مجھ ناچیز سے ان کی ملاقات … لیکن میرا یہ تاثر اس وقت غلط ثابت ہوا جب پہاڑی کانفرنس کے دوران موصوف جب تھیڑمیں داخل ہوئے۔ سادہ لباس پہنے ہوئے اور ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملاقات کر رہے تھے۔ ابھینو تھیڑ میں وہ مجھ سے ایک صف آگے نشست پر براجمان ہوئے۔ ان کے اس انداز سے مجھے بھی ان سے ملنے کی ہمت بڑھی، پاس جاکر علیک سلیک کے بعد تعارف کرایاتو فوراًمسکراکر کہا’’جنجوعہ صاحب‘مزاج کیسے ہیں ، آپ سے غائبانہ تعارف تو تھا، آج ملاقات بھی ہوگئی، بہت اچھا‘‘۔ تقریباً چار منٹ ان سے مختصر پہلی اور دلچسپ ملاقات ہوئی جوکہ آخری تھی۔ کافی حوصلہ افزائی کی۔
مرحوم صرف صحافی، شاعر، ادیب ہی نہیں تھے بلکہ ایک شریف النفس، غریب پرور، ملنسار، خوش مزاج، انسان داست اور ہمدرد شخصیت کے مالک تھے۔ بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جومختصر سی عمر میں اتنا کچھ کرجاتے ہیں ۔ مقبول ساحل نے خطاط، فوٹوگرافر، ویڈیو گرافر، براڈ کاسٹر، صحافی، کالم نویس، ادیب، شاعر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔ بیباک صحافی، ایک مورخ، کئی زبانوں کے شاعر، ادیب ساحل مقبول بلا شبہ جموں وکشمیرریاست کا سرمایہ تھے۔ ان کے جانے سے بہت بڑا خلا رہ گیا۔ مقبول ساحل نے اردو زبان کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان پہاڑی کا بھی بھر پور حق ادا کیا۔ اس زبان کی ترویج وترقی کے لئے انہوں نے جو خدمات اور کارہائے انجام دہئے وہ واقعی ناقابل فراموش ہیں ۔ پوری پہاڑی قوم ان کی مرہون ِ منت رہے گی۔ ان کی پہاڑی تصانیف اور ادبی مواد عظیم اثاثہ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا کرے: آمین!
تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ یزداں میں ہے
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔