اردو کی روٹی کھانے والے منافق ہیں!

ممتاز میر

اردو کے لئے رونا کار عبث ہے۔ اردوکے دگجّ گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سورۃ الرعد آیت ۱۱ میں فرماتا ہے اس کا منظوم ترجمہ مولانا ظفر علی خاں نے کچھ اس طرح کیا ہے’’ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ یہ اصول ہر ایک پر چسپاں ہوتا ہے۔ اردو والے چیخنے چلانے اور ڈرامے بازی کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ اردو کے کتنے ہی مہا رتھی ایسے ہیں جن کے بچے یا افراد خاندان انگلش میڈیم اسکولوں مین پڑھ رہے ہیں۔ ان کے اس عمل پر اعتراض کرو تو کہتے ہیں ، اردو اسکولوں کی پڑھائی معیاری نہیں ہوتی۔ اور انھیں اپنے بچوں کو امتیازی نمبروں سے کامیاب کروا کر ڈاکٹر انجینئراور IAS/IPS بنانا ہے۔ مگر عموماً ہوتا یہ ہے کہ اس چکر میں بچے کچھ بھی نہیں بن پاتے اور بری طرح برباد ہو جاتے ہیں۔ پھر اسکول کا معیاری ہونا میڈیم پر نہیں اسکول کی انتظامیہ پر منحصر کرتا ہے۔ اور انتظامیہ میں بالکل ویسے ہی انسان ہوتے ہیں جیسے کے اردو کے مہارتھی ہیں۔ ہم سب کرپٹ ہیں۔ دوسری طرف اردو میڈیم سے پڑھنے والے ہمارے بچوں نے وہ سب کچھ حاصل کرکے دکھایا ہے جو انگلش میڈیم والے حاصل کرتے ہیں۔ یہاں تک کے مدرسے کے بچے بھی ا ب سول سروسیس میں جار ہے ہیں۔ مگر کیا دوغلے اردو کے مہارتھیوں کو شرم آئے گی؟

   مشاعروں کو اردو کی ادب تہذیب اور ثقافت کا سب سے بڑا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اردو کے شاعر، دانشور صحافی برسوں سے مشاعروں کی زوال آمادہ تہذیب پر نوحہ کناں ہیں۔ مگر کیا کچھ فرق پڑا؟بلکہ ہر روز زوال کے نئے مظاہر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ فرق کیوں نہ پڑ سکا؟

وجہ یہ ہے کہ اردو کی پرواہ اب کسی کو نہین ہے۔ ہر ایک کو اپنی اپنی جیب کی فکر ہے۔ اگر اردو کو ہندی بنا دینے سے، مشاعرے کو کوی سمیلن کر دینے سے جیب کچھ زیادہ بھاری ہو سکتی ہے تو۔۔ مضائقہ کیا ہے ؟ادھر کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشاعروں کے اسٹیج پر بینرس میں اردو کانام و نشان نہین ہوتا۔ مگر ہمارے اردو کی دہائی دینے والے شعراء کو یہ بدعت اور اردو کی روٹی بڑی آسانی سے ہضم ہو رہی ہے۔ اب شعراء کو داد نہین چاہئے بلکہ وہ خود اپنے منہ سے سامعین سے تالیوں کی فرمائش کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے وطن بھوساول میں اور بمبئی میں لا تعداد مشاعرے سنے ہیں۔ کبھی کسی جاہل سے جاہل سامع کو تالی بجاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لیکن اب اکیسویں صدی میں شاعر بھی چونی چھاپ ہوگئے ہیں اور سامعین بھی۔ اب شاعروں کو پھولوں کے ہار بھی چاہئیں اور نوٹوں کی بارش بھی۔ اگر یہ رویہ طوائفوں سے مشابہت رکھتا ہے تو ہوا کرے۔ کسی انگریز مفکر کا قول ہے

۔ Hottest place in hell is reserved for those who keep neutrality at the time of great crisis.

یہ قول اگر ہمارے علما، لیڈر صحافی اور دانشوروں کے لئے ہے تو ہمارے ان شعراء کے لئے بھی ہے جن کی شرکت کے بغیر مشاعرے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سلیم؍جاوید سے پہلے فلم انڈسٹری میں لکھاریوں کی کوئی اہمیت نہ تھی یہ دونوں دوستوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا کہ فلم کی کامیابی میں کہانی کاروں کو بھی اہمیت دی جانے لگی۔ مشاہرہ بھی بڑھا۔ ان کے مشوروں کو بھی وزن دیا جانے لگا۔ اور یہ کارنامہ انھوں نے اپنی عمر کی تیسری دہائی میں انجام دیا تھا۔ مشاعروں میں تو ساتویں اور آٹھوین دہائی کے دگج مشاعروں پر راج کرتے ہیں۔ یہ ان کی ذمے داری ہے کہ مشاعروں کی قدیم تہذیب کو واپس لائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ صرف حمد اور نعت پڑھ دینے سے اللہ خوش ہونے والا نہیں۔

   ان سے بھی بڑی ذمہ داری اردو کے اخبارات و رسائل کے مدیران کی ہے۔ سب سے زیادہ خراب حالت اردو کے روز ناموں کی ہے ٹائپنگ کی غلطیوں اور پروف ریڈینگ کی غلطیوں کا رونا تو کار عبث ہے۔ اس سے بھی بڑا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نسل کو اپنے خیالات مجتمع کرنا تو آگیا ہے۔ مگر اس کے اظہار کا سلیقہ ندارد ہے۔ ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ میسر نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کس خیال کے اظہار کے لئے اردومیں کیسے کیسے حسین الفاظ میسر ہیں۔ وہ مراٹھی اور انگلش کے الفاظ سے کام چلاتے ہیں۔ کچھ تو بلا دریغ اپنے گلی محلے کے الفاظ  مضمون میں بھر دیتے ہیں۔ جملوں کی بندش کا بھی سلیقہ نہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے ممبئی کے اردو روزنامے ممبئی اردو نیوز میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اس مضمون میں ایک لفظ آنکڑہ؍آنکڑے۔ بمعنی اعدادوشمار بار بار استعمال ہوا ہے۔ یہ ایک مثال ہے ورنہ اردو کے صرف ایک دن کے شمارے اٹھاکر دیکھے جائیں تو ایسی درجنوں مثالیں مل جائیں گی۔ ممبئی اردو نیوز کے مدیر محترم تو اردوبک ریویو کے مبصر بھی ہیں۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ مدیران محترم کرتے کیا ہیں ؟کیا اس طرح آنکھ بند کرنے کا رویہ درست ہے؟ وہ بچے جو اخبارات پڑھتے ہیں ان کی اردو کے زوال کاذمے دار کون ہے؟برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ اسکول اور اساتذہ جو بچوں کی اردو بہتر کرنا چاہتے ہیں اپنی اسکولوں میں ابن صفی کے ناول رکھتے ہیں۔ کیا اردو کے اخبارات اس کے برعکس کام نہیں کر رہے ہیں ؟اب یہ زوال اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ عام اخبارات کی بات کیا، جماعت اسلامی ہند کے ترجمان سہ روزہ دعوت کا حال بھی اتنا ہی دگرگوں ہے۔ کبھی ہم بڑے فخر سے اپنے احباب کو بتاتے تھے کہ دعوت میں نہ ٹائپنگ کی غلطی ہوتی ہے نہ پروف ریڈنگ سے غفلت برتی جاتی ہے۔ مضامین بھی معیاری ہوتے ہیں اور زبان بھی صاف ستھری ہوتی ہے۔ مگر افسوس اب جماعت کے ساتھ ساتھ دعوت پر بھی زوال آتا جا رہا ہے۔ سبھی کچھ ملیامیٹ ہو چکا ہے۔

گذشتہ۱۰ سالوں سے ہم ذمے داران جماعت کی توجہ اس طرف مبذول کراتے آرہے ہیں۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ گذشتہ ایک دہائی میں کئی ایسے مضامین شائع ہو چکے ہیں جو جماعت کی فکر سے متصادم تھے۔ مگر بار بار توجہ دلانے پر بھی  کسی طرف سے اعتذار سامنے نہیں آیا۔ غالباً ایک سال پہلے ایک مضمون شائؑ ہوا تھا جس کا عنوان تھا’’نوٹ کرے گوٹ‘‘۔ (یہ مضمون ممبئی اردو نیوز مین بھی شائع ہوا تھا)  اب یہ لفظ گوٹ ہمارے دماغ میں بالکل اسی طرح  اٹکا ہوا ہے جس طرح ابن صفی کے شیر کے دماغ میں شکوہ، جواب شکوہ والی قوالی اٹک گئی تھی۔ ہم بھی ایک ایک سے پوچھتے پھر رہے ہین کہ بھائی ہمیں اس کا مطلب بتادومگر کوئی اس فقیر کا سوال پورا کر نے کو آج تک تیار نہ ہوسکا یہاں تک کے خود دعوت اور جماعت سے بھی ہم نے استفسار کیا مگر اب تک جواب سے محروم ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے تو طلبا کا حال کیا ہوتا ہوگا ؟ اور سوال یہ ہے کہ جب مدیران کو خود سمجھ میں نہیں آتا تو وہ شائع کیوں کرتے ہیں۔ شاید مرعوبیتیہ کرواتی ہے۔ ہم بڑی بڑی کانفرنسیں کروانے کے بجائے، بڑے بڑے دعوے کرنے کے بجائے صرف اپنی ذات کی ذمے داری سنبھال لیں تو اردوکا کیا دین و ملت کا بھلا ہو جائے گا۔ مگر ہماری عادت بن گئی ہے کہ ہم دوسری کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ اس سے اپنی ذمے داریوں سے بھاگنے کا موقع ملتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔