ہو جائے اب تباہ نہ گلزارِ اعتبار
افتخار راغبؔ
ہو جائے اب تباہ نہ گلزارِ اعتبار
طوفاں سے لڑ رہے ہیں سب اشجارِ اعتبار
۔
کب تک مناتی خیر عمارت یقین کی
کس درجہ خستہ حال تھی دیوارِ اعتبار
۔
ہلکی سی ہی ہوا سے زمیں بوس ہو گیا
جس کو سمجھ رہا تھا میں مینارِ اعتبار
۔
انسانیت کے جسم میں روحِ خلوص و مہر
رخشندہ صحنِ قلب میں انوارِ اعتبار
۔
اللہ کرے کہ حاجتِ غازہ نہ ہو کبھی
پُر تاب عمر بھر رہے رخسارِ اعتبار
۔
اُٹھ جاؤں گا میں ساتھ ترے اعتبار کے
تابندہ چھوڑ جاؤں گا آثارِ اعتبار
۔
بے اعتباریوں کے قبیلے میں بٹ گیا
راغبؔ متاعِ زیست تھا جو بارِ اعتبار
تبصرے بند ہیں۔