انسان اور زمین کی حکومت (قسط 25)

رستم علی خان

حضرت ابراہیم کی وفات کے بعد حضرت اسماعیل مکہ واپس تشریف لے گئے لیکن آپ ہر سال مکے شریف سے اپنے والد کی زیارت کو شام میں جاتے- حضرت اسحق اور دوسرے بھائیوں سے مل کر پھر مکے تشریف لاتے  ضرت اسماعیلؑ خدا کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ آپ کو عرب و حجاز، یمن اور حضرموت کے لئے مبعوث کیا گیا تھا۔ آپ نے اپنے والد ابوالانبیاء حضرت ابراہیمؑ کی دی ہوئی تعلیمات کا پرچار جاری رکھا۔

حضرت اسماعیلؑ کی مادری زبان قبطی اور پدری زبان عبرانی تھی۔ اس کے علاوہ آپ عربی زبان پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ دینِ ابراہیم کی تبلیغ و اشاعت کے لئے ان زبانوں میں حضرت اسماعیلؑ کی مہارت بہت کارگر ثابت ہوئی۔حضرت اسماعیلؑ کی شادی قبیلہ بنی جُرہم کی ایک لڑکی سے ہوئی- اور آپ کی بیوی مکہ کے شریفوں میں سے تھی-

روایات میں ہے کہ حضرت اسماعیل کی شادی کے بعد ایک بار آپ کے والد حضرت ابراہیم آپ سے ملنے مکے تشریف لائے تو جناب اسماعیل گھر نہیں تھے اور آپ کی بیوی گھر تھی لیکن وہ انجان تھی حضرت ابراہیم سے- آپ نے حضرت اسماعیل کا پوچھا تو کہا کہ گھر نہیں ہیں کہیں گئے ہوئے ہیں – بعد اس کے آپ نے گھر کے حالات کے بارے پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ برے حالات ہیں اسماعیل کام کرتے نہیں بس گزارے لائق ہی کماتے ہیں باقی وقت اللہ کی راہ میں لگے رہتے ہیں – اور اسی طرح حالات کا رونا روتی رہی اور حضرت ابراہیم کو کھانے پانی کا پوچھا-

تھوڑی دیر بعد حضرت ابراہیم اٹھ کر جانے لگے تو بی بی سے کہا کہ جب اسماعیل آئیں تو انہیں میرا یہ پیغام دینا کہ "گھر تو خوبصورت ہے لیکن دہلیز اچھی نہیں ہے تو اسے چاہئیے کہ دہلیز بدل لے جب حضرت اسماعیل واپس آئے تو فرمایا کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے والد آئے تھے کہ ان کی خوشبو اپنے گھر میں پاتا ہوں – بی بی سے اس بارے استفسار کیا تو لاپروائی سے کہنے لگی کہ ہاں ایک بزرگ آئے تھے، پوچھا کچھ بات ہوئی- کہا ہاں گھر کے حالات بارے پوچھا سو میں بتا دیا کہ گزارہ مشکل ہی ہوتا- حضرت اسماعیل نے پوچھا ان کی کوئی خاطر خدمت کی؟ عورت نے کہا کہ کہاں سے کرتی گھر میں کچھ ہوتا تو کرتی- آپ نے پھر پوچھا اچھا کوئی پیغام دیا ہو؟

بی بی نے جواب دیا کہ ہاں اتنا کہہ گئے کہ جب آپ آئیں تو آپ کو ان کا یہ پیغام دے دوں کہ گھر تو اچھا ہے خوبصورت ہے بس زرا دہلیز اچھی نہیں بیکار ہے اسے بدل ڈالو۔  حضرت اسماعیل نے فرمایا کہ وہ میرے والد ابراہیم علیہ السلام تھے اور تمہاری تنگدلی اور ناشکری کی وجہ سے حکم دے گئے ہیں کہ تمہیں طلاق دے دوں سو ان کا حکم ماننا میرے لئیے لازم ہے، اور اپنی اس بی بی کو طلاق دے دی اور دوسری جگہ شادی کی اور وہ نیک عورت تھیں- اور جب حضرت ابراہیم دوبارہ آئے تو گھر میں دوسری عورت تھیں انہوں نے آپ کی خوب حاطر داری کی اور عزت و احترام سے نوازا اور حالات پوچھنے پر صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ وہ نواز رہا ہے اور ہم اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر پاتے- آپ نے فرمایا اسماعیل آئیں تو انہیں پیغام دینا کہ جتنا خوبصورت گھر ہے اتنی ہی خوبسیرت دہلیز ہے تو اسے تھامے رکھے اور دور نہ کرے خود سے- واللہ اعلم الصواب ۔

اور اسی بی بی سے آپ کے بارہ بیٹے تولد ہوئے- ایک روز اللہ کی جانب سے آپ کو مغرب کی طرف جانے اور وہاں کے بت پرستوں کو خدا کی طرف بلانے کا حکم دیا- آپ پچاس برس تک وہاں تبلیغ کرتے رہے یہاں تک کے تمام بت پرست مسلمان ہو گئے-

روایات میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ایک آدمی سے وعدہ کیا کہ جب تک تو آوے میں اسی جگہ پر کھڑا ہوں چنانچہ وہ آدمی چلا گیا اور بھول گیا کہ آپ وہاں انتظار فرما رہے ہیں اور بعد ایک برس کے اسی مقام سے گزرا تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل اسی جگہ اس کے منتظر کھڑے ہیں – چنانچہ قرآن میں آپ کو صادق اور الوعد فرمایا گیا- ارشاد باری ہے؛

"اور یاد کرو کتاب میں اسماعیل کو کہ وہ تھا وعدے کا سچا اور تھا رسول نبی اور حکم کرتا اپنے گھر والوں کو صلات اور زکوت کا اور تھا اپنے رب کے پاس پسندیدہ۔”

اور عمر آپ کی ایک سو تیس برس کی ہوئی اور آخر عمر تک مکہ میں رہے- اور بعضوں کے مطابق آخر عمر مکے سے شام کو تشریف لے گئے اور دیکھا حضرت اسحاق کو نابینا- دو بیٹے ان سے تولد ہوئے عیص علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام- اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک بیٹی تھی نام اس کا تسمیہ تھا اسے حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت عیص کیساتھ بیاہ دیا- اور حضرت اسحق کو وصیت کر کے پھر مکے تشریف لے گئے۔ حضرت اسماعیلؑ کے بیٹوں میں سے دو بڑے بیٹے بنایوت اور قیدار بہت مشہور ہیں اور ان کا ذکر توریت میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ عرب مورخین بھی ان کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بنایوت کی نسل ’’اصحاب الحجر‘‘ کہلائی اور قیدار کی نسل ’’اصحاب الرس‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ قیدار کی اولاد خاص مکہ میں رہی اور اسی سلسلۂ نسب میں نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور ہوا۔

حضرت اسماعیلؑ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے جد اعلیٰ ہیں ۔ آپؑ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے کم و بیش پونے تین ہزار سال قبل پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیلؑ نے 137برس کی عمر میں انتقال فرمایا۔ حضرت اسماعیلؑ کا مدفن کعبہ شریف میں میزاب اور حجر اسود کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ اسی مقام سے متعلق روایت ہے کہ آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی ہاجرہؓ یہیں مدفون ہیں ۔ انتقال کے وقت تک حضرت اسماعیلؑ کی اولاد اور نسل کا سلسلہ حجاز، شام، عراق، فلسطین اور مصر تک پھیل گیا تھا۔

حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے اور اپنے بھائی حضرت اسماعیل علیہ السلام سے تیرہ سال چھوٹے تھے انکی شادی رفقا بنتِ بتوایل سے ہوئی اور انکے ہاں دو بیٹے پیدا ہوۓ۔ ایک کا نام عیسو تھا جسے اہلِ عرف عیص کہتے ہیں وہ رومیوں کا جدِ امجد ہے اور دوسرے بیٹے کا نام "یعقوب” رکھا گیا، ان ہی کا نام ” اسرائیل” بھی ہے اور اس وجہ سے انکی اولاد "بنی اسرائیل” کہلائی۔ کہتے ہیں پہلوٹا بیٹا ہونے کیوجہ سے حضرت اسحاق علیہ السلام عیسو سے زیادہ محبت رکھتے تھے اور رفقا کو یعقوب علیہ السلام سے زیادہ محبت تھی کیونکہ وہ چھوٹے تھے۔ اور دوسرا وہ حضرت اسحق کو شکار کر کے گوشت کھلاتے تھے-
جب حضرت اسحاق علیہ السلام بوڑھے ہو گئے تو انکی نظر کمزور ہو گئی تھی۔ ایک دن انہوں اپنے بیٹے عیسو سے کہا کہ کوئی جانور شکار کر کے انہیں اسکا گوشت کھلائیں تو وہ اسکے حق میں دعا کریں گے۔

جب عیسو شکار کے لئے نکل گیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی والدہ نے انہیں اپنی بکریوں میں سے کسی کو ذبح کر کے اسکا گوشت بنا کے کھلانے کا مشورہ دیا اور جلدی کرنے کو کہا تاکہ وہ حضرت اسحق سے دعا لے سکیں-تب حضرت یعقوب نے والدہ کے کہنے پر اپنی بکریوں میں سے ایک اچھی بکری ذبح کر کے اپنے والد کا پسندید کھانا تیار کیا اور بھائی کے آنے سے پہلے والد کو پیش کر دیا-

جب حضرت اسحاق کھانا کھا چکے تو آپ کی بیوی نے کہا کہ کھانا کھلانے والے کو دعا دیجئیے- چنانچہ حضرت اسحاق نے دعا فرمائی کہ میرے جس بیٹے نے مجھے کھانا کھلایا اللہ کرے وہ اپنے بھائیوں سے زیادہ معزز ہو، وہ انکا اور بعد والی قوموں کا سردار ہو اور اسکے رزق اور اولاد میں اضافہ ہو۔ چونکہ آپ کی نظر کمزور تھی سو نہ دیکھ سکے کہ کھانا کھلانے والا کون تھا-
جب حضرت یعقوب دعا لیکر چلے گئے تو عیسو بھی والد کے حکم کے مطابق کھانا لیکر حاضر ہوا اور جب اسے پتا چلا کہ یعقوب علیہ السلام پہلے ہی آ چکے تھے اور دعا لے چکے تھے تو انہیں یعقوب علیہ السلام پر غصہ آیا اور وہ سوچنے لگا کہ والد کی وفات کے بعد بھائی کو مار ڈالےگا لیکن حضرت اسحاق نے عیسو کو منع کیا کہ تو ایسا نہ کرنا میں تجھے بھی دعا دیتا ہوں کہ تجھے اور تیری اولاد کو زرخیز زمین ملے اور رزق اور پھلوں میں اضافہ ہو۔ اور تیری نسل سے بہت مخلوق پیدا ہو۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کی وفات کے بعد یعقوب علیہ السلام کی والدہ کو ڈر تھا کہ عیسو انہیں نقصان نہ پہنچا دے اسلئے انہوں نے یعقوب علیہ السلام کو لابان کے پاس حران کے علاقے میں بھیج دیا جہاں انکے ماموں تھے اور یہ نصیحت بھی کی کہ انکی بیٹیوں میں سے کسی سے شادی کر لیں ۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے ماموں کے پاس پہنچے تو انکی دو بیٹیاں تھیں بڑی کا نام لیّا اور چھوٹی کا راحیل ، انہیں راحیل زیادہ پسند تھی- انہوں نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی اور باپ کی وصیت بیان فرمائی کہ وہ بھی ایسا چاہتے تھے-

تب ان کے ماموں نے پوچھا کہ تم اس کا حق دین کیسے دو گے جب کہ تمہارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے- حضرت یعقوب نے فرمایا کہ وہ ان کی بکریاں چرائیں گے ایک مدت تک اور جب مزدوری حق مہر کے برابر ہوئی تو شادی کریں گے-

تب انکے ماموں نے بھی انکا رشتہ منظور کر لیا اور شرط رکھی کہ اس کے آپ سات سال تک انکی بکریاں چرائیں ، سات سال گزرے تو ماموں نے انہیں لیّا سے شادی کرنے کے لئے کہا کیونکہ وہ بڑی تھی اور اسکے ہوتے ہوۓ چھوٹی بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے اور کہا کہ اگر حضرت یعقوب علیہ السلام راحیل سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو لیا نے نکاح کر لیں اور مزید سات سال انکی خدمت کریں۔

تبصرے بند ہیں۔