شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منشی نولکشور یادگاری خطبے کا انعقاد

باتصویر طلسم ہوشربا اور الف لیلہ کی اشاعت منشی نولکشور کا بڑا اور اہم کارنامہ: پروفیسر آلیں دزولیئر

مطبع نولکشور سے ہندو مذہب اور دین اسلام کی متعدد مذہبی کتابوں کی اشاعت منشی نولکشور کی روشن خیالی اور وسیع القلبی کی دلیل ہے۔ منشی نولکشور نے درحقیقت اپنے مطبع سے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کی ہے۔ نہرو گیسٹ ہائوس جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کمیٹی روم میں منعقدہ خطبہ ’’مطبع نولکشور کی اردو باتصویر مطبوعات: ترجمہ اور تخلیق‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے معروف فرانسیسی مستشرق اور اسکالر پروفیسر آلیں دزولیئر نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اردو کی شاہ کار داستانوں کی اشاعت منشی نول کشور کا نمایاں کارنامہ ہے اورمصور طلسم ہوشربا اور باتصویر الف لیلہ کی اشاعت نولکشور کے دو عظیم کارنامے ہیں۔

پروفیسر آلیں دزولیئر نے اس نکتے کی طرف بھی توجہ دلائی کہ منشی نولکشور نے جو داستانیں اردو میں طبع کرائیں وہ اصل قصے کے مقابلے میں نہایت ضخیم ہیں۔ اصل داستانوں کے مقابلے نولکشوری ایڈیشن کی ضخامت پروفیسر آلیں دزولیئر کے نزدیک اردو تخلیقات میں غیر معمولی اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس یادگاری خطبے کی صدارت پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے کی۔ جناب شمس الرحمن فاروقی نے مہمان مقرر کے نکتۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آلیں دزولیئر کی نظر ایک مستشرق کی نہیں بلکہ کسی مشرقی عالم کی ہے۔ انھوں نے آلیں دزولیئر کے خطبے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نظر بعض ایسی اہم باتوں پر بھی ہے جن سے ہم رواروی میں گذر جاتے ہیں۔

اس خطبے کا آغاز حافظ شاہنواز فیاض نے تلات کلام پاک سے کیا اور صدر شعبہ پروفیسر شہپر رسول نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ اس خطبے کی نظامت پروفیسر احمد محفوظ نے کی اور ڈین فیکلٹی آف ہومینٹیز اینڈ لینگویجز پروفیسر وہاج الدین علوی نے باقاعدہ شکریہ ادا کرتے ہوئے پروفیسر آلیں دزولیئر اور پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی ایک مجلس میں موجودگی کو نئی نسل کے لیے ایک یادگاری لمحہ قرار دیا۔

اس موقعے پر سامعین میں پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر شہناز انجم، پروفیسر خالد محمود کے علاوہ شعبۂ اردو کے تمام اساتذہ بشمول پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین کے علاوہ تمام مہمان اساتذہ اور بڑی تعداد میں طلبا اور ریسرچ اسکالر موجود تھے۔

(تصویر میں دائیں سے بائیں: پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر آلیں دزولیئر اور پروفیسر احمد محفوظ)

تبصرے بند ہیں۔