اپنی یادوں کا سرو ساماں جلاتے جائیے
احمد علی برقیؔ اعظمی
جارہے ہیں آپ تو پھر مسکراتے جائیے
’’اپنی یادوں کا سرو ساماں جلاتے جائیے‘‘
…
خانۂ دل جس میں مہماں تھے وہ ڈھاتے جائیے
نقش ہیں جو لوحِ دل پر وہ مٹاتے جائیے
…
خونِ دل جتنا جلانا ہے جلاتے جائیے
جشنِ بربادی محبت کا مناتے جائیے
…
سُرخرو ہیں آپ تو پھر سر اُٹھاتے جائے
جاتے جاتے مجھ سے پھر نظریں مِلاتے جائیے
…
کیوں کیا ترکِ تعلق مجھ سے آخر آپ نے
کیا خطا تھی میری یہ مجھ کو بتاتے جائیے
…
اِک ہنسی پر آپ کی میں مَرمِٹا دیوانہ وار
آپ سے کس نے کہا مجھ کو رُلاتے جائیے
…
قصرِ دل میں آکے میرے کیوں جلایا تھا اسے
ہے یہ یادوں کا دیا اس کو بجھاتے جائیے
…
چار دن کی چاندنی ہے یہ جہانِ آب و گِل
جس طرح پہلے ہنساتے تھے ہنساتے جائیے
…
آپ کا بھی جلد ہی آئے گا یومِ احتساب
ہے جو دوگز کی زباں منھ میں چلاتے جائیے
…
زندگی کا ماحصل ہوگی مری اس کی مہک
گلشنِ ہستی میں کوئی گُل کِھلاتے جائیے
…
دوستی کا گھونٹ دیں اپنے ہی ہاتھوں سے گلہ
فرض ہے جو دوستی کا وہ نبھاتے جائیے
…
آپ کو جون ایلیا کی دے رہا ہوں میں قسم
گا رہےتھے ان کی جو غزلیں وہ گاتے جائیے
…
کہہ رہا ہے آپ سے جو آج برقی اعظمی
اس کی سنئے اور اپنی بھی سناتے جائیے
تبصرے بند ہیں۔