تری زلفوں کا پیچ و خم بہت ہے
جمالؔ کاکوی
تری زلفوں کا پیچ و خم بہت ہے
دلِ مشتاق میں دم خم بہت ہے
…
سمندر میں بھی رہ کر کوئی تشنہ
گلوں کے واسطے شبنم بہت ہے
…
کسی کی یاد کے جگنوں چراغاں
کسی کے وصل میں ماتم بہت ہے
…
تمہاری عید میری عید ہوگی
جو تم خوش ہو میرے جانم بہت ہے
…
انہیں بھی وقت نے رسوا کیا ہے
بلند جن کا ہوا پرچم بہت ہے
…
وطن کو سرخرو رکھنے کی خاطر
وہی اک اکبرِ اعظم بہت ہے
…
اسی کی دھن پہ رقصاں زندگانی
بندھے گھنگرو میں جو چھم چھم بہت ہے
…
بنانے کو خدا کا نیک بندہ
میرا حاکم میری بیگم بہت ہے
…
اے جمالؔ ملن ندیوں کا دلکش
مری اردو میں بھی سنگم بہت ہے
تبصرے بند ہیں۔