سمجھوتہ ایکسپریس: خونِ ناحق کہیں چھپتا ہے چھپائے سے امیرؔ

ڈاکٹر سلیم خان

سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں گودھرا کے اندر ۲۷ فروری ۲۰۰۲ ؁ کو  آگ لگی۔  پانی پت کے قریب دیوانا میں ۱۸ فروری ۲۰۰۷ ؁ کو سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبوں  میں دھماکے ہوئے۔    سابرمتی کا سانحہ ایک حادثہ تھا کیونکہ فارنسک رپورٹ نے یہ  بات ثابت کردی  کہ ٹرین کے کوچ میں باہر سے آگ لگانا ممکن نہیں تھا یعنی وہ شعلے اندر ہی بھڑکے تھے۔  سمجھوتہ ایکسپریس میں تفتیش کاروں کے ہاتھ دو زندہ بم لگے جس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ دہشت گردانہ حملہ تھا۔   ان دونوں سے متعلق  دوخصوصی عدالتوں نے ایک ہی دن فیصلے دیئے۔    ایک میں ملزم کو عمر قید کی سزا سنا ئی گئی اور دوسرے میں انہیں رہا کردیا گیا۔  عقل عام کہتی ہے کہ حادثےکا ملزم چھوٹ جانا چاہیے اور دھماکہ کرنے والوں کو سزا  ملنی چاہیے مگرایسا نہیں ہوا۔

سابرمتی  ایکسپریس میں مرنے والے اگر  رام بھکت نہ ہوتے یہی ہوتا۔  سمجھوتہ ایکسپریس میں بھی  ہلاک ہونے والے ہندو ہوتے یا مارنے والے مسلمان ہوتے تو فیصلہ توقع کے عین مطابق آتا لیکن وہاں  تو ہلاک ہونے والے نہ صرف مسلمان بلکہ پاکستانی شہری تھے اوردھما کہ کرنے والوں میں سنگھ  پریوار ملوث تھا  اس لیے یہ کیسے ممکن تھا۔  انتخاب کے موسم میں اکثریتی فرقہ کوسزا دے کر ناراض کرنے کی جرأت بی جے پی تو کجا  کانگریس بھی نہیں کرسکتی۔   جمہوریت کا المیہ  یہ ہے کہ  جب انصاف کا تقاضہ اور اقتدار کا حصول آمنے سامنے آجاتے ہیں تو کرسی حاوی ہوجاتی  ہے۔سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے  کے بعد ۲۰۱۴ ؁ تک کانگریس برسرِ اقتدار رہی۔  ۲۰۰۸ ؁ کے اندر ممبئی بم دھماکے میں گرفتار ہونے والے  اجمل قصاب کو پھانسی مل گئی لیکن ۲۰۰۷ ؁  میں ہونے والے دھماکے کے ملزمین  کی تفتیش ہوئی۔  ایف آئی آر درج  کی گئی اور گرفتاری بھی   ہوئی،  لیکن اس سے پہلے کے انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جاتا کانگریس اقتدار سے محروم ہوگئی۔    کانگریس اگر اپنے دور اقتدار میں ہمت کرکے اس معاملے کو اپنے انجام تک پہنچاتی تو کپل سبل کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ ۶۸ لوگ مارے گئے اور انہیں کسی نے نہیں مارا۔ یہ ہماری تعذیراتی عدالت کا عظیم دن ہے۔

اڑیسہ میں ایک طویل عرصے سے نوین پٹنائک برسرِ اقتدار ہیں۔  عوام کے اندر ان کے تئیں بیزاری کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔  کانگریس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر  بی جے پی وہاں خاصی مضبوط ہوگئی ہے۔  اس لیے اسیمانند کی رہائی سے  اسے اڑیسہ کے علاوہ مغربی بنگال میں بھی  انتخابی فائدہ ہوگا کیونکہ ایک اس کی جنم بھومی اور دوسری کرم بھومی رہی ہے۔     ویسے اسیمانند گرفتاری سے قبل گجرات میں رہتا تھا۔  فی الحال  بی جے پی کے پاس   گجرات،  اڑیسہ اور بنگال کے بیروزگار  رائے دہندگان کو خوش کرنے کے لیے اسیمانند کی رہائی سے بہتر کوئی اور  نسخہ  نہیں ہے۔ دیگر ملزمین کی رہائی سے ممکن ہے مدھیہ پردیش کے کسانوں کا بھی غم غلط ہوجائے اور  وہ پھر سے بی جے پی پر مہربان ہوجائیں۔   آگے چل کر اگر مودی جی کا ستارہ گردش میں آئے  تو آسا رام باپو یا بابارام رحیم کے بھی اچھے دن آسکتے ہیں۔

ہندوستانی سیاست میں حادثات،  حملوں اور مقدمات کی مدد سے سیاسی فائدہ اٹھا نا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ۲۰۰۲ ؁ میں زلزلہ کے بعد گجرات کے اندر بی جے پی کی کیشو بھائی حکومت بہت غیر مقبول ہوگئی تھی۔ انتخاب سامنے تھا اور مرکز ی سرکار کے چلتے بی جے پی کے گجرات میں شکست کھاجانے سے بہت  بدنامی ہوسکتی تھی اس لیے دہلی سے نریندر مودی کو وزیراعلیٰ بناکر بھیجا گیا۔نئے وزیراعلیٰ  کے سامنے صوبائی انتخاب جیتنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔  ایسے میں   ایودھیا سے آنے والی سامبرمتی ایکسپریس  کے ایس ۶ ڈبے میں گودھرا کے اندر آگ لگ گئی۔ مودی جی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔  رام بھکتوں کی ارتھی  احمد آباد منگوائی گئی  اور نفرت کا بازار گرم  کرکے انتخاب جیت لیا گیا۔ گجرات کے بدنام زمانہ مسلم کش  فسادات  میں تقریباً دو ہزار لوگ ہلاک ہوئے  لیکن بی جے پی کا اقتدار  دس سالوں تک   محفوظ ہوگیا۔

دس سال بعد مودی جی سے بھی لوگ   بیزار ہونے لگے تھے ایسے میں  ۲۰۱۱ ؁ کے اندر  گودھرا   مقدمہ کا فیصلہ آگیا۔  خصوصی عدالت نے مارچ ۲۰۱۱ ؁ میں ۳۱ ملزمین  کو قصوروارپایا۔  ان میں سے ۱۱ کو پھانسی نیز ۲۰  کو عمرقید کی سزا سنادی۔ اس سے پھر ایک بار ’انتقام لے لیا‘  کا  ماحول بن گیا۔  لوگوں نے اپنے دکھ درد بھلا کر مودی جی کو کامیاب کردیا اور آگے چل کر وہ وزیراعظم بن گئے۔   اکتوبر۲۰۱۷؁ میں گجرات ہائی کورٹ نے  اس مقدمہ میں پھانسی کی سزاؤں کو عمرقید میں تبدیل کردیا۔  سوئے اتفاق سے اس  فیصلے کے بعد ہونے والے صوبائی انتخاب میں بی جے پی کی کارکردگی کمزور رہی۔  گودھرا کے معاملے میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ ۲۰۱۱ ؁ کے بعد بھی جاری رہا  اور ابعد میں  گرفتار ہونے والے فاروق بھانا اور عمران شیری کوپچھلے سال  عمر قید کی سزا سنائی  گئی نیز  حسین سلیمان، قسم بھامیڑی اور فاروق دھنتیا کو بری کر دیا گیا۔

 اس دوران پولس نے گودھرا کے رہائشی  یعقوب پاتلیا کو بھی حراست میں لیا۔  یعقوب کے دو بھائیوں  کو پہلے ہی گودھرامعاملے میں سزا ہو چکی ہے اور ان میں سے ایک کا جیل میں انتقال بھی  ہوا ہے۔ عین قومی انتخاب سے قبل یعقوب کو  قتل اور سازش کےا لزام میں  عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ عجیب  بات ہے  کہ ایک طرف  نرودہ پاٹیہ کےقتل و گارتگری  کی مجرمہ سابق وزیر  مایا کوندنانی عدالت سے رہا ہوجاتی ہے۔  خفیہ کیمرے کے سامنے اپنے گھناونے جرائم کا اعتراف کرنے والے   بابوبجرنگی کی گرتی ہوئی صحت پر عدالت کو رحم آجاتا ہے لیکن   یعقوب پاتلیا  اور اس کے بھائیوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔  اتر پردیش کے اندر یوگی جی کو مظفر نگر کے فسادیوں پر رحم آتا ہے مگر مودی جی گودھرا کے حادثے میں گرفتار ہونے والے  سے ہمدردی نہیں ہوتی۔

 سچ تو یہ ہے موجودہ  سیاستدانوں کو نہ کسی پر رحم آتا اور نہ کسی سے ہمدردی ہوتی ہے۔ عدل و انصاف کی پامالی  کا بھی انہیں ذرہ برابر قلق نہیں ہوتا۔ وہ ہر چیز  کو انتخابی مفاد کی عینک سے دیکھتے ہیں۔  جس کسی کو چھوڑنے سے سیاسی فائدہ حاصل ہوتا ہے اسے رہا کروا دیا جاتا ہے اور جس کی گرفتاری  اپنے رائے دہندگان کو خوش کرتی اس کو سزا دے دی جاتی ہے۔  نیرو مودی کے ساتھ لندن کے اندر فی الحال وہی آنکھ مچولی کا کھیل ہورہا ہے۔ ساری سیاسی جماعتیں یہ کام کرتی ہیں ۔  عدل و قسط کی خاطر کوئی  اپنی کرسی داوں پر نہیں لگاتا ورنہ یوگی ادیتیہ ناتھ کو ملائم یا اکھلیش جیل کی ہوا کھلا چکے ہوتے۔  سیکولر جمہوریت نے سیاستدانوں  کو مذہبی عقائداور اخلاقی اقدار سے بے نیاز کردیا ہے۔    یہ لوگ   بعد ازمرگ اپنے مالک کے سامنے جوابدہی کا تصور بے بہرہ ہوچکے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. مشتاق احمد کہتے ہیں

    ايسى جمهوريت كا بدل كيا هوكه انصاف ملتا هو؟

تبصرے بند ہیں۔