تری زلفوں کا پیچ و خم بہت ہے

جمالؔ کاکوی

تری زلفوں کا پیچ و خم بہت ہے

دلِ مشتاق میں دم خم بہت ہے

سمندر میں بھی رہ کر کوئی تشنہ

گلوں کے واسطے شبنم بہت ہے

کسی کی یاد کے جگنوں چراغاں

کسی کے وصل میں ماتم بہت ہے

تمہاری عید میری عید ہوگی

جو تم خوش ہو میرے جانم بہت ہے

انہیں بھی وقت نے رسوا کیا ہے

بلند جن کا ہوا پرچم بہت ہے

وطن کو سرخرو رکھنے کی خاطر

وہی اک اکبرِ اعظم بہت ہے

اسی کی دھن پہ رقصاں زندگانی

بندھے گھنگرو میں جو چھم چھم بہت ہے

بنانے کو خدا کا نیک بندہ

میرا حاکم میری بیگم بہت ہے

اے جمالؔ ملن ندیوں کا دلکش

مری اردو میں بھی سنگم بہت ہے

تبصرے بند ہیں۔