تفسیر قرآن اور اس کی اقسام
مولانا محمد جہان یعقوب
تفسیر کی دو قسمیں ہیں:
1۔ تفسیر بالماثور اورتفسیر بالرائے،ان کی تعریف اور تفصیلات ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
(1)تفسیر بالماثور
ایسی تفسیر جس میں قرآن وسنت ا،قوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعینؒ ،سیر وتاریخ کی مستند روایات کو ہی مد نظر رکھا جائے۔ اس قسم کی تفسیر کو تفسیر منقول بھی کہتے ہیں۔ حضرات کو اصحاب الحدیث بھی کہتے ہیں۔ تفسیر بالماثور کی درج ذیل انواع ہیں:
تفسیر القرآن بالقرآن
قرآن مجید خود کئی مقامات پر اپنی تشریح کرتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
فتلقیٰٰ ادم مِن ربِہِ کلِمٰت فتاب علیہِ اِنہ ہو التواب الرحیم( سورالبقرۃ: ۷۳)
"پس سیکھ لیں آدم علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے کچھ باتیں۔ پس پھر آیا اور اس کے تحقیق وہ پھر آنے والا ہے مہربان۔ ”
ان کلمات کی وضاحت جو حضرت آدم علیہ السلام نے سیکھے تھے۔ قرآن مجید میں ہی دوسرے مقام پر اس طرح سے ہے۔ :
قالا ربنا ظلمناا نفسنا واِن لم تغفِر لنا وترحمنا لنکونن مِن الخٰسِرین (سورۃالاعراف:۳۲)
"کہا دونوں نے اے ہمارے رب ظلم کیا ہم نے جانوں اپنی کو اور اگر نہ بخشے گا تو ہم کو اور نہ رحم کرے گا تو ہم کو البتہ ہوجائیں گے ہم خسارہ پانے والوں میں سے۔ "
اسی طرح تفسیر القرآن بالقرآن میں اللہ تعالی کاارشاد ہے:ِاناا نزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ اِ ناکّنا منذِرین (سورۃ الدخان۳… )
"تحقیق اتارا ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں ،تحقیق ہم ہیں ڈرانے والے۔ "لیلۃ مبارکہ کی توضیح اس طرح سے خود ہی قرآن نے بیان کی ہے:
ِاناا نزلنہ فی لیلۃالقدر(سورۃالقدر:۱)
"تحقیق ہم نے قرآن کو قدر کی رات میں نازل کیا۔ "
تفسیرالقرآن بالسنۃ
قرآن مجید کی جس بات کو جاننے کی ضرورت تھی،یا جو بات تشریح طلب تھی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمادی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کائنات ارضی پر قرآن مجید کے پہلے مفسر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر تھی۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق مبارکہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا:کان خلقہ القرن(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن مجید تھا۔ )
کئی آیات قرآنی کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر بیان فرمائی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مفاتیح الغیب خمس” ثم قراء:اِن اللّٰہ عِندہ عِلم الساعۃ
("غیب کی پانچ چابیاں ہیں‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتِ ن اللہ عِندہ عِلم الساعۃ تلاوت فرمائی۔ ")
اس بات کو ایک اورحدیث میں اس طرح سے بیان کیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”غیب کی پانچ چابیاں ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کل کیا ہوگا۔ رحم جو کمی کرتے ہیں ان کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا بارش کب ہوگی؟ اللہ کیسوا کوئی نہیں جانتا اس کو موت کہاں مل جائے گی۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا قیامت کب ہوگی۔ "
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں آنحضرت نے جو تشریح کی ہے وہ واضح ہے۔ ایک اور حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،جب یہ آیت اتری:
الذین ٰامنوا ولم یلبِسوا ایمٰنہم بِظلم(سورۃالانعام:۲۸)
"جو لوگ ایمان لائے اور ا پنے ایمان میں ظلم نہیں ملایا۔ "
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو یہ بات بہت گراں گزری اور کہنے لگے ہم میں سے کون ہے جس نے ایمان کو ظلم کے ساتھ نہ ملایا ہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،بات یہ نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ کیا تم کو حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیتے کو نصیحت کا علم نہیں کہ:ِ
ان الشِرک لظلم عظیم(سور لقمان: ۳۱)
"بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ "
تفسیرالقرآن بآثارالصحابہؓ والتابعینؒ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کادرجہ ہے جو پوری امت میں ہرلحاظ سے افضل لوگ تھے۔ قرآن مجید کی جوتشریح اور تفسیر ان کی زبان سے نکلی اس کے ثقہ اور صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔ کیونکہ ان کی موجودگی میں قرآن نازل ہوا۔ امام حاکم فرماتے ہیں :’’صحابی کو تفسیر کو جو وحی اور تنزیل کے وقت موجود تھا،مرفوع کاحکم ہے۔ ” کئی آیات کی تفسیر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہے۔ اسی طرح تابعین کے اقوال بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان لوگوں نے صحابہ کرامؓ سے فیض حاصل کیا۔ یہ تینوں تفسیر القرآن بالقرآن یا تفسیر القرآن بالسنۃکا اعلی درجہ رکھتی ہیں۔
(2)تفسیر بالرائے
تفسیر بالرائے سے مراد قرآن کی اجتہاد سے تفسیر بیان کرنا ہے۔ رائے اجتہاد کے معنی میں ہے۔ رائے کا لفظ قیاس کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔ بعض نے تفسیر بالرای سے مراد ایسی تفسیر لی ہے جس میں مفسر قرآن معنی کے بیان میں اپنے فہم خاص اور مجردرائے سے استنباط کر تاہے۔ ان دونوں طریقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رائے اور قیاس کو اگر شریعت کے تابع رکھاجائے تو اس سے شریعت کی روح متاثر نہیں ہوتی۔ بلکہ فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر رائے اور اجتہاد کو غلط استعمال کیا جائے تو یہ شریعت کی رو ح کے منافی ہے۔ اس کو اہل علم نے تفسیر بالرای المحمود اور تفسیر بالرای المذموم قرار دیا ہے۔ احمدون ڈنفر نے تفسیر بالرای کی اس طرح وضاحت کی ہے:ایسی تفسیر بالرای جو اپنی مرضی سے کی جائے جس میں محض رائے ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ناجائز قرار دی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے اپنی مرضی سے قرآن مجید کی تفسیر بیان کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔ "دوسری روایت ا بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سے فرمایا:
"جس نے قرآن مجید کے متعلق علم کے بغیر بیان کیا۔ وہ ا پنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔ "
اس قسم کی تفاسیر اہل بدعت اور معتزلہ وغیرہ نے بیان کی ہیں۔ اگر تفسیر بالرای کو غور وفکر سے بیان کیا جائے تو یہ دین کی خدمت ہے اور ملحدین کے جواب بھی اس میں آتے ہیں۔ جدید علوم وفنون کے ذریعے جو نت نئے موضوعات سامنے آئے ہیں۔ اس مکتب فکر کے حامل لوگوں نے ان کو اپنا موضوع بنایا۔ اور ایک متوازن نقطہ نظر پیش کیا۔ مولانا محمد حنیف ندوی اس گروہ کے متعلق فرماتے ہیں:
"اصحاب الرائے کی خدمات کادائرہ بھی خاصا وسیع اور قابل قدر ہے۔ اس گروہ نے قرآن وسنت کے فقہی مضمرات کی نشان دہی کی۔ فکری اور کلامی نکتہ سینچوں کو نکھارا اور تعبیر وتشریح کے دائروں میں وسعت وعمق پیدا کیا۔ یہ اس گروہ کا فیضان ہے۔ کہ اسلام ایک مکمل اور منضبط نظریہ حیات کی شکل میں مدون ہوا۔ ائمہ سلف سے یہ آثار صحیحہ جو منقول ہیں۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تفسیر بیان کرنے میں حرج ہے جو علم کے بغیر بیان کی گئی ہے جہاں تک لغت اور شریعت پرمبنی تفسیر کا تعلق ہے اس کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ‘‘
قرآن کا ترجمہ بالکل مردہ زبان میں ہے۔ جس سے آگے پڑھنے کی خواہش دم توڑ دیتی ہے۔۔۔
یہ مضمون بہت ہی تفصیل طلب ہے۔ لیکن اس کو صرف تعریف بیان کی گئی ہے۔ اور پھر تشنہ چھوڑ دیا گیا ہے۔۔ یہاں تک کے اسکی مثال بھی نہیں دی گئی ہے۔