معوذتین کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ

جمشید عالم عبد السلام سلفی

(سدھارتھ نگر، یوپی)

قرآن کریم کی حفاظت

قرآن کریم میں کسی بھی طرح کی تحریف و تغییر سے حفاظت کی ذمہ داری خود اس کے نازل کرنے اللہ رب العالمین نے لے رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک اس کتاب میں کسی طرح کا حذف و اضافہ نہیں ہوا اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امتداد و مرورِ زمانہ اور دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیوں کے باوجود قرآن کریم میں معمولی سی کمی و بیشی نہیں کی جا سکی ہے اور تمام الہامی کتابوں میں قرآن کریم کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ چناں چہ قرآن کریم کے علاوہ دیگر آسمانی کتابیں دست بردِ زمانہ کی شکار ہوچکی ہیں مگر قرآن اپنی اصلی حالت میں باقی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں اور گوشوں میں پھیلے مختلف مطابع و پریس سے چھپے ہوئے قرآن کریم کے چند نسخوں کا موازنہ کرلیا جائے پھر اس دعوے کی صحت و مضبوطی سمجھ میں آجائے گی۔ رنگ و نسل، فکر و نظر، مذہب و مسلک اور زبان و بیان کے باہمی فرق کے باوجود دنیا بھر میں پھیلے قرآن کریم کے کسی بھی نسخے میں معمولی سی تبدیلی نہیں مل سکتی ہے بلکہ تمام نسخے الفاظ و حروف، حرکات و نقاط اور بیان و ترتیب میں یکساں و مساوی نظر آئیں گے۔

معوذتین بھی قرآن کریم کا ایک حصہ ہیں، اس میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ ان دونوں سورتوں کے قرآن کریم کا ایک حصہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع و اتفاق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود نمازوں میں اس کی تلاوت فرمائی ہے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی تلاوت کا حکم دیا ہے۔ جيسا کہ سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک سفر مِیں مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل رہا تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں پڑھی گئی دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ﴿قُلۡ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلۡفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلۡ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلنَّاسِ﴾ سکھائیں۔ کہتے ہیں : آپ نے مجھے ان دونوں سورتوں کے سیکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ خوش نہیں دیکھا، پھر جب صبح کی نماز کے لیے اترے تو آپ نے اِنھیں دونوں سورتوں کے ساتھ لوگوں کو نماز پڑھائی۔ نماز سے جب فارغ ہوئے تو میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے عقبہ! تم نے کیسا پایا۔ [ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب فی المعوذتين، رقم: ۱۴۶۲، نسأئی کتاب الاستعاذۃ، رقم: ۵۴۳۶، مسند احمد رقم: ۱۷۳۵۰، صححہ الالبانی]

ابن حبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی فرمایا: ’’فإنِ استطعْتَ ألَّا تَفوتَكَ قراءتهما في صَلاةٍ فافعَلْ‘‘ ترجمہ: ’’اگر تم اپنی نماز میں ان سورتوں کو پڑھنے کی طاقت رکھتے ہو تو ان کی تلاوت چھوٹنے نہ پائے اور انھیں پڑھا کرو۔‘‘ [رواہ ابن حبان فی صحیحہ، ذکرہ الحافظ فی الفتح  ۸/۷۴۲، والمبارکفوری فی المرعاۃ ۳/۱۵۹]

نیز سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نمازِ فجر میں ان دونوں سورتوں کو پڑھا ہے۔ [حافظ ابن حجر اور محدث مبارکپوری نے اس حدیث کو سعید بن منصور کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ دیکھئے: فتح الباری ۸/۷۴۳، مرعاۃ ۳/۱۵۹]

أم المؤمنين سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کی پہلی رکعت میں : ﴿سَبِّحِ ٱسۡمَ رَبِّكَ ٱلۡأَعۡلَى﴾  دوسری میں ﴿قُلۡ يَٰٓأَيُّهَا ٱلۡكَٰفِرُونَ﴾  اور تیسری میں ﴿قُلۡ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ﴾ اور معوذتین پڑھتے تھے۔ [ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب تفریع ابواب الوتر، رقم: ۱۴۲۴، ترمذی أبواب الوتر باب ما یقرأ فی الوتر، رقم: ۴۶۳، ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، رقم: ۱۱۷۳، مسند احمد، رقم: ۲۵۹۰۶، صححہ الالبانی و حسنہ الحافظ زبیر علی زئی، أنوار الصحیفۃ ص: ۵۷، ۲۰۱، ۴۱۹]

اسی طرح ابو العلاء رحمہ اللہ ایک صحابی رسول سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے تو آپ نے انھیں معوذتین کو پڑھایا اور پھر ان سے فرمایا: ’’إذَا أنتَ صَلَّيتَ فَاقرأْبهما‘‘ ترجمہ: ’’جب تم نماز پڑھو تو ان دونوں سورتوں کو پڑھا کرو۔‘‘ [مسند احمد، رقم: ۲۰۷۴۵، صححہ الحافظ فی الفتح ۸/۷۴۲]

علاوہ ازیں کتبِ احادیث میں معوذتین کے فضائل و برکات سے متعلق بہتیری حدیثیں پائی جاتی ہیں جو معوذتین کی قرآنیت پر دلالت کرتی ہیں۔

معوذتین اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

اوپر کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ معوذتین قرآن کریم کا ایک حصہ ہیں لیکن کتب احادیث میں معوذتین کے متعلق سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کچھ ایسی روایتیں منقول ہیں جن کی بنیاد پر دشمنانِ اسلام کو یہ شبہات ابھارنے کا موقع مل گیا کہ معاذ اللہ اس کتاب میں بھی تحریف ہوئی ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول روایت کا جائزہ لے کر اس سلسلے میں علماء کی توجیہات پیش کردی جائیں تاکہ حقیقتِ حال کی وضاحت ہو سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ صحابیٔ رسول کی جانب منسوب نظریے کی کیا حقیقت و حیثیت ہے؟

زِر بن حُبَیش کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا :

’’يَا أَبَا المُنْذِرِ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فقال أبي:‏‏‏‏ سألت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ ’’قِيلَ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَلْتُ‘‘.‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘

ترجمہ: ’’اے ابو منذر! آپ کے بھائی ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایسا اور ایسا کہتے ہیں۔ تو اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’مجھ سے ایسا کہنے کے لیے کہا گیا اور میں نے کہا‘‘ اُبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :  ہم بھی ویسا ہی کہتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا۔‘‘ [بخاری کتاب التفسیر سورۃ قل اعوذ برب الناس، رقم: ۴۹۷۷]

یہاں اس روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں مبہم بات کہی گئی ہے اور اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ وہ معوذتین کے متعلق کیا کہتے تھے۔ جب کہ دیگر روایتوں میں صراحت موجود ہے۔ جیسا کہ مسند احمد وغیرہ کی روایتوں میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ وہ معوذتین کو اپنے مصحف میں لکھتے نہیں تھے، نہ نماز میں اس کی تلاوت کرتے تھے اور اپنی مصحف سے انھیں مٹا دیتے تھے۔ زِر بن حُبیش رحمہ اللہ کہتے ہیں :

’’قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ لَا يَكْتُبُ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي مُصْحَفِهِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَنِي أَنَّ جِبْرِيلَ قَالَ لَهُ: ’’{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}، فَقُلْتُهَا. فَقَالَ: {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ}، فَقُلْتُهَا‘‘ فَنَحْنُ نَقُولُ مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.‘‘

ترجمہ: ’’میں نے ابی بن کعب سے کہا کہ ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو معوذ تین کو اپنے مصحف میں نہیں لکھتے ہیں۔ تو انھوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ خبر دی کہ جبریل نے آپ سے کہا: ’’﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾تو میں نے ویسا ہی کہہ دیا۔ اور جبریل نے کہا: ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ تو میں نے بھی ویسا ہی  کہہ دیا۔‘‘ سو ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا۔‘‘ [مسند احمد رقم: ۲۱۱۸۶، سندہ صحیح]

ایک اور روایت میں ہے کہ زر بن حبیش نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا:

’’إِنَّ أَخَاكَ يَحُكُّهُمَا مِنَ الْمُصْحَفِ – قِيلَ لِسُفْيَانَ: ابْنُ مَسْعُودٍ؟ فَلَمْ يُنْكِرْ – قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ’’قِيلَ لِي فَقُلْتُ‘‘. فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.‘‘

ترجمہ: ’’بیشک آپ کے بھائی تو ان دونوں سورتوں کو مصحف سے کھرچ دیتے تھے۔ (سفیان سے پوچھا گیا: بھائی سے مراد ابن مسعود ہیں ؟ تو انھوں نے اس کا انکار نہیں کیا۔) ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے کہا گیا اور میں نے کہا۔‘‘ پس ہم بھی ویسا ہی کہتے ہیں جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا۔‘‘ [مسند احمد رقم: ۲۱۱۸۹، سندہ صحیح]

امام بزار نے اپنی مسند میں علقمہ سے  اس طرح نقل کیا ہے:

’’أَنَّه كَانَ یَحُکُّ الْمُعَوِّذَتَیْنِ مِنْ الْمُصْحَفِ، وَيَقُولُ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَعَوِّذُ بِهِمَا، وَكَانَ عبدُ اللهِ لَمْ يِقْرَأْ بِهِمَا‘‘

ترجمہ: ’’وہ یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن سے مٹا دیتے تھے اور کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں سورتوں کے ذریعہ پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان دونوں سورتوں کو نماز میں پڑھتے نہیں تھے۔‘‘ [مسند بزار ۵/۲۹، قال الھیثمی: رواہ البزار و الطبرانی، و رجالھما ثقات، دیکھئے: مجمع الزوائد ۷/۱۴۹]

عبد الرحمن بن یزید نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’کَانَ عَبْدُ اللهِ یَحُکُّ الْمُعَوِّذَتَیْنِ مِنْ مَصَاحِفِهِ وَیَقُولُ: إِنَّهُمَا لَیْسَتَا مِنْ کِتَابِ اللّهِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ.‘‘

ترجمہ: ’’سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے مصحف سے معوذتین کو مٹا دیتے اور کہتے کہ یہ دونوں اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب میں سے نہیں ہیں۔ ‘‘ [مسند احمد رقم: ۲۱۱۸۸، سندہ صحیح]

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نظریہ

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب نظریہ سے متعلق ان روایات کا جواب علماء نے دو طرح سے دیا ہے، کچھ لوگوں نے تو انھیں موضوع و منگھڑت اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے جب کہ دیگر علماء کی ایک جماعت نے اس کو صحیح تسلیم کیا ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب نظریئے کی توجیہ و تاویل کرتے ہوئے اس کا مدافعانہ جواب دیا ہے۔ اور اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

پہلا موقف:

جن محدثین و علمائے امت نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب نظریئے کی تکذیب کی ہے ان میں سے امام نووی رحمہ اللہ کا کہنا ہے :

’’وأجمع المسلمون على أن المعوذتين والفاتحة من القرآن، وأن من جحد منهما شيئاً كفر، وما نقل عن ابن مسعود في الفاتحة والمعوذتين باطل ليس بصحيح عنه‘‘ ’’معوذتین اور فاتحہ کے قرآن ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے، ان دونوں میں سے کسی کا انکار کرنا کفر ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو کچھ نقل کیا گیا ہے وہ باطل ہے صحیح نہیں ہے۔‘‘ [المجموع شرح المھذب للنووی، بحوالہ فتح الباری ۸/۷۴۳]

نیز شرح صحیح مسلم میں معوذتین کی فضیلت سے متعلق سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

’’فيه دلیل واضح علیٰ کونهما من القرآن و رد علیٰ من نسب إلیٰ ابن مسعود خلاف هذا، و فیه أن لفظة قل من القرآن ثابتة من أول السورتین بعد البسملة، وقد أجمعت الأمة علیٰ هذا کله‘‘

’’اس میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معوذتین داخل قرآن ہیں اور اس کے برخلاف سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے وہ مردود ہے۔ اور اس حدیث میں اس بات کی بھی دلیل پائی جاتی ہے کہ یہ دونوں سورتیں بسملہ کے بعد ابتداء ہی سے لفظ ’’قل‘‘ سمیت داخلِ قرآن ہیں۔ امت کا ان تمام باتوں پر اجماع ہے۔‘‘ [المنھاج فی شرح صحیح مسلم ص: ۵۴۱]

اسی بات کے قائل علامہ ابن حزم رحمہ اللہ بھی ہیں، وہ المحلیٰ میں لکھتے ہیں :

’’كل ما روي عن ابن مسعود أن المعوذتين وأم القرآن لم تكن في مصحفه فكذب موضوع لا يصح، وإنما صحت عنه قراءة عاصم عن زر بن حبيش عن ابن مسعود، وفيها أم القرآن والمعوذتان‘‘ ’’معوذتین اور ام القرآن سے متعلق جو کچھ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ ان کی مصحف میں نہیں تھا تو یہ جھوٹ پر مبنی موضوع ہے اور صحیح نہیں ہے۔ ان سے صحیح طور پر زر بن حبیش کے واسطہ سے عاصم کی قرات عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور اس میں ام القرآن اور معوذتین شامل ہیں ‘‘ [المحلیٰ ۱/۱۳]

علامہ رازی رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے، وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’الأغلب على الظن أن هذا النقل عن ابن مسعود كذب باطل‘‘

’’غالب گمان یہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ نقل جھوٹ اور باطل ہے۔‘‘ [فتح الباری ۸/۷۴۳]

صحیح بات ہے کہ معوذتین کے شاملِ قرآن ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے، یہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے  اور اب اس کا انکار کرنا یا قرآن کریم کے کسی بھی جزء کا انکار کرنا کفر ہے۔ لیکن ثابت شدہ روایات پر کسی دلیل و استناد کے بغیر رد کرنا درست نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے اس قسم کی روایات کو صحیح قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :

’’والطعن في الروايات الصحيحة بغير مستند لا يقبل، بل الرواية صحيحة والتأويل محتمل، والإجماع الذي نقله إن أراد شموله لكل عصر فهو مخدوش، وإن أراد استقراره فهو مقبول‘‘

’’اور کسی استناد و دلیل کے بغیر صحیح روایات کے بارے میں طعن و تشنیع مقبول نہیں ہے بلکہ روایت صحیح ہے اور اس میں تاویل و توجیہ کی احتمال و گنجائش ہے۔ اور اجماع کی جو بات کہی گئی ہے اگر اس سے مراد یہ ہو کہ یہ اجماع تمام دور کو شامل ہے تب تو یہ مخدوش ہے لیکن اگر اس سے مراد اجماع کا قرار پانا ہے تو یہ بات قابل قبول ہے۔‘‘ [فتح الباری ۸/۷۴۳]

دوسرا موقف

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سمیت دیگر بہتیرے اہلِ علم نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب روایت کی تاویل و توجیہ کی ہے اور یہی راجح موقف بھی ہے کیوں کہ ثابت شدہ روایات پر بیجا طعن درست نہیں ہے اور پھر جب تاویل و توجیہ کی احتمال و گنجائش ہو تو  اسی کو اپنانا زیادہ بہتر و درست معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب نظریئے کی ایک توجیہ یہ کی گئی ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو معوذتین کے داخلِ قرآن ہونے کا قطعی و صریح علم نہیں تھا اور وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ معوذتین کے قرآن کا ایک حصہ ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع و اتفاق ہو چکا ہے اور یہ کہ ان کے نزدیک معوذتین کی قرآنیت تواتر سے ثابت ہو چکی ہے، لہٰذا انھوں نے وقتی طور پر اس کی قرآنیت کا انکار کیا اور عارضی طور پر انھیں اپنے مصحف میں نہیں رکھا، لیکن جب انھیں معوذتین کے قرآن کا ایک حصہ ہونے کا تواتر اور اس پر صحابہ کرام کے اتفاق کا علم ہوا تو انھوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیا اور انھیں کلام اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ داخلِ قرآن ہونا بھی تسلیم کر لیا، جیسا کہ زر کے واسطہ سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی عاصم کی وہ صحیح قرأت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے جس میں معوذتین شاملِ قرآن ہیں۔ گویا یہ ان کا کمال احتیاط تھا کہ جب تک ان کے نزدیک معوذتین کا داخلِ قرآن ہونا ثابت نہیں تھا وہ انھیں مصحف میں لکھتے نہیں تھے جب کہ وہ معوذتین کے منزل مِن اللہ اور کلامِ الٰہی ہونے کے مُقِر تھے، اور وہیں دیگر صحابہ کرام ان دونوں سورتوں کے داخلِ قرآن ہونے پر متفق تھے۔ لیکن اس توجیہ کو ماننے سے ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ کسی دور میں متواتر نہیں تھا۔ اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ یہ صرف سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک محدود وقتی بات ہے وگرنہ صحابہ کرام اس دور میں بھی اس کے تواتر پر متفق تھے اور محض کسی ایک فرد کے عدمِ اتفاق سے تواتر ٹوٹتا نہیں ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ابن الصباغ رحمہ اللہ کے حوالے سے اس پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ابن الصباغ مانعینِ زکاۃ پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں : بے شک ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ سے قتال کیا لیکن یہ نہیں کہا کہ ان لوگوں نے اس کی وجہ سے کفر کیا ہے بلکہ ان کی تکفیر نہیں کی کیونکہ ابھی اس بات پر اجماع قرار نہیں پائی تھی۔ وہ کہتے ہیں : اور اب اس وقت ہم زکوٰۃ کا انکار کرنے والے کو کافر کہیں گے۔ وہ کہتے ہیں : اسی طرح کی بات معوذتین کے متعلق ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول رائے کے بارے میں بھی ہے کہ ان کے نزدیک اجماع کی بات ثابت نہیں ہوئی تھی اور پھر اس کے بعد لوگوں کا اس پر اتفاق ہو گیا۔

اور فخر الدين رازی نے یہاں ایک اشکال پیش کیا ہے، انھوں نے اس اشکال کو پیش کرتے ہوئے اس کا جواب بھی دیا ہے، کہتے ہیں : اگر ہم یہ کہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دور میں ان دونوں سورتوں کا قرآن میں سے ہونا متواتر تھا تو اس کا انکار کرنے والوں کی تکفیر لازم آئے گی۔ اور اگر یہ بات کہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دور میں ان دونوں سورتوں کا قرآن میں سے ہونا متواتر نہیں تھا تو یہ بات لازم آئے گی کہ قرآن کا کچھ حصہ متواتر نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں : اور یہ دشوار گتھی ہے۔ اور اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی قرآن متواتر تھا لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ بات درجہ تواتر کو نہیں پہنچی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ عُقدہ حل ہو جاتا ہے۔‘‘ [فتح الباری ۸/۷۴۳]

چناں چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نے بھی اس بات میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی پیروی نہیں کی۔ جیسا کہ امام بزار رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نظریہ سے متعلق اوپر مذکور علقمہ کی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’و هذا الكلام لم يتابع عبد الله عليه ذلك أحد من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم. وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قرأ بهما في الصلاة وأثبتتا في المصحف‘‘

’’یہ ایسی بات ہے جس پر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی پیروی اصحابِ نبی میں سے کسی نے نہیں کی۔ جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو نماز میں پڑھا ہے اور اسے مصحف میں ثابت و برقرار رکھا ہے۔‘‘ [مسند بزار ٥/٢٩]

محدث سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’يَحُكُّهُمَا الْمُعَوِّذَتَيْنِ، وَلَيْسَا فِي مُصْحَفِ ابْنِ مَسْعُودٍ، كَانَ يَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ بِهِمَا الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، وَلَمْ يَسْمَعْهُ يَقْرَؤُهُمَا فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ، فَظَنَّ أَنَّهُمَا عُوذَتَانِ، وَأَصَرَّ عَلَى ظَنِّهِ، وَتَحَقَّقَ الْبَاقُونَ كَوْنَهُمَا مِنَ الْقُرْآنِ، فَأَوْدَعُوهُمَا إِيَّاهُ‘‘

’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو مٹا دیتے تھے اور یہ دونوں سورتیں ان کے مصحف میں نہیں تھیں،  ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ذریعہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما پر دم کیا کرتے تھے، اور انھوں نے ان دونوں سورتوں کو نماز میں تلاوت کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں سنا تھا، اس لیے ان کے خیال میں یہ دو تعوُّذ تھیں، اور پھر وہ اپنے اسی خیال پر مصر رہے۔ اور باقی صحابہ کرام کی تحقیق کے مطابق یہ دونوں سورتیں قرآن کا حصہ ہیں اس لیے انھوں نے ان دونوں سورتوں کو قرآن میں رکھا۔‘‘ [مسند احمد، رقم: ۲۱۱۸۹]

اسی طرح رجوع کی بات اس لیے بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ اگر انھوں نے اپنی اس بات پر اصرار کیا ہوتا اور اسی پر جمے رہے ہوتے تو ضرور صحابہ کرام ان سے بحث و مباحثہ کرتے، اور ان کے نظریئے کی غلطی ان پر واضح کرتے، ایسا ناممکن ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن کریم سے متعلق ایک بڑے مسئلے میں خاموش بیٹھ رہتے۔ اور یہ معلوم بات ہے کہ اس سلسلے میں صحابہ کرام سے اور کچھ بھی مروی نہیں ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :

’’فلعله لم يسمعهما من النبي صلى الله عليه وسلم ولم يتواتر عنده، ثم لعله قد رجع عن قوله ذلك إلى الجماعة، فإن الصحابة رضي الله عنهم أثبتوهما في المصاحف الأئمة ونفذها إلى سائر الآفاق كذلك. و لله الحمد و المنة‘‘

 ’’شاید انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ان دونوں سورتوں کو نہ سنا ہو اور ان کے نزدیک متواتر نہ ہوں، پھر شاید اپنے اس قول سے رجوع کر کے جماعت کے قول کی طرف پلٹ آئے ہوں، کیوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں سورتوں کو مصاحفِ ائمہ میں ثابت فرمایا جس کے نسخے چہار دانگ عالم میں پھیلے۔ اور ہر طرح کا حمد و شکر اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘ [تفسیر القرآن العظيم ٤/٧٤٤]

علامہ ابوبکر باقلانی اور قاضی عیاض مالکی رحمہما اللہ وغیرہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نظریہ کی توجیہ و تاویل اس طرح کی ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کی قرآنیت کے انکاری نہیں تھے بلکہ انھوں نے ان دونوں سورتوں کو مصحف میں لکھنے سے انکار کیا ہے، گویا ان کا خیال یہ تھا کہ قرآن میں وہی چیزیں لکھی جائیں جن کے لکھنے کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے، اور شاید کہ ان دونوں سورتوں کو قرآن میں لکھنے والی بات ان تک نہیں پہنچی۔ یہ تاویل اس وقت درست ہو سکتی ہے جب روایات میں موجود اس جملے ’’إِنَّهُمَا لَیْسَتَا مِنْ کِتَابِ اللّٰهِ‘‘ کے لفظ ’’کِتَابُ اللّٰهِ‘‘ سے مراد مصحف لیا جائے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علامہ باقلانی رحمہ اللہ وغیرہ کے اس تاویل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"یہ اچھی توجیہ ہے مگر میری ذکر کردہ صحیح صریح روایت اس تاویل کو دفع کردیتی ہے جس میں ہے کہ وہ کہتے تھے: ’’إِنَّهُمَا لَیْسَتَا مِنْ کِتَابِ اللّٰهِ‘‘ ’’یہ دونوں سورتیں کتاب اللہ میں سے نہیں ہیں۔ ‘‘ ہاں یہ ممکن ہے کہ لفظِ ’’کِتَابُ اللّٰه‘‘ کو مصحف پر محمول کیا جائے تو یہ تاویل درست ہو سکتی ہے۔‘‘

ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے وہم گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ معوذتین قرآن کا حصہ نہیں ہیں بلکہ وہ انھیں قرآن کا حصہ مانتے تھے اور لوگوں میں ان سورتوں کی شہرت کی وجہ سے انھیں مصحف میں لکھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ علامہ مازری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’يحتمل ما روي من إسقاط المعوذتين من مصحف إبن مسعود انه اعتقد انه لا يلزمه كتب كل القرآن و كتب ما سواها و تركهما لشهرتهما عنده و عند الناس. و اللّٰهُ أعلم‘‘ ’’مصحف ابن مسعود میں معوذتین کے إسقاط کے بارے میں جو کچھ مروی ہے اس میں اس بات کا احتمال پایا جاتا ہے کہ ان کا یہ اعتقاد رہا ہو کہ تمام قرآن کا لکھنا ضروری نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے ان دونوں کے علاوہ دیگر سورتوں کو لکھا اور خود اپنے نزدیک اور دوسروں کے نزدیک ان دونوں سورتوں کی شہرت کی وجہ سے انھیں ترک کر دیا۔ و اللہ اعلم‘‘ [المنہاج فی شرح صحیح مسلم للنووی ص: ۵۴۶]

اسی طرح علامہ داؤد راز رحمہ اللہ صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:

’’جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین سب کا یہ قول ہے کہ معوذتین قرآن میں داخل ہیں اور اس پر اجماع ہو گیا اور ممکن ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ مطلب ہو کہ گویا دونوں سورتیں کلام الٰہی ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مصحف میں نہیں لکھوایا اس لیے مصحف میں لکھنا ضروری نہیں۔ ‘‘ [صحیح بخاری مع ترجمہ و شرح ٦/٤٤٥]

علاوہ ازیں بفرضِ محال اگر ہم سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے انکار کو تسلیم بھی کر لیں تو اس سے معوذتین کی قرآنیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور یہ بات قرآن کریم کے تواتر کے لیے ذرا بھی نقصان دہ نہیں ہے۔ جب کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے معوذتین کا قرآن ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے اور تمام صحابہ کرام و امتِ اسلامیہ کا معوذتین کی قرآنیت پر اجماع و اتفاق ہو چکا ہے۔ اس لیے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت اور ان کی جلالتِ قدر کے باوجود ان کا یہ نظریہ معوذتین کی قرآنیت اور تواترِ قرآن کے خلاف حجت نہیں بن سکتا ہے۔ صاحبِ مناہل العرفان لکھتے ہیں :

’’اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے معوذتین کا انکار کیا ہے، اور سورہ فاتحہ کا انکار کیا ہے بلکہ پورے قرآن کا انکار کر دیا ہے تب بھی ان کا یہ انکار ہمارے لیے ضرر رساں نہیں ہے اس لیے کہ ان کا یہ انکار قرآن کے تواتر کو ختم نہیں کر سکتا ہے اور نہ تواتر سے حاصل ہونے والے علم قطعی کو مٹا سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ:

تواتر اور اس پر مبنی علمِ یقینی کے لیے یہ شرط ہو کہ کوئی مخالف اس کی مخالفت نہ کرے، وگرنہ محض ہر کسی ایرے غیرے کی مخالفت سے تواتر کو گرانا اور اس سے حاصل ہونے والے علمِ یقینی کو باطل قرار دینا ممکن ہوگا۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ ’’مشکل القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ معوذتین قرآن کا حصہ نہیں ہیں کیوں کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ ان دونوں سورتوں کے ذریعہ سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما پر دم کرتے تھے اور انھوں نے اپنے اسی خیال پر یہ نظریہ قائم کیا۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ وہ اپنے اس خیال میں درست تھے اور مہاجرین و انصار سے خطا ہوئی تھی۔‘‘ [مناہل العرفان ۱/۲۷۶، ۲۷۷]

خلاصۂ بحث 

مذکورہ تفصیلات سے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب نظریہ کا بخوبی تصفیہ ہو جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر قرآن کریم یا معوذتین کے خلاف کسی طرح کے اعترض اور غلط فہمی کی گنجائش بھی یکسر ختم ہو جاتی ہے، خواہ کسی بھی موقف کو تسلیم کیا جائے۔ اور ان تفصیلات کے مطابق یہ بات بھی واضح ہوکر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ قرآن کریم اور بالخصوص معوذتین کے متعلق دشمنانِ اسلام کے شبہات و اعتراضات کی کوئی حقیقت و حیثیت نہیں ہے۔

آج قرآن کریم کا جو نسخہ ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ بعینہ اللہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے، اس میں ذرہ برابر بھی ہیر پھیر اور تحریف نہیں ہوئی ہے اور نہ اس کے اندر بعد کے ادوار میں کچھ کمی بیشی کی گئی ہے۔ اگر کسی کو اس بات پر اصرار ہے کہ قرآن کریم کی بعض سُوَر و آیات الحاقی ہیں تو وہ اس جیسا کلام پیش کرے؟ میرا دعویٰ ہے کہ قیامت کی صبح تک کوئی بھی شخص اس جیسا کلام پیش نہیں کر سکتا ہے کیوں کہ موجودہ قرآن کی تمام آیات اور سورتیں اللہ رب العزت کی نازل کردہ ہیں اور اس کتاب مبین میں داخل و شامل ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا یہ چیلنج آج تک تشنہ جواب ہے اور تا قیامت تشنۂ جواب رہے گا:

﴿قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾ [بنی اسرائیل: ۸۸]

ترجمہ: ’’کہہ دو اگر تمام انسان اور جنات اکٹھا ہو جائیں اور اس قرآن کے جیسا بنا لانا چاہیں تو وہ سب مل کر بھی اس جیسا نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ بن جائیں۔ ‘‘

چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ [الحجر: ٩] ’’بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ ‘‘ کے مطابق قرآن کریم کی بھر پور حفاظت و نگہبانی فرمائی اور اسے ہر طرح کی کمی و بیشی سے محفوظ رکھا ہے۔ اور یہ حقیقتِ واقعہ ہے کہ مسلمانوں کے آپسی مسلکی اختلافات کے باوجود ہر کوئی قرآن کریم کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہے اور کسی نے بھی اس کے اندر ہیر پھیر کرنے کی جرأت نہیں کی ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق سے ہو رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔