بائے بائے مودی جی: پھر ملیں گے اگر خدا لایا

ڈاکٹر سلیم خان

وزیراعظم مودی جی نے جاتے جاتے مسلمانوں کو شکریہ کا ایک موقع دے ہی دیا۔ اعلیٰ ذاتوں کو ریزرویشن سے متعلق ’آئینی ترمیمی بل‘  کے لوک سبھا  میں منظور کرکے اسے  غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ اب آئندہ انتخاب کے بعد کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا ؟ مودی جی پی ایم ہوں گے یا ایم پی ہوں گے اس کا علم کسی کو نہیں ہے  لیکن شمسان اور قبرستان تک میں ہندو ہندو، مسلم مسلم کھیلنے والے مودی جی نے  جانے پہلے مسلمانوں کا شمار ملک کے اشرافیہ میں کردیا اور انہیں  ریزرویشن کی سہولت کاحقدار  بھی بنا دیا اس لیے ملت ان کی ممنون ہے۔  اس بل کا راجیہ سبھا میں کیا حشر ہوگا؟ عدالت میں ٹک سکے گا یا نہیں؟ اورکس کو کیا ملے گا؟ مودی جی کے اس آخری فیصلے نےمسلمانوں کو خوش کردیا ہے۔  یہ الگ بات ہے کہ وہ ہندووں کی ناراضگی کے خوف سے اس کا کریڈٹ نہیں لیں اور کانگریس مسلمانوں کی ناراضگی کاخیال کرکے اس پر تنقید نہیں کرے گی۔

سنگھ پریوار جب بھی ریزرویشن پر نظر ثانی کی بات کرتا ہے اس مطلب بجا طور پر ریزرویشن کے خاتمہ کی کوشش لیا جاتاہے۔ پانچ ہزار سالہ منوواد نے ملک میں ایسی سماجی صورتحال بنارکھی ہے کہ اگرآج ریزرویشن ختم ہوجائے تو ۳۱ فیصد  نام نہاد اعلیٰ ذات کے ہندو گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر ۹۰ سے زیادہ  فیصد سرکاری  ملازمتوں پر قابض ہوجائیں گے۔ اس لیےہندوستان  کےہندو اشرافیہ  کو ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ  چاہتے ہیں کہ کسی طرح   پسماندہ طبقات کےریزرویشن کا خاتمہ ہوجائے اور انہیں سارے وسائل پر بلا شرکت غیرے قبضہ کرنے کا موقع میسرآجائے۔ ایسے میں جس کو ۵۰ فیصد بلاواسطہ ریزرویشن حاصل ہے اس کےغریب طبقہ کی خاطر اس کے اپنے  حصےمیں سے ۱۰  فیصد مختص کردینا بے معنیٰ ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ  ہندو اشرافیہ برضا و رغبت اپنے غریبوں کے ساتھ وسائل تقسیم نہیں کرسکتے اور حکومت کو زبردستی کرنی پڑتی ہے۔

 اس ریزرویشن سے  اعلیٰ ذات کا غریب  ہندو تو خوش ہوگا لیکن امیر ہندو ناراض ہوجائے گااس لیے کہ اس کی حق تلفی ہوگی۔  سرکار ی نوکریوں کو جب ان سے چھین کر  مساکین میں تقسیم کیا جائے گا تو اس میں مسلمان بھی  حصہ دار بن جائیں گے اس طرح اس بل سے ہندو اشرافیہ سیدھا سیدھا نقصان ہے اور وہ مودی جی کو ا س حماقت  کی سزا دے سکتے ہیں۔  مودی جی اگر پسماندہ ذاتوں کا حق مار کر اعلیٰ ذات والوں کو دیتے تو انہیں خوشی ہوتی لیکن انتخاب سے قبل  پسماندہ طبقات کی جانب بری نظر سے دیکھنے کا خطرہ مودی جی نہیں لے سکتے۔ بہار  کے صوبائی الیکشن میں وہ اس کا مزا چکھ چکے ہیں۔  بھاگوت کے ایک بیان نے سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا تھا۔

وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا ایوان پارلیمان میں یہ کہنا کہ ’’یہ سماج کے سبھی طبقوں کو یکساں مواقع دینے اور سب کی ترقی کے بنیادی اصول پر مبنی ہے‘‘۔  مسلم دشمن سنگھ پریوار کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالنے جیسا ہے ۔خوشحال اعلیٰ ذات کا درد  سارے سنگھ نےمحسوس  کیا ہوگا لیکن اعتراف کی جرأت پروین توگڑیا  کے سوا کوئی  نہیں کرسکا۔ بددماغ توگڑیا نے مودی سرکارکو آڑے ہاتھوں لیتے  ہوئے کہا کہ ریزرویشن بل میں مسلمانوں کو شامل کر کے ہندوؤں کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے۔انکے مطابق  غریب ہندو اشرافیہ  کے دس فیصد ریزرویشن میں مسلمانوں کو شامل کر کے نریندر مودی نے اعلیٰ ذاتوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ توگڑیا کی الٹی منطق یہ ہے  چونکہ اعلیٰ ذات کے ہندو کم بچے پیدا کرتے ہیں اور مسلمان چار چار شادیاں کر کے بہت سارے بچے پیدا کردیتے ہیں اس لیےمستقبل  میں تمام سہولیات مسلمانوں کے نام ہو جائیں گی۔  اعلیٰ ذات کے ہندونوجوان آج ہی کی طرح بے روزگار رہ جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ احمقانہ  دلیل ہے لیکن اس سے شدت پسند ہندو طبقات  کے دل درد ٹپکتا ہے۔

توگڑیاکے مطابق حکومت کے پاس لاکھوں نوکریاں خالی پڑی ہیں، انہیں پُر کرنے کے بجائےریزرویشن کا لالی پاپ پکڑا یا جارہا ہے جبکہ نتن گڈکری   بہت  پہلے اعتراف کرچکے ہیں چونکہ ملازمتیں موجود ہی نہیں ہیں اس لیے ریزرویشن کی بحث فضول  ہے۔آرایس ایل پی کےاوپیندر کشواہا نے بل کی حمایت تو کی لیکن تسلیم  کیا کہ ریزرویشن دینے بھر سے ہی نوکری نہیں ملتی اور نہ ہی ریزرویشن سے اقتصادی خوشحالی آتی ہے۔ترنمول کےڈیریک او برائن کی دلیل ہے کہ  اس بل کی پیشکش گواہ  ہے کہ سرکار ملازمت کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔  عوام کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان بھانت بھانت کی بولیوں  میں سے کس پر یقین کرے اور کسے ٹھکرا ئے۔  بعید نہیں کہ ملک کے رائے دہندگان اس تضاد بیانی  سے تنگ آکر ان سارے پاکھنڈیوںکو   مسترد کردیں ۔

سیکولر ارکان پارلیمان بھی اس  متنازع بل پر مطمئن نہیں ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ بل کے حق میں صرف ۲۲۳ ووٹ پڑے؟ لوک سبھا  میں این ڈی اے  کے ۳۰۷ ارکان ہیں ۔ ان میں ۲۷۱ کا تعلق بی جے پی سے ہے ۔کانگریس نے حمایت کی اس کے ۴۵  ارکان ہیں ۔ ڈی ایم کے علاوہ کوئی خلاف نہیں ہے اس کے باوجوددستوری ترمیم کے لیے درکار دوتہائی تعداد ندارد تھی  ؟کانگریس کے وی تھامس نے اسے  جمہوریت پر ظلم قرار دیا حالانکہ یہ جمہوریت کا جبر ہے۔اے آئی اے ڈی ایم کے تھمبی دورائی معاشی نہیں بلکہ سماجی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن  کے قائل ہیں  ۔ترنمول کانگریس کے سدیپ بندوپادھیائے نے اسے  سیاسی آلہ کار قرار دیا۔ کانگریس کے دپیندر ہڈا نے حمایت تو کی مگر حکومت کی نیت پر شک کا اظہار کیا اور یاد دلایا کہ  یہ کام  ملک میں پہلے بھی ہوچکا  ہےاور بی جے پی اس طرح کےریزرویشن کی مخالفت کر چکےہیں ۔

پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے اقتصادی طور پر کمزور لوگوں کو ریزرویشن دینے کی کوشش کی تھی لیکن  سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو خارج کر دیا تھا۔ اس بل کے راستے کی رکاوٹ سیاست نہیں عدالت ہے۔ یہ  سپریم کورٹ کےذریعہ ۱۹۹۲ ؁ میں طے کردہ ۵۰   فیصد کی حد بندی کو پھلانگتا ہے۔عدالت عظمیٰ  کے سابق جسٹس اے ایم احمدی کے مطابق یہ اقدام سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔اس میں دوسری اڑچن آئین کی شق ۱۶ ہے جومعاشی بنیاد پر پسماندگی کی قائل ہی نہیں ہے ۔ سابق سکریٹری پی ایس کرشنن کے مطابق  یہ بل آئین کی خلاف ورزی ہے اور جوڈیشل جانچ کا سامنا نہیں کر سکے گا۔ کرشنن ریزرویشن کوغریبی کے خاتمے کا پروگرام نہیں مانتے بلکہ سماجی انصاف کی بحالی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔  آئین میں  ریزرویشن ایسے لوگوں کے لئے  ہے جن کو ذات پات کی بنیاد پرتعلیم اور سرکاری ملازمت سے محروم  رکھا گیا تھا۔ایس سی، ایس ٹی طبقات کے لوگ  چونکہ نسلی تفریق وامتیاز کے سبب سماجی اور تعلیمی پسماند گی کا شکار ہوگئے تھے اس لیے انہیں ریزرویشن دینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔

اس میں شک شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ سیاسی کرتب گری ہے۔ اسی لیے این ڈی اے  کے رام داس اٹھاولے اس کو مودی جی کا مسٹر اسٹروک اور کانگریس کے ابھیشیک منو سنگھوی سیاسی نوٹنکی قرار دیتے ہیں ۔۱۹۳۱ ؁ کے بعد سے ابھی تک ملک میں ذات پات کی مردم  شماری  نہیں ہوئی ۔  منڈل کمیشن کے مطابق ملک میں پسماندہ طبقات کی آبادی ۵۰ فیصد ہے۔ ۲۰۰۷ ؁ کے سرکاری جائزے کے مطابق ہندو آبادی میں پسماندہ طبقات ۴۱ فیصد اور اعلیٰ ذات کے لوگ ۳۱فیصد ہیں ۔ یہ اعلیٰ ذات کے لوگ ۱۲۵ حلقہ ہائے انتخاب پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق  ۲۰۰۴ ؁ میں ان ہندووں کے اندر سے ۳۵ فیصد نے بی جے پی اور ۲۵ فیصد نے کانگریس کو ووٹ دیا تھا جبکہ ۲۰۱۴ ؁ میں کانگریس کے ۱۱ فیصد کم ہوگئے یعنی اسے ۱۴ فیصد جبکہ بی جے پی کے ۱۳ فیصد بڑھ گئے یعنی اسے اعلیٰ ذات کے ہندووں میں سے ۴۸ فیصد نے ووٹ دیا۔ ان اعدادو شمار میں  راہل گاندھی  کے جنیوا دکھانے اور مندروں میں جانے کا راز پوشیدہ ہے۔  مودی جی نے  بھی اپنے ان رائے دہندگان کوبہلانے پھسلانے کے لیے یہ تماشہ کیا ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


4 تبصرے
  1. عبدالکریم برگن کہتے ہیں

    سلیم خان ایک بے باک صحافی خوش مزاج شخصیت کے مالک ھیں۔ حالات پر بھت گہری نظر رکھتے ہیں۔

    1. ڈاکٹر زبیر احمد عبد الروف کہتے ہیں

      السلام علیکم رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔۔۔
      بالکل صحیح بات ہے۔۔۔بے باک اور خوش مزاج کے ساتھ بشر بھی ہے۔۔۔بے خوف بولتے اور لکھتے ہے۔۔۔ماشااللہ ۔۔۔
      اللہ قوم کے لئے ان کی اس خدمت کو قبول کرے اور دونوں جہاں میں بہترین اجر عطا فرمائے۔۔
      آمین یا رب العالمین ۔۔

  2. عابد اطہر کہتے ہیں

    سلام و رحمہ

    بہترین مضمون ۔

    1. طاہر جمال کہتے ہیں

      ماشاءاللہ۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

تبصرے بند ہیں۔