تیرا انکار مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
عبدالکریم شاد
تیرا انکار مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
جب بھی کچھ کہنے کی خاطر میں اٹھا، بیٹھ گیا
…
حد تو یہ ہے کہ اک آواز بھی تو نے نہ سنی
"اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا”
…
یار کے درد کا، غیروں کی خوشی کا سرِ بزم
اٹھتے اٹھتے مجھے احساس ہوا، بیٹھ گیا
…
بیڑیاں ڈال دیں زلفوں کی مرے پیروں میں
اٹھ کے جب جانے لگا، چل نہ سکا، بیٹھ گیا
…
کس قدر خوب سمجھتا ہے مرا دوست مجھے
میں نے جب روٹھ کے جانے کو کہا، بیٹھ گیا
…
جو بھی آتا ہے وہ پتھر کی طرح آتا ہے
جب سے اس دل میں اک آئینہ نما بیٹھ گیا
…
اے درختو! مجھے تم چھاؤں کا لالچ مت دو
میں نہیں وہ کہ ذرا دور چلا، بیٹھ گیا
…
یاد آنے لگے بچوں کے تقاضے اس کو
کام سے تھک کے جو مزدور ذرا بیٹھ گیا
…
اِس کی قسمت میں ہے زندان کا دانا پانی
یہ پرندہ جو فقط کر کے دعا، بیٹھ گیا
…
اک مسز گود میں کتے کو لیے بیٹھی تھی
میں بغل میں وہیں حسرت سے بھرا بیٹھ گیا
…
بس اسی بات پہ محفل سے نکالا مجھ کو
شاد جی! میں نے تکلف نہ کیا، بیٹھ گیا
تبصرے بند ہیں۔