تیرا انکار مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا

عبدالکریم شاد

تیرا انکار مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا

جب بھی کچھ کہنے کی خاطر میں اٹھا، بیٹھ گیا

حد تو یہ ہے کہ اک آواز بھی تو نے نہ سنی

"اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا”

یار کے درد کا، غیروں کی خوشی کا سرِ بزم

اٹھتے اٹھتے مجھے احساس ہوا، بیٹھ گیا

بیڑیاں ڈال دیں زلفوں کی مرے پیروں میں

اٹھ کے جب جانے لگا، چل نہ سکا، بیٹھ گیا

 کس قدر خوب سمجھتا ہے مرا دوست مجھے

میں نے جب روٹھ کے جانے کو کہا، بیٹھ گیا

جو بھی آتا ہے وہ پتھر کی طرح آتا ہے

جب سے اس دل میں اک آئینہ نما بیٹھ گیا

اے درختو! مجھے تم چھاؤں کا لالچ مت دو

میں نہیں وہ کہ ذرا دور چلا، بیٹھ گیا

یاد آنے لگے بچوں کے تقاضے اس کو

کام سے تھک کے جو مزدور ذرا بیٹھ گیا

اِس کی قسمت میں ہے زندان کا دانا پانی

یہ پرندہ جو فقط کر کے دعا، بیٹھ گیا

اک مسز گود میں کتے کو لیے بیٹھی تھی

میں بغل میں وہیں حسرت سے بھرا بیٹھ گیا

بس اسی بات پہ محفل سے نکالا مجھ کو

شاد جی! میں نے تکلف نہ کیا، بیٹھ گیا

تبصرے بند ہیں۔