ان کی بلا سے ’بوم‘ رہے یا ’ہما‘ ر ہے

حفیظ نعمانی

ہر ہفتہ بدھ کے دن بزرگ صحافی کلدیپ نیئر کا کالم اخباروں میں آتا ہے۔ گذشتہ بدھ کو انہوں نے نواز شریف کے بارے میں لکھا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے ان سے ملنے کی کوشش کی تو انہوں نے لندن میں اپنے دولت خانہ پر ناشتہ ساتھ کرنے کا وقت دیا۔ وہ اپنے لندن کے اس فلیٹ میں تھے جو دنیا کے سربراہوں نے لندن کی اس کالونی میں خرید رکھے ہیں جہاں کوئی ان کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوسکتا۔ کلدیپ صاحب نے لکھا ہے کہ ناشتہ کے لئے کھانے کی میز پر نہ جانے کتنے قسم کے کھانے سجے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ ایسے ہی فلیٹ (محل) ان کی بیگم اور بیٹی کے بھی وہی ہیں۔ (ان میں لڑکوں کے نام ان سے چھوٹ گئے جبکہ ماں کے بھی محل اسی دائرہ میں ہیں۔)

گذشتہ سال میرے چھوٹے بیٹے ہارون میاں کو پریس کی مشینوں کی ایک نمائش میں جرمنی جانا تھا انہوں نے گروپ سے ہٹ کر لندن کا سفر بھی اپنے پروگرام میں شامل کرلیا۔ جہاں ان کے تایا ابا 50  سال سے مقیم ہیں وہ اپنے تایا زاد بھائی رضی کے ساتھ بہن سے ملنے لندن سے برمنگھم جارہے تھے تو لندن سے نکلنے کے بعد وہ کالونی دور سے نظر آئی میاں رضی نے بتایا کہ یہ ہے وہ جنت ِ ارضی جو دنیا بھر کے بے ایمان سربراہوں اور اپنے ملک کو لوٹ کر فرار ہونے والے سرمایہ داروں نے اپنے اپنے ملک کی دولت لوٹ کر محل خریدے ہیں اور اس آزاد کالونی میں انگریز کو بھی اجازت کے بغیر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

کلدیپ نیئر صاحب نے برسبیل تذکرہ یہ بھی لکھا تھا کہ نواز شریف کے بڑے بڑے کارخانے پاکستان اور سعودی عرب میں بھی ہیں جس کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں کہ وہ جب پرویز مشرف کی مٹھی میں تھے تو سعودی فرمانرواشاہ عبداللہ نے پرویز مشرف سے مانگ لیا تھا اور وہ دس سال کے لئے جلاوطن کرکے سعودی عرب بھیج دیئے گئے تھے۔ جدہ میں میری بیٹی رہتی ہے۔ میرے داماد سرکاری اخبار سعودی گزٹ انگریزی اور الکافا عربی جس کا دفتر ایک ہی بلڈنگ میں ہے اس کے شعبۂ اشتہارات سے متعلق ہیں۔ جدہ میں نواز شریف کے لوہے کے کارخانوں کے بارے میں ان سے ہی معلوم ہوا تھا جو شاہزادوں کی شرکت میں بنے ہیں۔

کل نواز شریف کی بیٹی کی تقریر کے چند جملے سنے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں ایک بہادر باپ کی بیٹی ہوں اور اپنے ملک کی خاطر اپنی بیمار ماں کو پردیس میں چھوڑکر آئی ہوں۔ ہم اسلام آباد سے سیکڑوں میل دور بیٹھ کر جب واقف ہیں کہ نواز شریف اپنی بیٹی کو لے کر کیوں آئے ہیں تو کیا پاکستانی سب گدھے ہیں جنہیں نہیں معلوم کہ پاکستان کے امیرالمومنین اور خلیفۃ المسلمین اپنے کو کہنے والے نواز شریف نے لندن میں اپنے لئے اپنے بیٹوں اور بیٹی کے اور بیوی کیلئے الگ الگ محل خرید رکھے ہیں ہم نے یہ تو سنا ہے کہ کسی ملک کا بے ایمان سربراہ ایک محل خرید کر رہ رہا ہے یہ پہلی بار سنا کہ سب سے بڑے مسلم ملک کا سربراہ آدھا درجن محل خرید چکا ہے اور اب پوتوں کا نمبر ہے۔

12 اکتوبر 1999 ء کو نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے بعد پرائم منسٹر ہائوس سے عیاشی کا جو سامان برآمد ہوا تھا اس میں سیکسی بیڈ جن پر عیاشی اور رنگینی کے تمام لوازمات موجود ملے۔ ان کے علاوہ بلیوپرنٹ ویڈیو کیسیٹس اور غیرملکی فحش رسائل کا ذخیرہ ملا تھا۔ اخبار جنگ کے معروف صحافی کامران خاں کے مطابق نواز شریف نے پرائم منسٹر ہائوس میں لطیفے اور گانا سنانے والے ٹھہرا رکھے تھے جو نواز شریف کو خوش رکھتے تھے۔ قومی احتساب بیورو کے مصدقہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے باتھ روم کا نقشہ انٹروڈموبل پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور سے خصوصی فرمائش سے بنوایا تھا اس میں کیا کیا تھا یہ بیان کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا کیونکہ مریم بڑی ہوچکی ہے اور وہ اپنے باپ کو بہادر کہتی ہے۔ جانتی تو سب کچھ ہوگی لیکن بیٹیاں باپ کو ننگا نہیں دیکھ سکتیں۔

معزول نواز حکومت کے دَور میں عرب شاہزادوں کی ’’خدمت‘‘ پر سرکاری سطح پر شراب اور شباب فراہم کرنے کے بھی ثبوت ملے ہیں۔ ایک ریاست کے ولی عہد کے ہمراہ جو وفد آیا تھا ان کے لئے فائیو اسٹار ہوٹل کے 40  کمرے بک ہوئے تھے اور فلم انڈسٹری کی تتلیوں کو خصوصی طور پر حکومت کی سطح پر بک کیا گیا تھا۔ عرب شاہزادوں سے ان کا یہی تعلق تھا جس نے انہیں پرویز مشرف کے چنگل سے بچاکر گود میں لے لیا اور قسمت نے انہیں پھر وزیراعظم بنا دیا۔

آج وہ پھر میدان میں ہیں بیوی بسترمرگ پر ہیں بیٹے فرار ہیں اور خود اپنی بیٹی مریم کے ساتھ جیل میں ہیں اور صرف تین دن کے بعد الیکشن ہیں جس میں نہ وہ امیدوار ہیں اور نہ ان کی بیٹی مریم اور کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ فوج کی کوشش یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت بن جائے۔ الیکشن سے پہلے نام تو بلاول بھٹو، زرداری اور حافظ سعید دونوں کا آرہا تھا۔ اب یہ ہندوستان کی پالیسی ہے کہ وہاں کی خبریں ملک میں نہ آئیں یا پاکستان کی کوشش کہ ان کا جمہوریت کے نام پر پھوہڑ انداز باہر نہ جائے؟ حاصل یہ ہے کہ اتنا قریبی پڑوسی اور کچھ نہیں معلوم کہ ہوا کدھر کی ہے؟

پاکستان جب بنا تھا تو ہندوستان سے گئے ہوئے لیڈر ہی پاکستان کے صدر اور وزیراعظم بنتے تھے۔ ایوب خان کے مقابلہ میں مس فاطمہ جناح نے جب نامزدگی کرادی اور ہندوستان سے گئے ہوئے چوہے نے مادر ملت کا الیکشن ایسا ہی لڑایا جیسا انہوں نے پاکستان بنانے کیلئے لڑایا تھا تو گویا اپنی قبر کھود دی۔ پھر اس کے بعد پنجابیوں اور سندھیوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب اُردو بولنے والوں کو چپراسی اور ڈرائیور بھی نہیں رکھنا ہے۔ اور مہاجروں پر وہ ظلم ڈھائے گئے کہ ہندوستان کی کہانیاں بھول گئے۔

ہم زندگی میں ایک بار ہی 1952 ء میں پاکستان گئے ہیں اور 40  دن قیام رہا اس وقت صورت حال یہ تھی کہ دارالسلطنت کراچی تھا اور ہر محکمہ کا سربراہ مہاجر تھا ہمارا کام بینک سے متعلق تھے معلوم ہو کہ ریزرو بینک کے گورنر زاہد حسین ہیں یہ بریلی سے گئے تھے اور بہت اچھا تعارف تھا۔ ان سے ملاقات کی تو وہ کام جو کروڑوں روپئے کیلئے ہوتا ہے انہوں نے کرادیا۔ میرے بچپن کے ایک دوست غفور پوسٹ آفس میں تھے ان کی بیوی بچپن میں ساتھ کھیلی بہن تھی اس نے کہا سنا ہے بشیر صاحب سے تمہارا تعلق ہے؟ اگر ایسا ہے تو غفور کا تبادلہ لاہور کرادو۔ بشیر صاحب پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے سب سے بڑے افسر اور اتنا حقیر کام؟ وہ ہنسے اور ایک سکریٹری سے کہا کہ ان سے درخواست لے اور جیسے ہو انہیں لاہور بھیج دو۔ اور وہ لاہور چلے گئے۔ اور بعد میں خط و کتابت اور ٹیلیفون سے معلوم ہوا کہ اب اس دن کو روتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کیوں بنوایا؟

ہمارے عرض کرنے کا حاصل یہ ہے کہ نواز شریف ہوں، عمران خان یا بلاول ان میں کوئی نہیں ہے جو مہاجر کہلانے والوں کو گلے لگائے وہ عمر بھر پاکستان بنوانے کی سزا بھگتتے رہیں گے اللہ ان پر بھی رحم کرے اور ہم پر بھی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔