پھر سرِ شام مل گیا کوئی 

مجاہد ہادؔی ایلولوی

پھر سرِ شام مل گیا کوئی
پھر سے صحرا میں گل کھِلا کوئی

پھر کسی کا سہاگ اجڑا ہے
"پھر نشیمن کہیں جلا کوئی”

پھر کسی نے ضمیر بیچا ہے
کارواں پھر سے لُٹ گیا کوئی

آسماں پر دھنوا بتاتا ہے
"پھر نشیمن کہیں جلا کوئی”

رب کے دربار میں بھی جانا ہے
تم سے سرزد نہ ہو خطا کوئی

اس کو آرام کرنے دے ائے موت
آیا ہے پھر سے رَت جگا کوئی

جو بچالے بھنور سے کشتی کو
ہے کہیں ایسا ناخدا کوئی

کس خطا کی مجھے سزا دی ہے
کیوں مجھے دے گیا دغا کوئی

بت کدے میں اذاں دے جو پھر سے
ایسا  ہے  بندہ  خدا  کوئی

کس کی چوکھٹ پہ سر جھکائیں ہم
رب نہیں تیرے ماسوا کوئی

مجھ کو اس ملک سے محبت ہے
یہ خطا ہے, تو ہے سزا کوئی

میں عدالت سے تھک گیا یا رب
اب تو ہی کردے فیصلہ کوئی

ہے محبت کی مجھ کو بیماری
اس مرض کی ہے اب دوا کوئی

سب کو مخمور کردے جو ہادؔی
نغمہ ایسا تو بھی سنا کوئی

تبصرے بند ہیں۔