جانے کس بات پر اڑی ہے دھوپ
عبدالکریم شاد
جانے کس بات پر اڑی ہے دھوپ
ہر شجر سے بہت لڑی ہے دھوپ
…
کوئی سایہ نظر نہیں آتا
دیکھیے ہر طرف کھڑی ہے دھوپ
…
خود سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
راہ میں کس قدر کڑی ہے دھوپ
…
کوہ کن کے لیے تو دنیا میں
کوئی موسم ہو ہر گھڑی ہے دھوپ
…
تم جو آؤ تو شام ہو جائے
بام پر صبح سے کھڑی ہے دھوپ
…
میری سرسبز و نم طبیعت سے
صبح سے شام تک لڑی ہے دھوپ
…
چھاؤں خوشیوں کی مل سکی نہ کہیں
رنج کی جا بہ جا پڑی ہے دھوپ
…
اس کے غصے کا شاد! کیا کہنا
جیسے برسات میں کڑی ہے دھوپ
تبصرے بند ہیں۔