ذکی نور عظیم ندوی
اللہ و رسول پر ایمان اور اس کی گواہی کے بعد حج اسلام کے دیگر چار ارکان میں ایک ایسا رکن ہے جو مختلف امتیازات، بے شمار فضائل اور بے حد وحساب اجر وثواب کا حامل ہے۔ حج بیک وقت مالی عبادت بھی ہے اور جسمانی بھی، اس میں مختلف موقعوں پر نماز بھی ہے، اور فدیہ اور جانور خریدنے کی استطاعت نہ ہونے پر روزہ بھی، اور بغیر مال تو اس کی فرضیت کا تصور ممکن ہی نہیں۔
حج خانہ کعبہ کی مرکزی حیثیت اور اس کے تعلق سے مسلمانوں پر مشروع دیگر اعمال طواف، عمرہ اور استقبال قبلہ میں بھی سب سے اہم اور نمایاں عمل ہے۔ حج متعین مہینوں(شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ) کی متعین تاریخوں(8 تا13ذو الحجہ) کے متعین اوقات پر کیے گیے مناسک و اعمال (احرام، طواف، سعی، قیام منی، وقوف عرفہ، مبیت مزدلفہ،رمی جمرات، حلق، قربانی، رمی جمرات، مبیت منی) اور مختلف ممنوعات احرام(سلے ہوئے کپڑے پہننا‘ سر ڈھانکنا‘ خوشبو لگانا‘ ناخن یا بال کاٹنا، شکار کرنا‘ نکاح کرنا یا کروانا‘ اور ازدواجی رشتہ بنانا وغیرہ) سے اجتناب کا ایک مجموعہ اور مختلف جگہوں(مکہ، منی، عرفات اور مزدلفہ) پر ادا کیے جانے والا ایک عظیم دینی شعار بھی ہے۔
حج اگر حلال آمدنی، اخلاص اور نبی اکرمؐ کی سنت کے مطابق ادا کیا گیا تو حج مبرور ہے جس کا اجر جنت ہے اور ہر طرح کے فسق و فجور اور گندگیوں سے بچتے ہوئے کیا گیا تو ماں کی پیٹ سے پیدا نہ مولود کی طرح گناہوں سے پاکی کا ذریعہ بھی ہے۔حج استطاعت کے باوجود نہ کیا جائے تو ایمان خطرہ میں،یہاں تک کہ حضرت علی جیسے جلیل القدر صحابی کے نزدیک اس کے یہودی، عیسائی ہوکر مرنے میں کوئی تعجب نہیں اورحضرت عمر کے نزدیک اس کا اسلام ہی مشکوک، اور استطاعت کے بعدبلا عذر تاخیر موجب خسارہ اور ایسا کرنے پرنبی اکرمؐ کی تنبیہ بھی کہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرنی چایئےکیوں کہ معلوم نہیں آگے صورت حال کیا رخ اختیار کرے۔
حج ایک خاص اور منفرد عبادت ہے لیکن اس میں اسلام کی اصل بنیاد "توحید” کی طرف خصوصی توجہ اور شرک سے اجتناب کی باربار تلقین کی جاتی ہے، لہذا "لبیک اللھم لبیک” میں اللہ کے سامنے حاضری، دیگر تمام طاقتوں کا انکار اور ہر طرح کی نعمتوں اور تعریف اللہ کے ساتھ خاص کرنے والے کلمات کو حج و عمرہ کا خاص ذکر اور دعا بنایا گیا۔ حج کے سب سے اہم دن یوم عرفہ کی سب سے افضل دعا ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئ قدیر” کے ذریعہ عقیدہ توحید کی پاسداری کا عہد لیا گیاجو کہ شرک و اس کے تمام مظاہر سے دوری کااعلان ہے ، حج کے موقع پر طواف کے بعد اور دیگر بعض نمازوں میں "سورہ الکافرون” اور "سورہ اخلاص” کے ذریعے اللہ پر ایمان کا بار بار صحیح تصور ، توحید پر ثابت قدمی اور شرک سے براءت کے اعلان کا مطالبہ کیا گیا۔
حج ایک عظیم عبادت ہی نہیں بلکہ ایک دعوتی مشن بھی ہےاوراس میں بہت سے واضح پیغام بھی ہیں۔ دنیا کہ تمام حاجیوں کا ایک اللہ کی رضا اور اخلاص کی خاطر، ایک رسول کی اطاعت کرتے ہوئے،ایک ہی وقت میں، ایک ہی لباس (احرام) میں، ایک ہی کلمہ (تلبیہ) پڑھتے ہوئے،متعینہ وقت پر ایک ہی جگہ جمع ہونا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ ایک ساتھ آنا جانا، آپسی اتحادو اتفاق اور مساوات و برابری کا عملی مظاہرہ ہے تو ساتھ ہی رنگ و نسل، زبان و لباس،زمان و مکان،عرف و حیثیت غرض تقسیم و تفریق اور انتشار وافتراق کی ساری بنیادوں کو زمیں بوس کرنےاور اللہ کے قرب اور حقیقی سربلندی کے لئے صرف تقوی اور للہیت کو پیمانہ اور معیارقرار دینے کا اعلان بھی۔
حج میں میقات کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک مکانی یعنی وہ میقات جہاں سے احرام باندھ کر عمرہ یا حج کی نیت کی جاتی ہے اور دوسری قسم میقات زمانی یعنی حج کا زمانہاور عہ ہے اشہر حج شوال ذوقعدہ اورذوالحجہ ۔ لیکن حج کے دیگر تمام مناسک واعمال کے لئے بھی الگ الگ اوقات متعین ہیں جس میں تقدیم و تاخیرسےحج متأثر ہونے کا خدشہ رہتا ہےاور اس طرح دیگر تمام اہم عبادات نماز، روزہ اور زکاۃ میں اوقات کی پابندی اور پھر حج کے تقریبا تمام مناسک واعمال میں بھی اس کے خاص لحاظ کے ذریعہ یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ زندگی میں اوقات کا خاص لحاظ اور اس کی پابندی ضروری ہےکیونکہ یہ وہ نعمت ہے جس پر زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کا انحصار ہے۔
طواف کے بغیر حج و عمرہ کاتصور ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ خانہ کعبہ کے حقوق میں حج و عمرہ ،کعبہ کے اردگرد طواف اور اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا شامل ہے، گویا طواف ایک الگ عبادت بھی ہے اور حج وعمرہ کا ایک اہم جز بھی اور اس طرح یہ پیغام دیا گیا کہ اسلام میں اللہ ، نبی اکرمؐ اور قرآن کےساتھ خانہ کعبہ کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہےجس کی تعمیر روئے زمیں پرسب سے پہلے صرف اللہ کی عبادت کی خاطر ہوئی تھی، لہذا توحید کے اس مرکز ( جو کہ نبی اکرم ؐ کی بعثت اور پیدائش کی جگہ بھی ہے) اوراس کے مشن سے مسلمانوں کو کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔اور اسی وجہ سے حج کی ابتدا طواف قدوم سے اور اس کی تکمیل طواف وداع سے ہوتی ہے۔
رمی جمرات سے مراد منی میں واقع شیطان کی علامت کے طور پر بنائے گئے تین ستونوں کی رمی کرنا ہے،یہ وہ عمل ہےجسے حاجی کو تین دنوں کرنا ہوتا ہے اور غالبا اسی عمل کی وجہ سے منی میں مبیت کاحکم بھی دیا گیا،اور جس کے ذریعے بندہ مومن یہ پیغام دیتا ہے کہ شیطان راستے میں آکر ہمیں اللہ کی اطاعت سے نہیں روک سکتا، ہم اس کی بات ماننے کے بجائے اسے دھتکار دیں گے اور کوئی بھی چیز یا کوئی بھی طاقت ایک مسلمان کو اللہ کی اطاعت سے نہیںروک سکتی۔
حج جہاں بے شمار امتیازات، مختلف فضیلتوں اور بے حد و حساب اجر و ثواب کا ذریعہ ہے، وہیں اللہ کی جانب سےدی گئی رعایتوں کی بھی یاد دلاتی ہے کہ اس نےحج تمام لوگوں کے بجائے صرف ان پر فرض کیا جو اس کی ادائیگی کی استطاعت رکھتے ہیں اور ان پر بھی زندگی میں صرف ایک بار فرض کیا تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ یہ دین حسب حیثیت لوگوں کو مختلف چیزوں کا مکلف بناتا ہے اورکسی کو بھی ایسی چیزوں کا پابند نہیں کرتا جو ان کے لئے دشوار ہو، اور اسی وجہ سےجوحج کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لئے بھی ان دنوں ثواب کے بے شمار مواقع عطا فرمائےلہذاذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو سب سے افضل بناکر ان میں تمام نیک اعمال کو اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور محبوب قرار دیا ۔یوم عرفہ کے روزہ کو دو سالون گزرے اور آنے والے سال کی گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنا دیا گیا اور قربانی کی مشروعیت کے ذریعہ اگر بلند مقاصد کے حصول کےلئے قربانی کا جذبہ پیدا کیا گیا تو جانوروں کی قربانی کے ذریعہ اجرو ثواب کا ایک اور موقع فراہم کیا گیا۔
تبصرے بند ہیں۔