حضرت ابوبکر صدیقؓ : حیات اور کارنامے
محمد ریحان ورنگلی
(متعلم ادارہ اشرف العلوم حیدر آباد)
آپ کا نام عبد اللہ ہے مرہ پر آپ کا نسب آپﷺ سے ملتا ہے اور باعتبار آبا ایک ہی درجہ میں ہے کیونکہ دونوں میں چھ چھ پشتوں کا فاصلہ ہے آپ کی والدہ کا نام سلمی بن ضخر بن کعب بن سعد ہے آپ کے والد ابوقحافہ کا نام عثمان ہے آپ کو زمانہ جاہلیت میں عبد الکعبہ کہا جاتا تھا آپ ﷺ نے آپ کا نام عبد اللہ رکھا آپ کا نام عتیق بھی تھا مگر علامہ جلال الدین سیوطیؒ تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ عتیق آپ کا نام نہیں بلکہ آپ کا لقب ہے بعض نے کہا کہ حسن و جمال کی وجہ سے آپ کا نام عتیق مشہور ہوا بعض کا قول ہے کہ آپ کے نسب میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو عیب سمجھی جاسکے پس سلسلہ نسب کے بے عیب ہونے کی وجہ سے آپ کا نام عتیق مشہور ہوا ۔
تمام امت محمدیہ اس بات پر متفق ہے کہ آپ کا لقب صدیق ہے کیونکہ آپ نے بے خوف ہوکر محمدﷺ کی بلا تامل تصدیق کئی اور معراج کے موقعہ پر کفار کے مقابلہ میں ثابت قدمی دکھائی اور آپﷺ کے تمام اقوال کی تصدیق کی آپؓ آپﷺ سے دو سال دو مہینے چھوٹے تھے لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ آپؓ آپﷺ سے بڑھے تھے آپؓ مکہ میں پیدا ہوۓ اور مکہ ہی میں پرورش پائی اور تجارت کی غرض سے باہر سفر میں جاتے تھے آپﷺ کے ساتھ آپؓ نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی اور مدینہ میں ہی داعئ اجل کو لبیک کہا ۔(تاریخ اسلام=جلد اول=ص=251)
حالات قبل از اسلام
آپؓ اشراف قریش میں سے تھے بڑی عزت اور وجاہت رکھتے تھے مکہ کے لوگ آپ کو اس قدر مانتے تھے کہ تاوان اور مقدمات کے فیصلے آپ ہی کے متعلق تھےاگرکسی کی ضمانت لیتے تو آپ کی ضمانت قابل اعتبار سمجھی جاتی تھی سب آپ سے محبت کرتے تھے اہل عرب کے نسب کے بارے میں آپ کو بہت علم تھا فن شاعری میں بہت کمال رکھتے تھے ،مگر بعد قبولِ اسلام شعر کہنا چھوڑ دیا آپ نے شراب کبھی نہیں پی اور نہ کبھی بت پرستی کی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ آپﷺ سے بچپن سے ہی محبت کرتے تھے(خلفاء راشدین ص=20)
حالات بعدِ اسلام و قبلِ ہجرت
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپﷺ پر سب سے پہلے ایمان لایا ہجرت سے پہلے کا دور ایسا پُر خطر تھا کہ اسلام کا اظہار کرنا مشکل تھا تو دوسروں کو اسلام کی دعوت دینا ایسا تھا جیسا کہ اژدھے کے منہ میں ہاتھ دینا ایسے دور میں دوسروں کو مسلمان بنانا آپؓ ہی کی ہمت تھی چنانچہ آپ کی کوشش سے اشراف قریش میں سے ایک جماعت مشرف بہ اسلام ہوئی جن کے نام یہ ہیں: حضرت طلحہ،حضرت عثمان،حضرت زبیر،حضرت سعد بن وقاص،حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم،ان حضرات کے ایمان لانے سے کفر کی تیز چھری تند ہوگئحضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ غزوہ کے موقعہ پر آپﷺ نے کچھ مال راہ خدا میں خرچ کرنے کا حکم فرمایااس وقت حضرت عمرؓ کے دل میں خیال آیا کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے آگے بڑھ جاؤں گا چنانچہ میں کچھ مال لایا آپﷺ نے پوچھا عمر اپنے اہل و عیال کیلے کس قدر چھوڑ آۓ ہو تو عمرؓ نے کہا کہ آدھا )آدھا مال لیکرآیا ہوں اور آدھا چھوڑ آیا ہوں)پہر ابوبکرؓ اپنا مال لیکر آۓ آپﷺ نے ابوبکر سے پوچھا ابوبکر اپنے اہل و عیال کیلے کس قدر چھوڑا ؟ تو ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے اپنے اہل و عیال کیلے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے )کل مال لیکر آیا ہوں ) اس وقت حضرت عمرؓ نے بےساختہ کہا کہ میں حضرت ابوبکر سے کبھی سبقتنہیں کرسکتا۔
سفرِ ہجرت
جب کامل تیرہ برس تک کفار کے ظلم و ستم کا سلسلہ چلتا رہا آپﷺ اور آپ کے صحابہ امتحان خداوندی میں کامل ہوچکے تھے تو وحی الہی کےذریعہ آپ کو حکم ملا کہ مکہ سے ہجرت کرکےمدینہ چلا جاۓ خدا اور خدا کے رسول ﷺ نے اس سفر ہجرت میں تمام جماعت صحابة میں سے صرف حضرت ابوبکرؓ کو ہی منتخب فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ آپﷺ کے ساتھ اس سفر ہجرت میں شامل تھے اور رفیق سفر بنے اور حضرت ابوبکر نے قدم قدم پر ایسی جانی و مالی خدمات انجام دیں کہ عشق و محبت کی داستانوں میں بھی کوئی واقعہ اس سے مافوق نہیں مل سکتا۔
ذرا اس سفر ہجرت پر اجمالی نظر تو ڈالو تو وہ کفار کا آپﷺ کے قتل کیلے جمع ہونا اور آپﷺ کا وہاں سے نکل کر حضرت ابوبکرؓ کے گھر جانا اور ان کو سفر ہجرت کی خوشخبری دینا اور حضرت ابوبکرؓ کا فورا تیار ہوجانا اور اپنیاونٹنیوں کو لے آنا جو اس سفر ہجرت کیلے چار ماہ قبل سے پالی جارہی تھی وہ آپﷺ کا پیدل چلنے کی وجہ سے زخمی ہوجانا اور حضرت ابوبکر آپﷺ کو اپنے شانوں پر اٹھانا اور عرض کرنا کہ یا رسول اللہﷺ : آپ ذرا باہر انتظار کیجے میں اندر جاکر صفائ کردوں پہر حضرت ابوبکر کا اپنے چادر کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے سوراخوں کو بند کرنا اور ایک سوراخ جوباقی رہ گیا تھا اس کو اپنے پاؤں سے بند کرنا پہر سانپ کا کاٹنا اور آپﷺ کے لعاب دہن سے شفا پانا وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے کا تین روز برابر شب میں غار کو آنا اور آپ کے ساتھ آرام کرنا اور صبح سویرے مکہ چلا جانا وہ مکہ کے لوگوں کی خبریں پہنچانا اور حضرت ابوبکر کے غلام عامر بن فہیرہ یا ان کی صاحبزادی اسماء بنت ابوبکر کا غار میں کھانا پہنچانا ادھر کفار مکہ کا اعلان کرنا کہ جو بھی حضرت ابوبکر کو یا آپﷺ کو گرفتار کرکے لاۓ گا اس کو سو اونٹ انعام میں دۓ جائیں گیں پہر سو اونٹ کی لالچ میں کفار مکہ کا آپﷺ کی تلاش میں نکلنا کچھ لوگوں کا غار کے منہ تک پہنچ جانا اور حضرت ابوبکر کا ان کو دیکھ کر رنجیدہ ہونا اور آپ ﷺ کا ان کو لاتحزن ان اللہ معنا کے ذریعہ تسلی دینا پہر تین دن کے بعد غار سے نکل کر مدینہ کی جانب چلا جانا اور حضرت ابوبکر کا چاروں طرف نظر دوڑانا تاکہ کوئی آۓ تو معلوم ہوجاۓ اتنے میں سراقہ کا گرفتاری کی غرض سے آنا اور آپﷺ کی دعا کی برکت سے سراقہ کا مع اپنے گھوڑے کے زانو تک زمین میں دھنس جانا اور آپﷺ سے پناہ مانگ کر زمین کی گرفت سے رہائی پانا ان سارے واقعات میں حضرت ابوبکر صدیقؓ تنے تنہا تھے۔
چناچہ صحابہ کرام میں بھی حضرت ابوبکرؓ کی اس بے نظیر جان نثاری کا چرچا بہت تھا لوگ حضرت ابوبکر سے اس سفر کے حالات پوچھتے اور خود ان سے سننا چاہتے حضرت عمرؓ اپنے عہد خلافت میں کہا کرتے تھے کہ حضرت ابوبکر شب غار اور قتال مرتدین کا کارنامہ مجھے دیدیں اور میری ساری عمر کے تمام کارنامہ لے لیں تو میں ہی فائدہ میں رہوں گا۔
حالات بعد ہجرت
ہجرت کے بعد مکہ والوں کی طرف سے آنے والی مصیبتیں تو ختم ہوگئی تھی لیکن مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو دوسری قسم کی خدمات سپرد کئی گیں اور جان بازی و جان نثاری کے امتحانات دوسرے طریقہ سے لۓ جانے لگے اور مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گیں چنانچہ آپﷺ کی زندگی میں انیس 19 غزوات پیش آۓ جن میں سب سے پہلا غزوہ بدر ہے اور سب سے آخر غزوہ تبوک ہے ان غزوات میں حضرت ابوبکرؓ کی جانب سے جو کارنامے پیش آۓ ہیں چند نمونہ کے طور پر پیش کۓ جاتے ہیں۔
غزوہ بدرمیں
17 رمضان المبارک کوہونے والےاسلام کے اس پہلے غزوہ میں رسول اللہﷺ کیلے عریش (چادرٓ) تان کر ایک سائبان بنادیا گیا حضرت ابوبکر اس عریش میں آپ کے ساتھ رہتے تھے اور رات کو ہاتھ میں تلوار لیکر عریش کی نگہبانی کرتے تھے جس صبح کو لڑائی ہونے والی تھی اس کی اخیر شب میں آپﷺ نے بڑی بےتابانہ دعا مانگنا شروع کیا کہ خداونداہ اپنا وعدہ پورا کر اگر یہ تیرے فرمانبردار بندے شکست کھا جائیں گے تو پہر روۓ زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئ باقی نہیں ہوگا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنے حبیب کی بیقراری دیکھی نہ گئی حضرت صدیقؓ اندر آۓ اور کہا یا رسول اللہ: بس کیجے آپ کی اتنی دعا کافی ہے حضرت صدیقؓ کے کہتے ہی آپﷺنے سر اٹھایا تو جبرئیل وحی لیکر آۓ اور کہا سیھزم الجمع ویولون الدبر۔
حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی فراست ایمانی تو دیکھو کہ جبرئیل وحی لیکر چلے اور ان کے قلب مبارک پر انعکاس ہوگیا اور وہ کہہ اٹھے یا رسول اللہﷺ بس اتنی دعا کافی ہے۔
اس غزوہ میں لشکر کا میمنہ حضرت ابوبکر کے ماتحتی میں تھا حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبد الرحمن (جو ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہوۓ تھے) میدان جنگ میں بڑھے تو حضرت صدیقؓ تلوار کھینچ کر اپنے لخت جگر کو قتل کرنے کیلے گے لیکن وہ تلوار کی زد میں آنے سے بچ کر نکل گے ۔
بدر کی لڑائ میں کفار قید ہوکر آۓ تو حضرت صدیقؓ نے ان کے قتل کی راۓ سے اختلاف کیا اور فدیہ لیکر چھوڑ دینے کی راۓ دی آپﷺ نے ان کی راۓ کو پسند کیا اور ان کو حضرت عیسیؑ سے تشبیہ دی اگرچہ نتیجہ میں حضرت عمر فاروقؓ کی فضیلت اس معاملہ میں غالب رہی۔
غزوہ خندق و خیبر
غزوہ خندق میں خندق کے ایک جانب کی حفاظت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سپرد تھی اور اس طرف سے کوئی کافر عبور نہیں کرپایا۔غزوہ خیبر میں ایک روز حضرت ابوبکر صدیقؓ سردار لشکر بناکر بعض علاقوں کی فتح کیلے بھیجے گئیں اگرچہ اس روز فتح نہیں ہوئی لیکن اس روز کی لڑائی نے کافروں کا غرور ایک حد تک توڑ ڈالا بالآخر حضرت علیؓ کے ہاتھ فتح ہوئی۔
غزوہ تبوک
غزوہ تبوک میں لشکر کا جائزہ لینا اور لشکر کی امامت کرنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ہی کام تھا اور اسی غزوہ میں وہ واقعہ پیش آیا کہ جس میں آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکر و عمرؓ کو مال جمع کرنے کیلے حکم دیا تھا اور حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر سے سبقت لےجانے کا ارادہ کیا تھا اور حضرت ابوبکرؓ نے غزوہ کیلے سارا مال و متاع پیش کردیا تھا جبکہ حضرت عمرؓ نے آدھا پیش کیا تھا ۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت اور بابرکت کارنامے
رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کا مجمع جمع ہوا تاکہ خلیفہ کا تقرر کرے وہ چاہتے تھے کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو لہذا حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے نظم خلافت کو درست کرنے کیلے آپﷺ کے دفن پر مقدم فرمایا اور یہی ہونا بھی چاہے تھا چنانچہ سب کا اتفاق حضرت ابوبکر صدیقؓ پر ہوگیا اور موجودہ لوگوں نے ان کے دست حق پرست پر بیعت کی بیعت کی ابتداء انصار سے ہوئی پہر دوسرے دن عام بیعت ہوئی اور تمام انصار و مہاجرین نے آپ کو خلیفہ رسول اللہﷺ تسلیم کیا۔
اگرچہ آپ کا زمانۂ خلافت بہت مختصر تھا اور ایسے نازک وقت میں آپ خلیفہ ہوۓ کہ اگر فرشتہ بھی ہوتا تو کچھ نہ کرسکتا تھا مگر پہر بھی آپ جو کارنامےانجام دۓ امن و امان کے زمانہ میں بھی اس سے بڑھ کر نہ کرسکتے تھے ۔
سب سے پہلا کام اور اہم کام رسول اللہﷺ کی نماز جنازہ اور تدفین کا تھا جس کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بحسن خوبی انجام دیا۔
صحابہ کرام پر اس وقت قیامت کبری یعنی رسول اللہﷺ کی وفات کا جو اثر تھا اس نے ان کے حوش و حواس اڑا دۓ تھے کوئی وفات کا منکر تھا کسی کے منہ پر مہر خاموشی لگ گئی تھی اور کوئی بیتاب تھا جیسا کہ روایات میں مذکور ہے حضرت صدیقؓ نے سب سے پہلے یہ کیا کہ حجرہ مقدسہ میں تشریف لے گۓ اور آپﷺ کے رخ انور سے چادر ہٹاکر جبین مبارک کو بوسہ دیا اور سوزجگر نے یہ کلمات ادا کے وانبیاہ واخلیلاہ واصفیاہ بس یہ کہہ کر باہر آگۓ اور ایک خطبہ دیا جس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کیلے آب حیات تھا اس خطبہ میں آیات قرآنی کے حوالے تھے اور یہ بھی حضرت ابوبکر نے بتایا کہ قرآن میں آپﷺ کی وفات کی خبر موجود ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ آپﷺ کی عبادت کرتے تھے ان کو معلوم ہونا چاہۓ کہ ان کے خدا کی وفات ہوگی اور جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ مطمئن رہے کہ ان کا خدا زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اس خطبہ نے سب کو باہوش کردیا۔
قتال مرتدین تجہیز جیش اسامہ
آپﷺ کی وفات کی خبر سن کر عرب کے بعض قبائل مرتد ہوگۓ اور طرح طرح کی بغاوتیں رونما ہوئیں مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوۓ جن میں ایک مسیلمہ کذاب تھا جس نے رسول اللہﷺ کے اخیر وقت میں سر اٹھایا تھا اور ایک خط بھی بھیجا تھا ان ہی مدعیان نبوت میں اسود عنسی بھی تھا اور سجاح نامی ایک عورت بھی تھی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان سب مرتدوں اور مدعیان نبوت کے قتال کیلے حکم قطعی نافذ کیا ادھر ایک یہ بھی امر در پیش تھا کہ آپﷺ نے اپنے آخری وصیت میں کہا کہ اسامہ کے لشکرکو ملک شام کی طرف روانہ کردیا جاۓ حضرت صدیقؓ نے اس لشکر کی روانگی کا حکم دیا تمام صحابہ اس راۓ میں حضرت ابوبکرؓ کے مخالف تھے کہتے تھے کہ ایسے پر آشوب وقت میں جب کہ اندرون ملک میں متعدد قبائل بغاوت کے شعلے بلند کررہے ہیں فی الحال لشکر کو روانہ کرنا مناسب نہیں ہے حتی کہ صحابہ کرام میں قتال کے سب سے زیادہ حامی حضرت عمر و علیؓ ہوسکتے تھے مگر یہ دونوں بھی حالات کی نزاکت سے متاثر ہوۓ اور لڑائی کو مصلحت نہیں سمجھا حضرت عمر نے کہا: یا خلیفہ رسول اللہﷺ یہ وقت سختی کا نہیں ہے اس وقت تالیف سے کام لیجۓ تو حضرت ابوبکرؓ عمرؓ کی اس بات پر غصہ ہوۓ اور کہا اجبار فی الجاھلیة و خوار فی الاسلام (اے عمر تم تو زمانہ جاہلیت میں بڑے تند خو تھے اور اسلام میں آکر نرم ہوگے) سنو: تم الدین وانقطع الوحی اینقص وانا حی (دین کامل ہوچکا ہے وحی بند ہوگئی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میرے جیتے جی دین میں کمی آجاۓ )اللہ اکبر حضرت ابوبکرؓ کو دین,اسلام کی کس قدر غیرت و حمیت تھی حضرت علی سے بھی اسی قسم کی گفتگو حضرت ابوبکر سے ہوئی مگر حضرت ابوبکر نے کسی کی کچھ نہیں سنی اور کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور حکم دیا کہ میری اونٹنی لاؤ میں خود مرتد لوگوں سے لڑنے کیلے جاؤں گا اور فرمایا کہ اسامہ کا لشکر بھی روانہ ہو خدا کی قسم اگر چیل کوے بھی میرے گوشت کو نوچ ڈالیں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کی روانگی کا حکم رسول خداﷺ نے دیا تھا چنانچہ لشکر فی الفور روانہ ہوا اور آپ اونٹنی پر بیٹھ گے اور سب سے پہلے حضرت علی نے آگے بڑھ کر آپ کے اونٹنی کی مہار پکڑی اور فرمایا :یا خلیفہ رسول اللہ ﷺ ہمارا مقصود آپ کے حکم کی مخالفت نہیں ہے جو کچھ ہم نے عرض کیا وہ ہماری راۓ ہیں ورنہ جو حکم آپ دیں گیں ہم اس کی اطاعت کریں گے۔
چنانچہ مرتد لوگوں سے قتال کیلے بھی فوجیں روانہ ہوئی اور جو جو فوج جس طرف بھی جاتی فتح و ظفر کے ساتھ ساتھ ہے تھوڑے ہی دنوں میں ہر طرف سے فتح کی خبریں آنے لگیں اور اسلام میں ارتداد کی مہلک وبا پھیلنے والی تھی وہ ایک دم ہی فنا ہوگئی ایک سال میں ہی مدعیان نبوت کو بھی راہی جہنم کردیا گیا اور حضرتاسامہؓ کا لشکر بھی دشمن کی بڑی بہادر فوج کو تہ و بالا کرکے بڑی فتح یابی کے ساتھ واپس لوٹا نتیجہ کو دیکھ کر سب کی آنکھیں کھل گئیں کہ یہ تو وہی معرکہ تھا جس کی پیشین گوئیاللہ تعالی نےاپنے کلام میی اس انداز سے فرمائی یاایھاالذین آمنو من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلة علی المؤمنین اعزة علی الکافرین یجاھدون فی سبیل اللہ لومائة قائم۔
یہ حضرت ابوبکرؓ اور ان کی افواج تھی حضرت صدیقؓ کے اس کارنامے کی ہر صحابی نے اپنے اپنے طرز بیان میں تعریف و توصیف بیان کی حضرت ابوھریرہ ؓنے کہا قام فی الردة مقام الانبیاء ارتداد کے موقع پرحضرت ابوبکرؓ انیباء کے قائم مقام ہوگے حضرت ابن مسعودؓنےکہا کرِھنا فی الابتداء و حمدناہ علی الانتہاء شروع شروع میں ہم نے اس کو ناپسند کیا اور آخیر میں ہم اس کی تائید کرنے پر مجبور ہوگے(خلفاء راشدین =ص=42)
وفات صدیقی
شروع ماہ جمادی الثانی سنہ ١٣ھ میں حضرت ابوبکرؓ بیمار میں مبتلا ہوۓ پندرہ روز تک بیمار تھے جب آپ کو یقین ہوا کہ میرا آخری وقت ہے تو آپ نے سب سے پہلے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو بلاکر خلافت کے متعلق مشورہ کیا آپؓ نے کہا کہ عمر کی بابت تمہارا کیا خیال ہے تو انھوں کہا کہ عمر کے مزاج میں سخت گیری ہے تو آپؓ نے کہا کہ عمر کی سختی کا سبب صرف یہ ہے کہ میں نرم مزاج ہوں میں نے اندازہ کیا کہ جن معاملات میں میں نرمی کرتا ہوں ان میں حضرت عمرؓ سختی کرتے ہیں اور جن میں میں سختی کرتا ہوں عمر اس میں نرمی اختیار کرتے ہیں میرا خیال ہے کہ خلافت ان کو نرم دل بنادے گی اس کے بعد آپ نے حضرت عثمانؓ کو بلاکر یہی سوال کیا تو انھوں کہا کہ عمر کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم میں کوئ ان کے مرتبہ کوئی نہیں پہنچ سکتا پہر آپ نے حضرت علیؓ کو بلاکر وہی سوال کیا تو انھوں نے وہی جواب دیا جو حضرت عثمان دے چکے تھے پہر آپ نے حضرت طلحہؓ کو بلاکر یہی سوال کیا تو انھوں کہا کہ آپ اللہ کو کیا جواب دو گے تو آپؓ نے کہا میں اللہ کو جواب دوں گا کہ میں نے تیری امت پر تیری مخلوق میں سب سے بہترین شخص کو مقرر کیا ہے یہ سن کر حضرت طلحہؓ خاموش بیٹھ گے آپ نے عثمان غنی کو وصیت نامہ لکھنے کا حکم دیا شدت علالت کی وجہ سے آپ رک رک کر بولتے تھے اور عثمان غنی لکھتے تھے اس وصیت کا مضمون یہ تھا:
یہ وہ عہد ہے۔ جو ابوبکر خلیفہ رسول اللہﷺ نے اس وقت کیا جب ان کا اس دنیا میں آخری وقت اور اول وقت آخرت کا ہے ایسی حالت میں کافر بھی ایمان لے آتا اور فاجر بھی یقین لے آتا میں نے تم لوگوں پر عمر بن الخطاب کو مقرر کیا ہے اور میں نے تم لوگوں کی بھلائی و برتری میں کوئی کوتاہی نہیں کی پس اگر عمرؓ نے عدل و صبر سے کام لیا تو یہ میری ان کے ساتھ واقفیت ہے اور اگر برائی کی تو مجھ کو غیب کا علم نہیں ہے اور میں نے بہتری و بھلائی کا قصد کیا ہے اور ہر شخص کو اپنے نتائج اعمال سے سابقہ پڑتا ہے ۔۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون جنھوں نے ظلم کیا ہے عنقریب دیکھ لیں گے کہ کس پہلو پر پھرے جاتے ہیں (تاریخ اسلام =جلد اول=ص=304)
تبصرے بند ہیں۔