حضرت ابو ایوب انصاریؓ
مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
رحمت کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا سفرِہجرت ختم ہوا اور مدینے میں آمد ہوئی تو جا نثاروں کا جھرمٹ ساتھ تھا۔ سواری جوں جوں آگے بڑھتی جاتی۔
راستے میں انصار انتہائی جوش ومسرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے: یارسول اللہ!آپ ہمارے گھر کو شرفِ نزول بخشیں مگر جانِ عالم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم ہر ایک سے فرماتے: اس کے راستے کو چھوڑ دو!جس جگہ اللہ عز وجل کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔
بالآخر ایک مکان کے سامنے اونٹنی بیٹھ گئی صاحب ِمکان جلدی سے آگے بڑھے اور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کا سامان اتارا اور اٹھا کر اپنے گھر میں لے گئے۔
رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہِ وسلم نے سات ماہ یہیں قیام فرمایایہاں تک کہ مسجدِ نبوی اور اس کے آس پاس کے حجرے تیار ہوئے تو امہات المومنین رضی اللہ تعالی عنہن کے ساتھ ان حجروں میں قیام فرما ہوگئے۔ (طبقاتِ ابنِ سعد، ج1، ص183، سیرت ابن ہشام، ص: 198، 199 )
مدینہ منورہ میں حضور نبیِ کریم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے والے سب سے پہلے خوش نصیب صحابی حضرت سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ آپ کا اصل نام خالد بن زید بن کلیب تھاجبکہ کنیت ابو ایوب تھی۔ قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے تھے۔
سلسلہ نسب یہ ہے، خالدبن زید بن کلیب بن ثعلبہ بن عبدعوف خزرجی، خاندان نجار کو قبائل مدینہ میں خود بھی ممتاز تھا، تاہم اس شرف نے حامل نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وہاں نانہالی قرابت تھی اس کو مدینہ کے اورقبائل سے ممتاز کردیا تھا، ابوایوب اس خاندان کے رئیس تھے۔
حضرت ابوایوب انصاری بھی ان 70منتخب بزرگان مدینہ میں ہیں، جنہوں نے عقبہ کی گھاٹی میں جاکر آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہِ وسلمکے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی تھی۔ حضرت ابوایوب مکہ سے دولت ایمان لیکر پلٹے تو ان کی فیاض طبعی نے گوارا نہ کیا کہ اس نعمت کو صرف اپنی ذات تک محدودرکھیں ؛چنانچہ اپنے اہل وعیال، اعزہ واقربا اوردوست واحباب کو ایمان کی تلقین کی اوراپنی بیوی کو حلقہ توحید میں داخل کیا(طبقات ابن سعد، ج3، ص368، 369)
پانی نیچے نہ گرنے دیا
آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ہر قول و فعل سے پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کے لئے بے پناہ ادب و احترام اور عقیدت و جانثاری کا مظاہرہ کرتے، اسی لئے پہلے پہل آپ نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کے لئے اوپر کی منزل پیش کی مگر تاجدارِ مدینہ صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم نے ملاقاتیوں کی آسانی کا لحاظ فرماتے ہوئے نیچے کی منزل کو پسند فرمایا۔ ایک مرتبہ مکان کے اوپر کی منزل پر پانی کا گھڑا ٹوٹاتوفوراً اپنا لحاف ڈال کر سارا پانی اس میں خشک کرلیا گھر میں موجود اِکلوتا لِحاف اب گیلا ہوچکا تھا(رات بھر سردی میں ٹھٹھرتے رہے )مگریہ گوارا نہ کیا کہ پانی بہہ کر نیچے کی منزل میں چلا جائے اور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کو کچھ تکلیف پہنچے۔ (سیرت ابن ہشام، ص199)
کہیں بے ادبی نہ ہوجائے
ایک رات آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم نیچے کی منزل میں تشریف فرما ہوں اور ہم اوپر۔
یہ خیال آتے ہی آپ اور آپ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالی عنہما کونے میں سِمٹ گئے اور پوری رات یونہی گزاردی۔ صبح ہوتے ہی دربارِ نبوی میں حاضر ہوئے اور گِریہ و زاری کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے: ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ اوپر رہنے کی وجہ سے ہمارے قدموں کی خاک کا کوئی ذرہ جسمِ اطہر پر نہ آجائے (اور ہمارا شمار بے ادبوں میں نہ ہوجائے)
آقائے دو عالم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم نے ان کی محبت اور گِریہ و زاری دیکھی تو اوپرکی منزل پر تشریف لے آئے۔ (دلائل النبو ۃللبیہقی، ج 2، ص501، مسلم، ص 874، حدیث: 5358)
برتن سے برکتیں لیتے
آپ رضی اللہ تعالی عنہ جانِ عالم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کیلئے کھانا بھیجتے اور جب برتن واپس آتے تو پوچھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کی انگلیاں کس جگہ سے مس ہوئیں پھر حصولِ برکت کے لئے انگلیوں کے نشانِ اقدس سے لقمہ اٹھاتے اور کھانا کھاتے۔ (مسند احمد، ج9، ص135، حدیث: 23576)
دعائے نبوی
ایک موقع پر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے رات بھر کاشانہ نبوی پر پہرہ دیا، صبح ہوئی تو دعائے نبوی یوں ملی: اے اللہ!تو ابو ایوب کو اپنے حِفظ وامان میں رکھ جس طرح اس نے میری نگہبانی کرتے ہوئے رات گزاری۔ (سیرت ابن ہشام، ص442)
موئے مبارک کا ادب
ایک مرتبہ حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم صفا و مروہ کی سعِی فرمارہے تھے کہ رِیش مبارک سے ایک بال جدا ہوکر نیچے کی طرف آیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ تیزی سے آگے بڑھے اور بال مبارک زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم نے آپ کودعا دی: اللہ تعالیٰ تم سے ہر ناپسندیدہ بات دور کردے۔(معجم کبیر، ج4، ص172، حدیث:4048)
روضہ رسول پر حاضری
ایک بار آپ رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور روضہ انور پر اپنا چہرہ رکھ دیا۔ حاکم مروان نے دیکھا تو کہا: یہ کیا کررہے ہو؟ فرمایا: میں اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کی خدمت میں آیا ہوں۔ (مسنداحمد، ج9، ص148، حدیث: 23646)
حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلو
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ متقی پرہیز گار، با ہمت وبہادر، صبر و استقلال کے پہاڑ اور جذبہ جہاد سے لبریز تھے۔
چنانچہ 2ہجری میں غزوات کا سلسلہ شروع ہوا توہر غزوہ میں شرکت کی اور ایک پرجوش مجاہد کی حیثیت سے آخری دم تک ہر سال جہاد میں حصہ لیتے رہے، حضرتِ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ خوارِج کے خلاف نہروان کی مشہور جنگ میں مقدم الجیش (فوج کے آگے چلنے والے دستے) کے سالار کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ (الاستیعاب، ج4، ص169)
50 یا 51 ہجری میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لشکر قسطنطنیہ کی تسخیر کے لئے روانہ کیا توآپ ایک عام مجاہد کی حیثیت سے شریک ہوگئے۔ (الاستیعاب، ج2، ص10)
حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے دِنوں میں آپ مسجدِ نبوی میں اِمامت فرماتے رہے۔ (التمہید لابن عبد البر، ج4، ص410، تحت الحدیث: ج1، ص232)
حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے ابتدائی دورِ خلافت میں مدینے کے گورنر رہے۔ (الاستیعاب، ج1، ص244)
وصالِ باکمال
آخِری ایام میں جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ سخت بیمار ہوگئے تو مجاہدین ِ اسلام سے فرمایا: مجھے میدانِ جنگ میں لے جانا اوراپنی صفوں میں لٹائے رکھنا، جب میرا انتقال ہوجائے تو میری نعش کو قلعہ کی دیوار کے قریب دفن کردینا، چنانچہ 51ہجری میں دورانِ جہاد آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے قریب دفن کردیا گیا۔ ابتدا میں اندیشہ تھا کہ شاید نصرانی قبرِ مبارک کو کھود ڈالیں مگر ان پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ مزارِ اقدس کو ہاتھ بھی نہ لگا سکے اور یقینا یہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم کی دعا کا اثر تھا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ زندگی بھر مصائب و آلام سے محفوظ رہے۔ اور بعدِ وفات بھی صدیوں تک نصاری آپ کی قبرِ مبارک کی حفاظت اور نگرانی کرتے رہے حتی کہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں نے فتح کا جھنڈا گاڑدیا۔
آج بھی ترکی حکومت کے زیرِ نگرانی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا مزارِ اقدس اسی آن بان اور شان کے ساتھ آنے والوں کے دلوں میں سرور اور آنکھوں میں ٹھنڈک کا ساماں لئے ہوئے ہے۔ (کراماتِ صحابہ، ص182)
تبصرے بند ہیں۔