حیف ہے صبح کا بادل ہی جو کالا نکلا
ادریس آزاد
حیف ہے صبح کا بادل ہی جو کالا نکلا
چادرِ شب میں لپٹ کریہ سویرا نکلا
دہر میں جس کا شَرر آگ سے آگے ہے کہیں
کیسی مٹی ہے یہ جس سے ترا بندہ نکلا
دیکھ تو کیسے چھلک کر تری جانب لپکا
تیرے ہونٹوں کا تو یہ جام بھی پیاسا نکلا
اِک حسیں نے مری تقدیر بدل ڈالی ہے
جس کو میں چاند سمجھتا تھا ستارہ نکلا
تُو نے دیکھا ہی نہیں ،ظلم کیا ہے مجھ پر
دِل سے ایمان ویقیں سارے کا سارا نکلا
وہ عمارت سی گِری تھی جو مرے سینے میں
اُس کی بنیاد سے، کہتے ہیں ، دفینہ نکلا
ایسا کیا تُو نے کیا تھا کہ تری محفل سے
مرگیا مرگیا، ہرشخص یہ کہتا نکلا
عشق پائندہ ، تُو رخشندہ ، وفا زندہ باد!
آپ کو دیکھ کے بے ساختہ نعرہ نکلا
دیکھ تو! رنگ بھی تصویر سے بچھڑے ہوئے ہیں
اور تم سے بھی تو اپنا یہی رشتہ نکلا
تبصرے بند ہیں۔