مایا تہذیب: عروج و زوال کی حیرت انگیز داستان!

وقاص چودھری

 جنوبی میکسیکو اور  وسطی امریکا کے گھنے جنگلات میں ہمیں مایا تہذیب کا سراغ ملتا ہے۔ وسطی میکسیکو کے حکم رانوں نے یہاں بہت کروفر سے حکومت کی۔۔ مگر ہر سلطنت ایک عروج پر پہنچ کر زوال پذیر ہوجاتی ہے۔

3000 سال قبل مایا تہذیب کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ یہ سیکڑوں برس تک زندہ رہی۔ اس تہذیب کے فرزندوں نے یہاں کے خطرناک حالات اور موسم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور زراعت، تعمیرات اور آب پاشی کو فروغ دیا۔ سخت محنت کے بعد ایک ایسی تہذیب کا جنم ہوا جو آس پاس کی تہذیبوں سے ہزار درجے بہتر تھی اور وہ مایا تہذیب تھی۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ وہ فنون لطیفہ کے دل دادہ تھے، سفر کا تصور بھی انھوں نے ہی پیش کیا۔ زیرنظر تحقیقی مضمون ایرک وینس نے نیشنل جیوگرافک کے لیے تحریر کیا، جس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

ہولمل شہر کو مایا تہذیب کا اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے، مگر اس قدیم شہر کے بارے میں ابھی تک بہت زیادہ معلومات حاصل نہیں کی جاسکی ہیں۔ ایک عام مبصر کی نظر میں یہ میکسیکو کی سرحد پر گوئٹے مالا کے جنگلات کے درمیان کھڑا ایک پہاڑی سلسلہ ہے۔
پیٹس بیسن کا یہ جنگل لوگوں کی توقع سے کہیں گھنا اور گرم مگر خشک ہے، جہاں اکثر سناٹے میں صرف بندروں کا شوروغل سنائی دیتا ہے۔

لیکن اس کا جب قریب سے مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ پہاڑیاں بڑے بڑے دائروں کی صورت میں ایستادہ ہیں۔ ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مسافر دوران سفر رات کے اندھیرے میں آگ کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھے ہوں اور قریب جاکر معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہاڑیاں شہروں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں اور بعض کے اندر تو سرنگیں بھی موجود ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ پہاڑیاں نہیں بل کہ اہرام ہیں۔ وہ قدیم اہرام جو ہزاروں سال قبل مایا تہذیب کی تباہی کے بعد زوال پذیر و زمین بوس ہونے کے لیے باقی رہ گئے تھے۔

250 سے 900 عیسوی کے درمیان یہاں عالی شان مایا تہذیب سے جڑی فروغ پذیر آبادی تھی۔ وسطی امریکا اور شمالی میکسیکو میں آج نظر آنے والی ثقافت اسی دور میں پنپی اس کے علاوہ وہ سیاسی انقلابات کا بھی دور تھا، جس میں دو متحارب ریاستیں بالادستی کی خواہش میں ایک دوسرے سے الجھی رہیں پھر ایک ریاست نے مایا تہذیب کی تاریخ میں ایک مفصل زمانہ گزارا۔
اور یہ وقت تھا جب ’’کینؤل‘‘ خاندان کے ’’سانپ بادشاہ‘‘ نے حکم رانی کی، کچھ عرصہ قبل کوئی بھی اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اب ماہرین آثار قدیمہ ہولمل اور دیگر شہروں سے ملنے والے شواہد اور باقیات کی مدد سے سانپ بادشاہت کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سن 2000 سے پہلے ہولمل ماہرین کی توجہ کا مرکز کبھی بھی نہیں رہا، کیوں کہ کبھی بھی اتنا مشہور نہیں رہا جتنا اس کا نزدیکی شہر ’’ٹسکال‘‘ تھا۔ پھر ایک اٹلی نژاد گوئٹے مالن فرانسکو ’’ایسٹراڈا‘‘ یہاں آیا۔ اس کے آنے کا مقصد کسی ماورا چیز کی تلاش نہیں تھی بل کہ وہ مایا تہذیب کی جڑوں کی تلاش میں یہاں آیا۔ سب سے پہلی چیز جو اس کو ملی وہ ہولمل کے مرکزی اہرام کے پاس ایک عمارت تھی، جہاں اس مقدس دیوار کے باقیات موجود تھے جس کی زیارت کے لیے دور دراز جگہوں سے زائرین یہاں آتے تھے۔

زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ اس دیوار کو ان لوگوں نے خود ہی مسمار کیا گویا وہ خود اپنی تاریخ چھپانا چاہتے ہوں۔ ایسٹراڈا اپنی کھوج میں سرنگوں سے گزر کر اہرام تک پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ قدیم زمانے کے وسطی امریکن باشندے اپنے اہرام مختلف مراحل میں تیار کرتے تھے اس میں ایک سب سے اونچائی پر ہوتا تھا۔ اور ان تک پہنچنے کے لیے سرنگیں بنائی جاتی تھیں۔

سن 2003 میں ایسٹراڈا نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایسے ہی ایک بڑے اہرام پر تحقیقی کام کیا، یہاں تک پہنچنے کے لیے پہلے سیڑھیوں کو تلاش کیا گیا داخلی راستے میں اوپر کی جانب ایک قدیم مزار ملا جس میں 26 فٹ لمبی حنوط شدہ لاش موجود تھی ایک نازک اور نادر عمل کے ذریعے لاشوں کو ایک خاص پلاسٹر میں محفوظ کیا گیا تھا۔ یہاں ایک بھاری کپڑے میں تین نفوس کو ایک ساتھ دکھایا گیا تھا جس میں ایک ہولمل کا بادشاہ تھا جو ایک بدصورت دیو کے منہ سے نکل رہا تھا اور اس نے دو بڑے پر دار سانپ لپیٹے ہوئے تھے۔

یہ بلاشبہہ یہاں کا ایک موثر شاہکار تھا، جو ایسٹراڈا کو دیکھنے کو ملا۔ پھر ایسٹراڈا کو اس کے نچلے حصے میں پتھروں کی ایک قطار نظر آئی اس نے جھک کر دیکھا تو وہاں اس وقت کے کچھ تراشے بھی موجود تھے۔ یہاں انھیں ایک چونکا دینے والی چیز نظر آئی اور وہ تھا ایک مسکراتا ہوا سانپ۔ اس سانپ کا نام ان تراشوں میں ’’کانوال‘‘ درج تھا۔ ایسٹراڈا کہتے ہیں کہ اب ہم مایا تاریخ کے ایک بہت دل چسپ حصے میں پہنچ چکے تھے۔

یہاں سے اس سانپ (کانوال) کی دریافت ہوئی اور ’’ٹسکال‘‘ میں بادشاہت کے حصول کے لیے ان کی طرف سے ہونے والی کوششوں کا سراغ ملا۔ مایا قوم کا ’’ٹسکال‘‘ کے میدانی علاقوں میں صدیوں تک غلبہ رہا۔ 750 عیسوی میں یہ وسیع و عریض شہر ساٹھ ہزار کی آبادی کا حامل تھا اور اس کی دل کش عمارتیں یہاں آنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی تھیں۔

اپنی کھوج میں ماہرین کو یہاں سے سیکڑوں پتھروں سے بنی ہوئی قبریں بھی ملیں، جن کے کتبوں پر موجود تصاویر اور عبارتوں سے تحقیق دانوں نے ’’ٹسکال‘‘ کی تاریخ کو ازسر نو تعمیر کیا۔ 1960 میں ماہرین کو اس قدیم شہر کے اطراف بکھری باقیات سے مزید تراشے ملے۔ ان میں موجود تمام علامتیں اس مسکراتے ہوئے سانپ کے بادشاہ ہونے کا واضح اشارہ کر رہی تھیں۔ 1973 میں ایک اور ماہر آثارقدیمہ ’’جوائس مارکس‘‘ کو کچھ اور تراشے بھی ملے، جن میں اس شہر کی حکم رانی کی علامات اور خطابات درج تھے۔

وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ ان تراشوں کا تعلق بھی ’’ٹسکال‘‘ شہر ہی سے تھا۔ اس سے انھوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ٹسکال شہر کچھ دوسرے نامعلوم حملہ آوروں کا بھی نشانہ بنا ہے؟ اور اگر ایسا تھا تو انھوں نے یہ طاقت کس طرح حاصل کی اور آیا اس بات سے ماہرین واقف بھی ہیں یا نہیں؟ پیٹن کے جنگلات گرم اور خشک ہیں جب کہ برسات میں یہاں راستے ہی مسدود ہوجاتے ہیں زہریلے پودوں اور کیڑوں کی یہاں بھرمار ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگلات منشیات کے اسمگلروں کی گزر گاہ ہیں۔

مارکس نے مہینوں کی کھوج کے بعد ان جنگلات کو تلاش کیا۔ یہاں سے گزر کر انھوں نے کھنڈرات کا دورہ کیا۔ وہاں موجود تراشوں کی تصاویر جمع کیں۔ وہ اپنی تحقیق کے دوران جس جگہ بھی گئیں انھیں ’’مسکراتے ہوئے سانپ‘‘ کی نشانیاں ملتی گئیں خاص طور پر ’’کلا کمل‘‘ میں (جو اب میکسیکو کا جنوب سرحدی علاقہ ہے)۔

جب وہ کلاکمل پہنچیں تو حیران رہ گئیں کہ دو صدی قبل کے اہرام فضا سے ہی صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل علاقہ تھا۔ یہاں ان سانپوں کے متعلق ان کو صرف دو تراشے ملے۔ سانپوں کے اس اسرار کے بارے میں برٹش محقق ’’سائمن مارٹن نے‘‘ حوصلہ افزا کام کیا۔ اس نے کلاکمل اور دوسرے چھوٹے شہروں سے وہ تمام تراشے جمع کیے جو سانپوں کے متعلق تھے۔

ان تراشوں اور تصاویر کے ذریعے اس نے مایا تہذیب میں سانپوں اور ان کی سلطنت کے حصول کے لیے کی جانے والی سیاسی سازشوں اور جنگوں کا سراغ لگایا۔ مارٹن اور دوسرے محقق ’’نکول گریب‘‘ نے اس حوالے سے ایک کتاب شایع کی، جس کا نام “Chronical of the Maya King and Queen” ہے۔ اس میں انھوں نے مایا قوم اور ان کی سلطنت کی مکمل تاریخ بیان کی ہے اور اس تہذیب میں سانپوں کی حکومت کی صدی کو ایک رنگارنگ دور سے تعبیر کیا ہے بقول مصنفین سانپوں کی سلطنت ایک Black Hole کی مانند تھی، جس نے اطراف کے تمام شہروں کو اپنی طرف کھینچ لیا اور ایک نئی سلطنت تخلیق ہوئی۔ اس کے لیے ماہرین کا اغلب گمان یہ ہے کہ یہی مایا سلطنت تھی۔

بہرحال ان سانپ حکم رانوں سے متعلق اب بھی بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مثلاً وہ کیسے رہتے تھے؟ ان کا طرز حکومت کیسا تھا؟ وہ جنگیں کس طرح لڑتے تھے اور سب سے اہم سوال تو یہ کہ کیا ان کا حقیقت سے کوئی تعلق تھا؟ پانچویں صدی کے اختتام پر ’’ٹسکال‘‘ شہر خطے کی سب سے طاقت ور ریاست تصور کی جاتی تھی۔ ماہرین کے نزدیک مغرب کی طرف 650 میل اونچے پہاڑوں کے شہر ’’ٹوتھیکان‘‘ کی مدد سے انھوں نے یہ عظیم الشان اور طاقت ور ریاست بنائی۔ ٹوتھیکان کو اب میکسیکو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عرصۂ دراز تک یہ دو شہر ہی مایا تہذیب کا مرکز مانے جاتے تھے۔ مصوری، تعمیرات، شعرو شاعری، ہتھیارسازی اور شہر کے نقشے، سب اسی دور میں ترتیب دیے گئے مگر چھٹی صدی میں ٹوتھیکان نے ٹسکال سے علیحدگی اختیار کرلی۔

سانپوں کی سلطنت کے بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بانی کہاں سے آئے تھے۔ 635 عیسوی سے قبل ان کی حکم رانی کا کہیں نشان نہیں ملتا۔ کچھ ماہرین اسے 100 سال قبل کا سنہری دور قرار دیتے ہیں، مگر یہ صرف اندازے ہیں۔ اس کے بارے میں پہلا واضح تراشہ جنوبی کلاکمل سے 80 میل کی دوری پر شمالی میکسیکو کے شہر ’’ڈربنچ‘‘ سے ملا، جس نے بہت سے رازوں پر سے پردہ اٹھایا۔ چھٹی صدی میں سانپوں کی سلطنت سے قبل ٹسکال ہی سپرپاور تھا، مگر سانپ بادشاہ نے قبضہ کرکے اپنی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس حوالے سے دو بڑے بادشاہوں کا نام تاریخ میں ملتا ہے۔

۔جن میں ایک ’’پتھریلے ہاتھوں والا چیتا‘‘ تھا جس نے مایا کے میدانی علاقوں میں کئی دہائیوں تک حکومت کی، پھر ٹسکال نے شمالی ایشیا میں موجود اتحادیوں سے سانپوں کے خلاف گٹھ جوڑ کیا۔ دوسری طرف سانپ حکم راں بھی مقابلے کے لیے تیار ہوگئے اور جب سانپ بادشاہ ٹسکال پر حملے کے لیے روانہ ہونے کو تھے اس وقت ’’سانپوں کے دیوتا‘‘ کی وفات ہوگئی اور اس کی جگہ اس کا بیٹا جس کا نام ’’آسمانی گواہ‘‘ تھا، موسم بہار میں بادشاہ بنادیا گیا۔ یہ کم عمر بادشاہ متاثر کن شخصیت کا حامل تھا۔

محققین نے اس کی باقیات کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ وہ بہت مضبوط قدکاٹھ کا مالک تھا اور کسی جنگ میں اس کی کھوپڑی تباہ ہوگئی تھی۔ ملنے والے تراشوں سے پتا چلتا ہے کہ ’’آسمانی گواہ‘‘ نے ٹسکال کی حکومت 29 اپریل 596 کو ختم کردی تھی۔ انھوں نے بادشاہوں کو برطرف کردیا اور پتھروں کے بنے بلیڈوں سے ان کی زندگی کو بھی قربان کردیا۔ اب محققین کا اندازہ ہے کہ ہولملز نے اس دیوار کو خود ہی تباہ کیا ہوگا جس کا سراغ 1400 سال بعد ایسٹراڈا نے لگایا ہے اور انھوں نے ایسا سانپوں کے بادشاہ سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کیا ہوگا۔ اس طرح اس خطے میں سانپ بادشاہت کا آغاز ہوتا ہے۔

میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق بادشاہ ’’آسمانی گواہ‘‘ اس فتح کے صرف دس سال بعد ہی مر گیا اور اس وقت وہ اپنی عمر کے تیسویں سال میں تھا۔ سن 2004 میں ’’اینرک اور سانڈرا‘‘ نے ایسے مقبرے کا سراغ لگایا، جہاں ہڈی سے بنی ہوئی سوئیاں بھی موجود تھیں ان کے اندازے کے مطابق ان سوئیوں سے حسب روایت بادشاہ ’’آسمانی گواہ‘‘ کو خون دیا جاتا ہوگا۔

ٹسکال شہر میں کل آٹھ سانپ حکم راں گزرے ہیں، جن میں سے ان دو بادشاہوں کی باقیات ماہرین کو ملی ہیں۔ سانپ حکم رانوں نے اگلے مرحلے میں مغرب کی جانب ایک پرتعیش شہر ’’پلانک‘‘ پر اپنا تسلط قائم کیا۔ ٹسکال اور کلاکمل کے برعکس پلانک ایک نفیس اور خوب صورت شہر تھا۔ اس کے دل کش اہرام اور مینار میکسیکو کے خوب صورت پہاڑوں کے دامن میں تھے۔

یہاں بے شمار ندیوں اور آبشاروں کے باعث پانی کی بہتات تھی، حتیٰ کہ بیت الخلاؤں میں بھی پانی کی رسائی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ دس ہزار نفوس پر مشتمل یہ شہر زیادہ بڑا نہ تھا۔ مگر یہاں کی تہذیب اور مغرب کی طرف کھلنے والے تجارتی راستوں نے حملہ آوروں کو یہاں کا رخ کرنے پر اکسایا۔

لہٰذا سانپوں نے بھی اپنے نئے بادشاہ ’’طومار ناگن‘‘ کے ساتھ وہاں کا رخ کیا اور اپنے بڑوں کی طرح اتحادیوں کے ساتھ مل کر پلانک شہر پر حملہ کیا پلانک کی ملکہ نے اپنے شہر کو بچانے کی بھرپور کوشش کی، بالآخر 21 اپریل 599 کو سانپ حکم راں کے سامنے ہتھیار ڈال ڈیے۔ اپنی وسیع خواہشوں کی تکمیل کے لیے جھگڑوں اور حملوں کے اس تسلسل نے سانپوں کے دور حکم رانی کو مایا تہذیب میں ایک خاص مقام دیا۔ میکسیکو یونیورسٹی کے ایک محقق کے مطابق پلانک شہر پر ان کا حملہ بھی وسیع و عریض حکومتی منصوبہ بندی کا ایک حصہ تھا۔ ان حملوں کے پیچھے مادی چیزوں کے حصول کی غرض سے زیادہ وسیع حکمرانی کے خوب صورت تخیل کی تکمیل تھی۔

آسمانی گواہ اور طومار ناگن کے بعد سانپوں کی سلطنت میں جس بادشاہ کا ظہور ہوا وہ ’’یکتوم دوم‘‘ تھا۔ یہ ایک قابل بادشاہ ثابت ہوا، اس نے اپنے پچاس سالہ طویل دور حکومت میں مایا کے میدانی علاقوں میں مضبوط سیاسی نظام ترتیب دیا۔ پھر کمال ہوشیاری سے کبھی رشوت کا سہارا لے کر تو کبھی ڈرا دھمکا کر ’’سائرس‘‘ اور ’’آگسٹس‘‘ کی ریاستوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا۔ اس کا مقصد غالباً سیاسی قیادت کا حصول تھا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے ان مقامات کو اس وقت دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کی جب 1970 کے آغاز میں خوب صورت اور شان دار پتھروں کے بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے کا انکشاف ہوا، ان پتھروں پر پیچیدہ زبان درج تھی اور لٹیرے یہ پتھر کہیں سے چرا کر لا رہے تھے تاکہ انھیں بیرون ملک اسمگل کیا جاسکے۔ اکثر پتھروں پر ’’مسکراتے ہوئے سانپ‘‘ کے وہی نشان اور تراشے کندہ تھے۔ تحقیق دانوں کو اس جگہ کا علم نہ تھا جہاں سے یہ پتھر لائے جا رہے تھے چناں چہ انھوں نے اس جگہ کو ’’Q‘‘ کا نام دے دیا۔

اپریل 2005 میں ماہرین کی ایک ٹیم نقشوں کے ساتھ پیٹن کے جنگلات کی طرف روانہ ہوئی۔ انھوں نے لٹیروں کے استعمال میں آنے والی کھائی سے ہی اپنا راستہ بنایا اور اس کے ذریعے اہرام میں داخل ہوگئے۔ ’’کوانٹو‘‘ کہتے ہیں کہ ’’میں ان پتھروں کو دیکھ کر مارے حیرت کے پیچھے کی طرف کود پڑا۔ کیا ہم واقعی اس چیز تک پہنچ چکے تھے جس کی تلاش میں آئے تھے یہ سب کسی اسکرپٹ کا حصہ لگ رہا تھا۔ مٹی اور پودوں کے درمیان سنگ تراشی کا ایسا خوب صورت نظارہ میں نے آج سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے اسے فوراً یہاں سے لے جانے کی تیاری کرلی اور یقین کرلیا کہ یہی ہماری مطلوبہ جگہ یعنی ’’سائٹ Q‘‘ ہے۔‘‘

مایا سلطنت میں اس جگہ کا نام ’’سیکانیکاٹ‘‘ تھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ کو سانپوں کے دور حکم رانی میں کوئی خاص مقام حاصل تھا۔ یہاں کی ایک سانپ شہزادی تعلیم کے حصول کے لیے کلاکمل گئی اور تین سانپ شہزادیاں یہاں بیاہی گئیں۔ دوسرے علاقوں کے برعکس البتہ یہاں زیادہ جنگوں کے آثار نہیں ملے۔ ’’دھوپ کا کتا‘‘ ، ’’سفید کیڑا‘‘ اور ’’سرخ ترکی‘‘ کے نام سے یہاں بادشاہ گزرے ہیں آس پاس لگے ہوئے پینلز سے معلوم ہوتا ہے کہ الکوحل یہ لوگ مشروب کے طور پر استعمال کرتے تھے اور آلات موسیقی کے طور پر بانسری کا استعمال کیا جاتا تھا۔ کوانٹو کو اس تحقیق میں یہ بھی پتا چلا کہ بادشاہ ’’یکتوم دوم‘‘ نے دارالحکومت کلاکمل منتقل ہونے سے قبل اس جگہ کا دورہ کیا تھا یہاں سے ملنے والی تصاویر میں بادشاہ یکتوم کو مطمئن انداز میں تخت پر بیٹھے دیکھا جاسکتا ہے۔

’’سیکانائٹ‘‘ ہی واحد جگہ نہیں تھی جہاں سانپ غالب تھے بل کہ پوری مایا سلطنت میں جگہ جگہ بادشاہ ’’یکتوم‘‘ کا نام نظر آتا ہے۔ اس کی بیٹی جس کا نام ’’پانی کا پھول‘‘ تھا کی شادی ’’شہزادے واکا‘‘ سے ہوئی جو بعد میں ایک طاقت ور جنگ جو ملکہ بنی اس نے شمال اور جنوب کے علاقوں میں نئے بادشاہ مقرر کیے اور ٹسکال کی نئی سلطنت پر بھی حملہ کردیا وہاں کے بادشاہ نے ملکہ کی وفاداری اختیار کرلی۔ اس نے سلطنت کے جنوب میں اتحادیوں سے تجارتی رابطے رکھنے کی غرض سے نئے راستے قائم کیے۔

دوران تحقیق ماہرین نے یہ عجیب و غریب بات بھی دریافت کی کہ سانپ بادشاہ کے اتحادی بادشاہ اپنی الگ سے نہ کوئی شناخت رکھتے تھے، نہ علامت اور نہ بادشاہوں والے القاب استعمال کیا کرتے تھے۔ خود کو بادشاہوں کی طرح شاندار زینت سے بھی نہ کرتے تھے۔ دریں اثنا کلاکمل کا سانپ بادشاہ اپنے لیے ’’ککومئے‘‘ کا خطاب استعمال کرتا تھا جس کے معانی تھے ’’بادشاہوں کا بادشاہ۔‘‘ سانپ حکم راں ہر وقت اپنی توجہ پرانے دشمن ٹسکال پر مرکوز رکھتے تھے جس نے کئی مرتبہ انتقام لینے کی کوشش بھی کی۔

سن 651 میں بادشاہ یکتوم اور اس کے کٹھ پتلی اتحادیوں نے ٹسکال پر حملہ کردیا۔ تقریباً دو صدی بعد ٹسکال دوبارہ ابھر کر سامنے آئے سانپ حکم راں نے ایک بار پھر اس کو شکست دی اور ان کے بادشاہ کو بھی قتل کردیا۔ ماہرین کے لیے سوال یہ اٹھتا ہے کہ ٹسکال مقتدر سانپ بادشاہوں کو دوبارہ للکارنے کے قابل کیسے بنے۔ شاید مایا سلطنت کو اتحادی بناتے وقت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت تھی اور اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سانپ بادشاہ فتح کے بعد شکست خوردہ بادشاہ کو زندہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔

اس کے لیے ہارے ہوئے بادشاہ کے اتحادی بھی بادشاہ کے لیے رحم کی درخواست کرتے تھے، کیوں کہ ان کے ذہن میں یہ بات ہوتی تھی کہ اگر بادشاہ کو مار دیا گیا تو اگلی باری ان کی ہے اور تیسری وجہ اس کی یہ ہے کہ مایا سلطنت کے بادشاہوں کی فوج زیادہ بڑی نہیں ہوتی تھی۔ وجہ بہرحال جو بھی تھی یہ حقیقت ہے کہ ’’یکتوم دوم‘‘ نے سیاسی کھیل کو بہت مہارت اور ہوشیاری سے کھیلا۔ اس نے جنگ جیتنے کے بعد ٹسکال کو اپنے اتحادی ’’آسمانی ہتھوڑا‘‘ کے حوالے کرنے کے بجائے ٹسکال کے بادشاہ کے ساتھ سربراہی اجلاس منعقد کیا اور اس میں اپنے بیٹے ’’آگ کا پنجا‘‘ کو جانشین کے طور پر متعارف کروایا۔

یکتوم دوم کی وفات 86 سال کی عمر میں ہوئی۔ ’’کلاکمل‘‘ کے عوام اس حوالے سے زیادہ خوش قسمت ثابت نہ ہوئے کہ نئے بادشاہ کا تعلق ایسی نسل سے تھا جو لاڈ پیار میں پروان چڑھی، نرم خوراک کی عادی اور موٹاپے کا شکار تھی، نیا بادشاہ اپنے باپ کی طرح ریاست چلانے کی خواہش تو رکھتا تھا مگر اس کی بادشاہت مختصر وقت میں بھی ناکام ہوگئی۔ اس نے پے درپے کئی جنگوں میں شکست کھائی۔

695 میں ٹسکال پھر ابھر کر سامنے آئے جس سے مقابلے کے لیے سانپ حکم رانوں کی طرف سے پھر فوج بھیجی گئی۔ اس کے بعد کیا ہوا اس بارے میں تاریخ یقینی طور پر کچھ نہیں بتاتی کچھ ماہرین کے نزدیک بادشاہ ’’آسمانی ہتھوڑا‘‘ اپنے اتحادیوں سے بدظن ہوچکا تھا، بعض کے نزدیک بادشاہ ’’آگ کا پنجا‘‘ ریڑھ کی ہڈی کی شدید تکلیف میں مبتلا ہوکر اپنے بیڑوں کی حوصلہ افزائی نہ کرسکا، وجہ کچھ بھی ہو مگر ایک بات حقیقت ہے کہ ستارے ان کے لیے اب روشن نہیں رہے تھے۔ سانپ سلطنت نے یہاں سے اپنا رخ بدل کر ’’چترا‘‘ کی طرف کرلیا، یہاں ان کی حکومت بنی مگر بادشاہ ’’آگ کا پنجا‘‘ وفات پاگیا اور اپنے ساتھ سانپ سلطنت کی وسیع حکم رانی کا خوب صورت خواب بھی لے گیا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے بعد سانپ کبھی طاقت میں نظر نہیں آئے، مگر ان کے چھوڑے ہوئے اثرات نظر آتے رہے۔ 711 عیسوی میں سانپ سلطنت کے سب سے بڑے اتحادی ’’نارنجو‘‘ نے دعویٰ کیا کہ وہ اب تک سانپ بادشاہ کا ہی وفادار ہے یوں ’’سیکنائیٹ‘‘ میں ایک نیا شہزادہ ابھرا لیکن اب سانپ اپنے کاٹنے کی صلاحیت کھوچکے تھے کلاکمل کے پڑوسی شہر اب علی الاعلان ’’چمکادڑ بادشاہت‘‘ کا جشن منا رہے تھے جس سے صاف ظاہر تھا کہ انھوں نے سانپ بادشاہت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔

اگلی صدی میں ٹسکال نے اپنا زیادہ تر وقت سانپ سلطنت کی اتحادی ریاستوں کو سزا دینے میں صرف کیا جیسے ہولمل، نارنجو، کاراکولی اور واکا۔ اب سیکنائیٹ کے لوگوں نے خود کو نفرت اور جنگ سے الگ کرکے محبت کی علامت سے منسوب کیا اور ٹسکال کے شہزادے کو اپنے ہاں نہ صرف مدعو کیا بل کہ 791 میں اپنے ایک نواب گھرانے میں اس کی شادی بھی کروادی۔ اس سب کے باوجود ٹسکال سانپ سلطنت جیسا عروج اور طاقت حاصل نہ کرسکے اور 800 کے درمیانی عرصے میں مایا تہذیب زمین بوس ہوگئی۔ ہوسکتا ہے اس تباہی کی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ، نقص امن اور طویل عرصے تک جاری رہنے والا قحط ہو، جس سے یہ عظیم الشان سلطنت افراتفری کا شکار ہوئی اور بالآخر نام و نشان تک کھو بیٹھی۔

سوال تو یہ ہے کہ اگر سانپ سلطنت ہوتی تو کیا یہ تہذیب بربادی سے بچ جاتی؟ اگر ’’آگ کا پنجا‘‘ بادشاہ 895 میں ٹسکال حکومت کو شکست نہ دیتا تو کیا ہوتا؟ اس بارے میں ماہرآثار قدیمہ ’’ڈیوڈ فرائیڈ‘‘ کہتے ہیں کہ ’’میرا خیال ہے اس صورت میں تباہی سے بچا جاسکتا تھا‘‘ ایک اور محقق کے نزدیک ’’ایک ہی سلطنت کا طویل عرصے تک غالب اور قابض رہنا اس تباہی کی ایک بڑی وجہ بنا جس کے باعث انتشار، افراتفری، جنگوں اور قحط کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

ہوسکتا ہے آئندہ چند سالوں میں ہمیں اپنے تمام سوالوں کا جواب مل جائے۔ آج سے 40 سال قبل جس سلطنت کو خیالی، تصوراتی اور افواہ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ تحقیق نے آج اسے سب سے بڑی اور طاقت ور مایا سلطنت کا نام دیا۔ رفتہ رفتہ جاری رہنے والی تحقیق سے ماہرین اس عالی شان ماضی کی درست تصویر ہمارے سامنے لانے کے قابل ہوسکیں گے۔ سانپ سلطنت کے بارے میں ماہرین کے درمیان اب بھی متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ ’’رومن کیریسو‘‘ کہتے ہیں کہ ان کو اپنے عروج سے کبھی زوال ہوا ہی نہیں۔ بہرحال ماہرین آثار قدیمہ سچ کی تلاش میں ہیں۔ 1966 میں رومن کیریسو نے کلاکمل کی کھدائی میں حصہ لیا تھا اور 300 قبل مسیح کے اہرام دریافت کیے تھے۔ انھوں نے جب اہرام کے اوپری جانب سے پتھر بنائے تو وہاں ایک جسم کی باقیات موجود تھیں وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے ڈھکن اٹھایا تو نیچے بہت ساری ہڈیاں ہم دیکھ سکتے تھے۔

اس کے علاوہ وہاں بہت ساری مٹی بھی تھی، جو اسی وقت کی معلوم ہوتی تھی۔ اس مقبرے کی کھدائی میں نو ماہ کا عرصہ لگا، اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ ایک عظیم بادشاہ کا مقبرہ ہے، اس بادشاہ کی لاش ایک ملائم شال میں لپٹی ہوئی تھی، جس پر بڑے بڑے موتی جَڑے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ایک عورت اور بچے کے جسم کے باقیات بھی وہاں پائے گئے۔

بادشاہ کی لاش مٹی اور دھول سے اٹی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا پھر انھوں نے ایک برش کی مدد سے انتہائی احتیاط کے ساتھ کھوپڑی کی صفائی شروع کی۔ تحقیق کے مطابق یہ آدمی وزن میں بھاری تھا مقبرہ بہت خوب صورتی سے آراستہ تھا وہاں بادشاہ کے قریب ہی چینی مٹی سے بنی ہوئی پلیٹ تھی، جس پر اسی مسکراتے ہوئے سانپ کا سر بنا تھا اور نیچے لکھا تھا “Claw of fire’s plate” یعنی یہ پلیٹ ’’بادشاہ آگ کا پنجا‘‘ کی ہے۔

کھوپڑی کی صفائی کے بعد جو پہلی چیز ماہرین کو نظر آئی وہ ایک آنکھ تھی۔۔۔ جو ماضی سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔

تبصرے بند ہیں۔