دفاع نفس کیوں اور کیسے؟
فیروز احمد
ہندوستان کے فرقہ پرست طاقتوں کی نفرتوں کا بویا ہوا بیج اب تناور درخت بن کرابھرتا جارہاہے کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک اورگجرات سے لیکر اسام تک ہندوستان کے چپہ چپہ پر مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف زعفرانی سیاست کے مالکوں نے گنگا جمنی تہذیب، سماج اور معاشرہ میں اس قدر زہر گھول دیا ہے کہ ملک کا ہر امن پسند شہری خواہ کسی قوم اور کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو کراہ رہا ہے، اور اس کا اثر ملک کے کونے کونے میں محسوس کرنے لگا ہے۔ مسلسل بڑھتی بھیڑ کے ذریعے حملوں کے واقعات سے ڈر اور خوف کے سائے میں جینے پر مجبور ہورہا ہے، اس زہر کو مزیدموثر ثابت کرنے کے لئے حکومت کے کارندے اور سیاسی لوگ برابر بھڑکاو بیانات دے رہے ہیں جس سے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کا خاص کر مدارس کے طلبہ پر اور جو اسلامی شکل وشباہت میں نظر آتے ہیں ان پر خونی حملے کر رہے ہیں اور یہ حملے گروہ کی شکل میں کر رہے ہیں جس سے اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ یاد آجاتا ہے جس میں کفار قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک ادمی اس حملہ میں شریک ہو تاکہ جب دیت یا خوں بہا کا معاملہ آئے تو ہر قبیلہ پر تقسیم ہوجائے اور اس طرح بدلہ نہ لے سکے۔ آج کل مسلمانوں پرجو جان لیوا حملہ ہورہا ہے اس میں بالکل اسی جاہلیت والی ذہنیت اور سوچ کار فرما نظر آتی ہے۔
ابھی حال ہی میں دار العلوم ندوہ العلماء کے تھائی لینڈکے دو طالب علم پر لکھنو کے ڈالی گنج میں قاتلانہ حملہ اور اس طرح کے دوسرے مدرسوں کے طالب علم اور عام مسلمانوں کے اوپر مسلسل جان لیوا حملہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ زعفرانی شدت پسندوں نے اپنے لوگوں کے ذہنوں کو حد سے زیادہ مسموم کردیا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ان کے دماغوں کو بہت ہی زیادہ زہر آلود کر دیاہے جوپہلے گندے نعروں تک محدود تھا اب ان نعروں کو عملی جامہ پہنانے میں لگ گئے ہیں اور جہاں بھی جب موقع ملتا ہے ٹولی بنا کر کسی بھی مسلمان پر جان لیوا حملہ کر دیتا ہے کیوں کہ اب ان کی سرکار ہے اورسمجھتے ہیں کہ کوئی میرا کچھ بگاڑنے والا نہیں ہے، اب معاملہ بہت ہی آگے بڑھ چکا ہے اورحالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پورے ہندوستان کا ہر علاقہ زہر آلود ہوگیا ہے، اس طرح کا واقعہ پہلے شمالی ہندوستان میں سننے میں آیا تھا لیکن اب کبھی اس طرح کی خبریں اندھرا پردیش اور تلنگانہ سے آتی ہیں جہاں ایک موذن صاحب کو قاتلانہ حملہ کر کے مار دیا جاتا ہے اور کبھی ہریانہ کبھی راجستھان اور کبھی مہاراشٹرا سے خبریں ملتی ہیں، گویا کہ ملک میں ہر جگہ مسلمانوں کو کہیں آنے جانے میں ڈراور خوف محسوس ہونے لگا ہے۔
آخر اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ایک مسلمان کی حیثیت سے کس طرح کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے اور وہ کون سی راہ نجات ہے جس پر ہم چل کر کامیاب ہو سکتے ہیں، یقینا ہم کو سب سے پہلے سنت نبوی اور اسلامی تاریخ کے طرف جھانکنا ہوگا اور ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلام نے ہمیں اس جانب کس طرح کی رہنمائی کی ہے۔ ہمارے نبی علیہ الصلاہ والتسلیم نے اور بعد کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسے حالات میں کس طرح کا رویہ اپنایا ہے۔ سب سے پہلے تو اپنی ایمانی طاقت کو مزید مستحکم کرنا ہوگا اور اللہ وحدہ لا شریک کے آگے سرجھکانا ہوگا اور اسی سے مدد ونصرت مانگنی ہوگی کیونکہ وہی دلوں کا مالک ہے جس دل میں اگر نفرت بھر دی گئی ہے تو اللہ ہی اس دل میں محبت ڈالنے والا ہے اور ہر دشمن کے مقابلے کے لئے وہی ذات ذو الجلال قوت وہمت عطا کرسکتا ہے اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں قران کریم میں ہے، ، اور جہاں تک ہوسکے فوج کی جمیعت کے زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے انکے مقابلے کے لئے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور انکے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی، ( سورہ انفال ایت ۶۰)۔
اب یہ معیار تیاری زمانے کے حساب سے بدلتی رہے گی اس زمانے میں لڑائی کیلئے گھوڑوں کی کثرت سے طاقت وقوت کا اندازہ لگایا جاتا تھا اج کل کے دور میں اس طرح کی تیاری کرنی ہوگی جس سے دشمنوں کے دل میں ہماری ہیبت بیٹھی رہے اور بسا اوقات ظاہری الات حرب وضرب کے علاوہ دماغی چال اور ذہنی داو کی ضرورت ہوتی ہے اس سے بھی دشمنوں کے چھکے چھڑائے جا سکتے ہیں۔
ایک دوسری رہنمائی ہمیں صلاہ الخوف سے ملتی ہے جس میں یہ صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے حالات میں ایک جماعت نماز میں مشغول رہیں اور دوسری جماعت اپنے تمام سازوسامان کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار کھڑا رہے۔
موجودہ حالات میں جو احتیاط کرنے کے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم بلا اشد ضرورت اکیلے سفر پر ہرگز نہ نکلیں اور گھر سے باہر نکلنا ضروری ہی ہو تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کچھ لوگوں کو ساتھ میں رکھیں اسی وجہ سے حدیث میں صاف طور پر کہا گیا ہے الراکب شیطان والراکبان شیطانان والثلاثہ رکب ( ترمذی ۱۶۷۴) مسافر جب اکیلا سفر کررہاہو تو وہ ایک شیطان دو سفر کرنے والا ہو تو دو شیطان ہے اور تین سفر کرنے والا مسافر ہے۔ اسی طرح جہاں تک ممکن ہو ہر مسلمان ہر وقت دفاع نفس کے لئے تیار رہے خاص کر مدرسوں کے طالب علموں کو دفاع نفس کے لئے کڑاٹے وغیرہ کی تربیت دی جائے تاکہ موقع آنے پر وہ خود اپنے طور پر دفاع کر سکیں اس تربیت سے جسمانی قوت بھی برقرار رہے گی جیسا کہ اسلام کی نظر میں بھی یہ قوت وطاقت مطلوب ہے۔ المومن القوی خیر و احب الی اللہ من المومن الضعیف (مسلم) طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور محبوب ہے۔
قران کریم نے حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ میں ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا بیان نقل کرتے ہوئے کہا ہے ، ، ایک لڑکی بولی کہ ابا ان کو نوکر رکھ لیجئے کیونکہ بہترین نوکر جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا ہو امانت دار ہو، (القصص ایت ۲۶ ) اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے توانا اور طاقت ور ہونا مومن کے لئے مقصود ہے، یہ قوت ہمیں اسلامی احکامات کو بجالانے میں بھی کام آئے گی اور وقت ضرورت اپنی ذاتی دفاع میں بھی کام آسکتی ہے۔ اللہ ہمیں ہمیشہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔