طلبہ کے تین دشمن

ڈاکٹرعزیز سہیل

یہ صدی سائنس وٹکنالوجی کے ترقی کی صدی ہے۔ اس صدی میں وہی قوم کامیاب ہے جو باشعورہے جواپنے مستقبل کو بہتربنانے اور سنوارنے کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہے اورلائحہ عمل کوقطعیت دیتی ہے اور حکمت عملی کو اختیار کرتی ہے۔ یہ دور مسابقت کا دور ہے۔ زندگی کے ہرشعبہ میں مسابقت کا تصور پایاجاتا ہے لہذا اس دورمیں کوئی بھی کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتا۔ تعلیم موجودہ دورکا کامیاب ترین ہتھیار ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے جس سے کوئی بھی قوم ترقی کے زینے کامیابی کے ساتھ طئے کرپاتی ہے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کرنا اور ان کی صلاحیتوں کوفروغ دینے میں اساتذہ کافی اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ بچوں کی کامیابی میں اساتذہ کا نمایاں کردار ہوتا ہے لہذا اکیسویں صدی کے اساتذہ کوتدریس کے عصری اصولوں سے واقف ہونے‘بچو ں کے نفسیات‘بچوں کے رحجانات ان کی دلچسپیوں سے واقف ہونا لازمی ہے تاکہ بچوں صحیح خطوط پر کی تربیت ہو اور تدریس کا عمل موثر ہو پائے۔ عصر ی تقاضوں اور بچوں کی نفسیات پر مکمل عبور رکھنے اور ان کی شخصیت کی تعمیرکا جذبہ رکھنے والے، خداداد صلاحیتوں کے حامل اردو کے قابل معلم جوعلاقہ دکن حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں اپنی شعور بیداری ‘ مستقبل کی منصوبہ بندی اور شخصیت سازی کی وجہ سے قومی سطح پر شہرت رکھتے ہیں ان کو ارد ود نیا فاروق طاہر کے نام سے جانتی ہے۔ فاروق طاہر کی کتاب ’’طلبہ کے تین دشمن‘‘حالیہ دنوں منظرعام پرآئی ہے۔ اس کتاب کا رسم اجراء 30ڈسمبر2017کوسالارجنگ میوزیم حیدرآباد میں ڈاکٹرمحمداسلم پرویز شیخ الجامعہ مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی کے ہاتھوں انجام پایا۔ اس پروگرام میں علمی دنیا کی معتبر شخصیات جن میں پروفیسر وہاب قیصر اڈویزار، مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی‘ڈاکٹرعابدمعز(کنسلٹنٹ اردومرکز برائے فروغ ‘مانو)‘ ڈاکٹرفاطمہ پروین(سابق صدر شعبہ اردوعثمانیہ یونیورسٹی)‘ ڈاکٹرسیداسلام الدین مجاہد‘ خالدحسین قیصری ودیگر نے مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس پروگرام کی نظامت اسلم فرشوری نے انجام دی تھی۔

   فاروق طاہر اردو کے ایک قابل مقبول کالم نگار اور استاد ہیں ۔ اردومیڈیم کے طلبہ میں شعور بیداری اور تحریک پیدا کرنا ان کی شخصیت کو بہتربنانافاروق طاہر کا اہم مشغلہ رہا ہے۔ طلبہ کی شخصیت کے ارتقاء میں فاروق طاہر کی خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ انہوں نے ریاست تلنگانہ اور آندھراپردیش کے سرکاری نصابی تدریس میں کافی اہم رول انجام دیا ہے۔ روزنامہ منصف حیدرآباد کے تعلیمی سپلمنٹ ’’ نئی منزلیں نئی قدم‘‘میں طلبہ کے مسائل اور شعور بیداری پر مستقل کالم لکھتے ہیں۔

  زیرنظر کتاب ’’طلبہ کے تین دشمن‘‘ کا پیش لفظ خود فاروق طاہر نے رقم کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ طلبہ کے تین دشمن‘‘ کے ذریعہ جہاں طلبہ کومتحرک کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہیں والدین اوراساتذہ کوجدید تعلیمی نفسیات کی روشنی میں تعلیم وتربیت کے زرین اصولوں سے بھی آگاہ کیاگیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعہ اس بات کوبھی اجاگرکرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جدید تعلیمی نفسیات عنوا ن پرجوکچھ اچھے اور مثبت نظریات پیش کئے جارہے ہیں وہ سب اسلامی تعلیمات سے ہی اخذ شدہ ہے۔ بیشک نبی کریمﷺ کا  اسوئہ ہرانسان کے لیے ایک کامل نمونہ ہے‘‘۔

 اس کتاب میں حرف چند کے عنوان سے ڈاکٹرمشتاق احمدپٹیل شعبہ تعلیم مولا نا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کی تحریر کوشامل کیاگیا ہے۔ ڈاکٹرمشتاق احمدپٹیل نے اپنی تقریظ میں مسلمانوں کی تعلیمی ‘معاشی پسماندگی کوپیش کیاہے اوراساتذہ کی ذمہ داریوں کوبیان کیا ہے۔ انہوں نے فاروق طاہر کی اس کتاب سے متعلق رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’طلبہ کے تین دشمن ‘طلبہ‘والدین‘اساتذہ اور ترقی کے خواہش مند ہرفرد کے لیے لکھے گئے ہیں ۔ ایسے مضامین ومشوروں کامجموعہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر یقینا روشن مستقبل کی جانب جادہ پیمائی کی جاسکتی ہے۔ والدین‘ طلبہ اوراساتذہ کی تعلیم وتربیت ‘رہنمائی اور شخصیت سازی پر موصو ف کے انگریزی اوراردومیں تحریر کردہ مقالے اورمضامین آئے دن بین الاقوامی رسائل وجرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ درس وتدریس ‘تعلیم وتربیت ‘ رہنمائی ورہبری اور شخصیت سازی پرمبنی روزنامہ منصف میں ہرہفتہ شائع ہونے والے موصوف کے مضامین کااساتذہ ‘طلبہ‘والدین اورشخصیت سازی سے وابستہ افراد کوبے چینی سے انتظار رہتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر مشتاق احمد پٹیل نے ’طلبہ کے تین دشمن ‘کوایک منفرد اور اہم کتاب قراردیاہے کیونکہ یہ کتاب شخصیت سازی پرلکھی جانے والی دیگرنفسیاتی کتابوں کے رویہ سے ہٹ کرلکھی گئی ہے جوایک منفرد کتاب ہے۔

  اس کتاب میں ایک اورتقریظ ’’حرف ادراک‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹرعابد معز نے رقم کی ہے۔ ڈاکٹرموصوف نے فاروق طاہر کی اور ان کی قلمی دوستی کا تذکرہ کیاہے۔ فاروق طاہر کی تحریروں کی خصوصیت کوبیان کیا ہے۔ انہوں نے سقوط حیدرآباد اورجامعہ عثمانیہ اردو کے ذریعہ تعلیم کاتذکرہ بھی اپنی تقریظ میں کیاہے۔ ڈاکٹرعابدمعز نے ’’عصرحاضر کو اردوزبان سے بے اعتنائی کا دور قراردیاہے‘‘ کیونکہ اس دورمیں تحقیق وتخلیق کا کام اردومیں بہت ہی کم انجام پارہاہے۔ جس کی وجہ سے معیاری ادب بہت کم منظرعام پرآتا ہے۔ ڈاکٹرعابد معز نے اس کتاب سے متعلق اپنی رائے اس طرح دی ہے کہ’’طلبہ کے تین دشمن میں فاروق طاہرنے جہاں تک جدید تعلیمی نفسیات‘نظریات اور رحجانات سے استفادہ کیا ہے وہیں تعمیری واصلاحی تجاویز کی شکل میں ان کی اسلامی فکربھی جلوہ گرنظرآتی ہے۔ تعلیم وتربیت ‘درس وتدریس ‘رہنمائی اور رہبری کے تلخ گوشوں پرفاروق طاہر نے اپنے قلم سے جس طرح روشنی ڈالی ہے اس سے یہ بات متشرح ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ابھی ایسے باکمال اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد موجو د ہیں جوہرگھڑی طلبہ کے بہترمستقبل کے لیے فکرمند رہتے ہیں ‘‘۔ انہوں نے اس کتاب کو نئی نسل کی تعلیم وتربیت کا مہکتا باغ قراردیا ہے۔

  زیر نظر کتاب میں شامل مضامین کی فہرست اس طرح سے ہے۔ طلبہ کے تین دشمن‘ طلبہ خوف کا ہرگزغم نہ کریں ۔ طلبہ کا تنائوپرقابو عظیم۔ ۔ کامیابیوں کا سرچشمہ‘مایوس نہ ہو‘امید کی جلومیں ‘ سستی ایک دلکش دشمن‘ تعمیر حیات اور قوت فیصلہ‘ آرائش زندگی میں تنظیم وتربیت کی اہمیت‘ تساہل چھوڑیے…اب وقت عمل ہے ‘طلبہ…کامیابی کے لئے سونااورجاگنا بھی سیکھے‘ ذہنی تحدیدات…خودی میں ڈوب کرپاجاسراغ زندگی‘ غصہ…ہواگرقابوتوطاقت ورنہ تذلیل کا ساماں ‘ احساس کمتری…کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانہ میں شامل ہیں۔

اس کتاب میں 12مضامین شامل ہیں ۔ کتاب کا پہلا ’’مضمون طلبہ کے تین دشمن‘‘ کے عنوان سے شامل ہے جس میں فاروق طاہر نے طلبہ کے تین دشمنوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ طلبہ یا کسی بھی شخص کا ہمیشہ تین قسم کی کمزوریوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے جنہیں شخصیت کے دشمن کہاجاتا ہے۔ طلبہ کابھی ان تین دشمنوں سے ایام طالب علمی میں ہرگھڑی سامنا ہوتا رہتا ہے۔ طلبہ ان شخصیت دشمن عناصر سے آگاہی حاصل کرلیتے ہیں ‘ ان سے بچائو کی تدابیر اختیارکرلیتے ہیں تب وہ زندگی میں نامرادی ‘مایوسی اور ناکامی سے خود کومحفوظ رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ طلبہ کی شخصیت کوہرپل درج ذیل تین دشمنوں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ (۱)فطری جبلتی دشمن(۲) حاصل کردہ دشمن(۳)دلکش خوش نما دشمن‘‘۔

  فارو ق طاہر نے اس مضمون کے آغاز میں قرآن مجید کی آیات کا ذکرکیاہے۔ انہوں نے اس مضمون میں خود اکتسابی پرزیادہ زور دیا ہے اور طلبہ کواپنی شخصیت میں توازن پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ مضمو ن نفسیاتی پہلوئوں پرمشتمل ہے جس میں خوف‘تنائو‘احساس مایوسی سے بچنے کامشورہ دیاگیاہے۔ یہ مضمون چونکہ کتاب کامرکزی عنوا ن ہے لہذااس میں میعاری مواداوراہم معلوماتی کے ذریعے رہنمائی کی گئی ہے۔

 زیر نظر کتاب میں شامل دیگر مضامین بھی کافی اہمیت کے حامل ہے جن میں قرآن کی آیات کا تذکرہ اور طلبہ کوبیدار کرنے‘ان کی خامیوں سے واقف کروانے اوراس کے حل کی سعی کی گئی ہے۔ فاروق طاہر نے بہت ہی جستجو و سخت محنت سے کتاب کی اشاعت کو یقینی بنایا ہے۔ یہ کتاب بہت ہی معیاری انداز سے شائع کی گئی ہے۔ اس کتاب میں تعلیمی شعورکومکمل طورپرجھنجھوڑ نے کی کوشش کی گئی ہے۔ مستقبل کے منصوبہ اورلائحہ عمل کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف طلبہ کے لئے بلکہ اساتذہ اور عام افراد کے لئے بھی کافی کارآمد اورقیمتی اثاثہ ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے معلم حضرات طلبہ کے مختلف نفسیاتی پہلوئوں سے بخوبی واقف ہوسکتے ہیں اورطلبہ کے مستقبل کوبہتربنانے کے لئے ان کے شعور کوبیدارکرسکتے ہیں ۔ منفرد‘معیاری اور لازوال تصنیف کی اشاعت پر میں صمیم قلب سے فاروق طاہر کو مبارک بادپیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ بچوں کی شخصیت سازی سے متعلق مزید تصانیف جلد ہی منظرعام پرلائیں گے تاکہ مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی دورہوسکے اوراحساس کمتری کے دبائو سے ہماری قوم باہر نکل سکے۔ اس کتاب کی قیمت120روپئے رکھی گئی ہے جوھدی بک ڈپو پرانی حویلی سے خرید ی جاسکتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے فون نمبر9700122826 ربط پیدا کریں۔

تبصرے بند ہیں۔