دل پہ کیا کیا نہ ہو رہا ہے ظلم
افتخار راغبؔ
دل پہ کیا کیا نہ ہو رہا ہے ظلم
دل سے پوچھے کوئی کہ کیا ہے ظلم
…
میں کہ دریاے عشق ہوں مجھ میں
بے سبب بند باندھنا ہے ظلم
…
ایک ہی درد دل کو ہے مطلوب
ایک ہی درد کی دوا ہے ظلم
…
تیری جلوہ گری قیامت ہے
تیرا چھپ چھپ کے دیکھنا ہے ظلم
…
وہ سمجھتے ہیں ظلم اپنا حق
جیسے مظلوم پر روا ہے ظلم
…
دل سے پوچھو کبھی تو ہو معلوم
کیوں تمھیں دوست ماننا ہے ظلم
…
حق نہ ہوگا کبھی ادا اے دوست
تیری چاہت پہ تبصرہ ہے ظلم
…
دل میں بیٹھے ہوں وہ کہ دلّی میں
مشغلہ اہلِ ظلم کا ہے ظلم
…
کاش اتنا بھی وہ سمجھ لیتے
مرنے والے کو مارنا ہے ظلم
…
کون اتنا ہے مہرباں راغبؔ
کون بے وجہ توڑتا ہے ظلم
تبصرے بند ہیں۔