اردو املا کی اصلاح: آغاز کہاں سے ہو گا؟(2)

 صفدر امام قادری

اردواملا کی معیار سازی کی بحث کے دائرۂ کار کو اگرصرف عبدالستار صدیقی، رشید حسن خاں اور گوپی چند نارنگ کے دائرۂ کار میں رہ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو آج کی ضروررتوں کے مطابق نتائج سامنے نہیں آسکتے۔ زبان کا مزاج، ماحول، بولنے اور لکھنے والو ں کی تعلیمی سطح اور کمپوٹر کی ضروریات ایسے بنیادی سوالات قائم کرتے ہیں جن کے بغیر آج کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ آزادی سے پہلے کے مباحث میں عربی، فارسی کی معیار بندی کے مقابلے انگریزی اور ہندی دانی کی دلیلیں بھی قابلِ توجّہ ہیں۔ اسی کے ساتھ تحریر کے اصولوں کو کمپیوٹر کے مطابق کیے جانے کی وکالت بھی آج ایسا امر نہیں جس پر غور و فکر کیے بغیر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ اس اعتبار سے اردو املا کی معیار سازی کے لیے آنکھیں کھلی رہنی چاہئیں۔ ہمیں اسی کے ساتھ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ہندستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اردو کے سلسلے سے جو کوششیں ہوئیں، انھیں ملحوظ رکھیں اور اپنے تجزیے میں ان اصلاحوں پر بھی غور وفکر کرنے کی کوشش کریں۔ اردو کی بین الاقوامی حیثیت کو دیکھتے ہو ئے یہ بات بھی لازم ہے کہ یورپ اور امریکہ یا اشیا اور افریقہ کے جن ممالک میں بھی اردو کا باضابطہ طور پر درس و تدریس یا تصنیف و تالیف کے لیے استعمال ہو رہا ہے، انھیں بھی اپنی توجّہ کا مرکز بنانا چاہیے۔

 املا کے سلسلے سے پرانی بحث میں عربی اور فارسی سے گریز یا رجوع پر خوب خوب توجّہ دی گئی ہے۔ ان مباحث میں دلیل کے طور پر بار بار قدیم دواوین اور لغات کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو گی جو سو برس کے اندر لکھی گئی ہو۔ سوال یہ ہے کہ دنیا پچھلے سو برسوں میں کچھ اتنی بدلی جیسے سب کچھ بدل گیا ہو، کاروبارِ علم اور ذرائع علم کو جیسے پَر لگ گئے ہوں۔ اس لیے بھی ہمارے علمی کاموں کی بنیادیں صرف کلاسیکی کتابوں پر نہیں قائم ہو سکتیں۔ املا کے ماہرین نے اپنی بحثوں میں بالخصوص رشید حسن خاں نے عہدِ نو کے تقاضوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی مگر ان کا ذہن بھی اپنی ہزار ترقی یافتگی کے باوجود کلا سیکی تھااور یہ بھی بات ملحوظ رہے کہ نئی چیزوں کی طرف رغبت کے باوجود وہ اپنے فیصلوں میں اس قدر لچیلے نہیں تھے جتنے کہ آج کے وقت میں ضرورت ہے۔ علمی اعتماد جس کا بجا طور پر انھیں حق پہنچتا تھا مگر اسی سے ایک ضد اور حتمیت کا انداز پیدا ہوا۔ جس سے کہیں کہیں جمہوری ذوق ِ علمی پر حرف بھی آیامگر اس سے وہ خلفشار پیدا نہیں ہو ا جو گوپی چند نارنگ کی مرتّبہ کتاب ’املانامہ‘ کی پہلی اور دوسری اشاعت کے مابین سفارشات میں بغیر کسی اضافی بحث کے فوری طور پر اپنی باتیں الٹ لینے کا رجحان سامنے آیا۔

 اردو املا کی معیار سازی میں بعض رکاوٹیں اداروں کی اجارہ داری یا مطلق العنانی یا بے راہ رویوں سے بھی اُجاگرہوتی ہیں۔ انجمن ترقی اردو کا نظامِ املا پورے طور پر انجمن کی کتابوں پر ہی کبھی نافذ نہیں ہوا۔ قومی اردو کونسل کا پہلا داخلی تضاد یہ ہے کہ اس نے تین کتابیں شایع کیں۔ ’’اردو املا‘‘ [رشید حسن خاں، ۱۹۷۴]، ’’املا نامہ‘‘ [۱۹۷۴ء] اور ’’املانامہ‘‘[۱۹۹۰] مرتبہ گوپی چند نارنگ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قومی اردو کونسل کا کوئی واضح نقطۂ نظر نہیں ہے۔ مختلف اور مخالف نقطۂ نظر رکھنے والے ماہرین کے سامنے سجدہ ریز ہے اور سب کو اپنی اپنی راگنی چھیڑنے کے لیے آزاد چھوڑ رکھنے میں باعافیت ہے۔ NCERT  کی کتابوں میں ’’توتا‘‘ کو ’’ت‘‘سے لکھنے کا رواج ہے مگر ’’ہندستان‘‘ میں ’’و‘‘ کا اضافہ لازمی ہے۔ NCERT   کی تمام کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجیے کہیں اس بات کی وضاحت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ کس نظامِ املا کو تسلیم کرتے ہیں یا خارج، اس پر آپ کو کچھ نہ کچھ کہنا پڑے گا مگر ہر جگہ خاموشی ملتی ہے۔ قومی اردو کونسل نے ایک کام چلائو فہرست الفاظ چند صفحات پر مشتمل اپنے کام کاج کے لیے بنا رکھا ہے مگر اسے پبلک نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ اس میں ایسے خدشات تھے کہ اس کا آزادانہ احتساب کرنے کے لیے لوگ میدان میں اتر آتے اور اس نظامِ املا کے داخلی تضادات پر بحث شروع ہوجاتی۔

  پرانے کاتبوں کی باضابطہ اپنے بزرگوں کے ذریعہ تربیت ہوتی رہتی تھی اور وہ عربی فارسی کے مکاتب سے کچھ سیکھ کر آتے تھے جس کی وجہ سے وہ بعض باتوں کی بنیادی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ کمپیوٹر کے دور میں حقیقت یہی ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اردو زبان، قواعد اور نظامِ املا کے سلسلے سے ایک لفظ بھی جو نہیں جانتا، وہ کمپیوٹر پر بیٹھ کر ہماری کتابیں تیار کرتا ہے۔ اسے کسی نے یہ بتایا نہیں کہ ’’ہمزہ‘‘ کہاں ہو اور ’’ی‘‘ کا محل کہاں ہوگا۔ اسے مصنفین کی ایک ایسی بڑی جماعت مل رہی ہے جس کی بھی حقیقت میں ایسی کوئی تربیت نہیں ہوئی ہے۔ خدائی صلاحیت پر وہ شعر کہہ رہا ہے یا افسانے اور ناول لکھ رہا ہے۔ اسے یہ صلاحیت ہے کہ سراے فانی اور تماشاے اہلِ کرم میں ’’ے‘‘ ساکن ہے مگر اس کی کمپوزنگ کرنے والے کو یہ بات نہیں معلوم جس کی وجہ سے جب غزل شایع ہورہی ہے تو ’’ے‘‘ پر ’’ہمزہ‘‘ لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ حرف متحرک ہوگیا اور شعر وزن سے خارج ہوگیا۔ پروف ریڈر کی بھی ایسی کوئی تربیت نہیں ہے۔ ایڈیٹر کے بارے میں کچھ کہا جائے تو اور پریشانی ہے کیوں کہ آدھے سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جنھیں واقعی عروض و بلاغت سے کچھ لگاو نہیں۔ ایسی حالت میں غلطی عوام تک پہنچ جاتی ہے اور کچھ ایسے رائج ہو جاتی ہے کہ املائی انتشار ہی سکۂ رائج الوقت قرار پاتا ہے۔

 نقاد اور محققین کی جو نئی نسل سامنے آرہی ہے، وہ سب ہماری یونی ورسٹیوں کے تازہ فارغین ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو افسانے اور ناول پر تحقیق کرنے میں زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ فنی اور علمی امور پر بحث اور غوروفکر کا کام ان کی دلچسپی کا حصہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں سے یہ امید بھی مشکل ہے کہ وہ عروض و بلاغت، قواعد، لسانیات اور املا یا تلفظ کے مسائل پر زیادہ توجہ دیں۔ ایسے طلبہ دس فی صد ہیں جن کے دھیان میں یہ مشکل علاقہ اولیت کے لیے سر اٹھاتا ہے۔ دہلی یونی ورسٹی میں گوپی چند نارنگ استاد ہوتے تھے اور رشید حسن خاں بھی وہیں برسرِکار تھے۔ شعبۂ اردو کو کبھی اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ ایک معیاری اسٹائل مینول تیار کردیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا شعبۂ اردو علم و فن کے ماہرین سے ہمیشہ بھرا رہا ہے مگر سو برس میں کسی کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ کم از کم اپنی یونی ورسٹی کی طرف سے ایک اسٹائل مینول اور کم از کم املا کی معیار سازی کے لیے ایک مکمل کتاب جاری کرلیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے شعبہ ہاے اردو بھی اپنے نام وروں کے سہارے اتراتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر اس سلسلے سے انھوں نے بھی کوئی کوشش نہیں کی۔

 ایک زمانے میں مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کی درسی کتابوں میں یہ اعلان ہوتا تھا کہ رشید حسن خاں کا اردو املا بہ طورِ رہ نما آزمایا جارہا ہے۔ باقر مہدی اپنے رسالے ’’اظہار‘‘ میں رشید حسن خاں کے ’’اردو املا‘‘ کی پیروی کا اعلان کرتے تھے مگر ان کی چار دہائیاں نکل گئیں۔ کسی کو یہ توفیق نہ ذاتی طور پر ہو رہی ہے کہ اس انتشار سے نکلیں اور نہ ہی کوئی اجتماعی کوشش سامنے آرہی ہے۔ اس دوران جو ڈکشنریاں تیار ہوئیں، وہ بھی اسی انتشار کا ثبوت ہیں۔ اجتماعی کوشش میں ایک بڑا مسئلہ یہ رہتا ہے کہ اردو اساتذہ میں ایسے ہوس کار بھی موجود ہیں جو اس فن میں مہارت نہیں رکھنے کے باوجودکمیٹی میں داخل ہونے کے لیے کوششیں کرنے لگتے ہیں جس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ املا کے جدید و قدیم نظام کے سمجھنے والے ذاتی طور پر یا ادارہ جاتی طور پر ایک جگہ بیٹھے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کریں۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔