اُمور سیاست میں شوریٰ کی اہمیت

ابوخالد خان

( کریم نگر)

ہمارے ملک کی سماجی و سیاسی صورتحال دن بہ دن خطرے سے دوچار ہے۔ سیکولرازم اورمساوات صرف دکھاوا بن کر رہ گیا ہے ۔ ہندتوا فاشسٹ تنظیمیں، بی جے پی ، این ڈی اے حکومت اور سرکاری مشینری ہمارے ملک کے عوام کے درمیان رائج ترقی پسند جمہوری خیالات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

مسلم سیاست : 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سیاسی مستقبل کی تعمیر کے لیے تمام مواقع فراہم ہیں۔ لیکن اس طرح کے ایک مستقبل کے لیے فرقہ وارانہ جذبات بھڑکاکریا انتخابات کے دوران نئی سیاسی پارٹیاں بنا کر کامیابی حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے تابناک سیاسی مستقبل کے لیے کمیونٹی کی اصلاح اور ان کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی طور پر تقویت حاصل کرنے کے لیے حقیقت میں مسلمانوں کو خود کو بدلنا ہوگا۔ فی الحال تلنگانہ اسمبلی الیکشن کے نتائج آ گئے۔ ٹی آر ایس نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔ سیٹس کے لحاظ سے بھی اور جیت کے مارجن کے لحاظ سے بھی

منصفانہ سیاسی نظام کا قیام

جماعت اسلامی ہند منصفانہ سیاسی نظام کا قیام چاہتی ہے ۔وہ نظام جس سے تمام شہریوں کو ان کے صحیح حقوق مل جائیں ۔جو انسان کے مقام ومرتبہ اور آزادی رائے کا احترام کرنے کا ضامن اور انسانی جان اور مال و عزت کا رکھوالا ہو

جماعت اسلامی ہند کے نظام میں

ایک زندہ اتھارٹی موجود ہوتی ہے وہ اتھارٹی اپنے رفقاء سے مشوروں کے بعد احکامات جاری کرتی ہے

اور اس طرح نافذ کردہ فیصلوں کی اطاعت ہوتی ہے

اسلام میں سیاسی ارتقاء کا انحصار فیصلہ کن کارکردگیوں میں یکساں تعاون پر منحصر ہے یعنی نظام شوری۔ قرآن کی آیت کہتی ہے: وامرہم شوری بینہم۔

شوریٰ کے لفظی

شوریٰ کے لفظی  معنی بڑے دلچسپ  ہیں شہد کی مکھی کے چھتے سے شہد نکا لنا    ،  شہد کی مکھی کے چھتے سے جب شہد نکالا جاتا ہے تو اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ ہزاروں مکھیاں ہزاروں پھولوں پر جا کر ہزارہا قسم کے رس چوس لیتی ہیں، ایک پھول کی خوش بو ایک طرح کی ہے، دوسرے کی دوسری طرح کی ہے کسی ایک پھول میں ایک قسم کے طبی فوائد ہیں دوسرے پھولوں میں دوسرے قسم کے فوائد ہیں، کسی ایک پھول میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرح کی شفا رکھی ہے اور دوسرے میں دوسرے قسم کی شفا رکھی ہے۔ یہ ہزاروں مکھیاں یوں ہزاروں قسم کا رس چوستی ہیں اور پھر سب مل کر شہد بناتی ہیں یہ سب مل کر ایک ایسا اجتماعی رزق بن جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔

گویا اس لفظ کے استعمال سے جو پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب شوریٰ کا عمل اپناؤ تو اس طرح کی تدابیر اور طریقہ کار اختیار کرو کہ ہر فرد کے پاس جو حکمت وعقل اور دانائی ہے ایک ایک سے وہ دانائی حاصل کر لو پھر ان تمام انفرادی دانائیوں کو اس طرح سے ایک ملکی اور ملی شفا بنا دو کہ اس میں پوری امت کے لیے رہنمائی ہو۔(محاضرات فقہ ،ڈاکٹر محمود احمدغازی صفحہ ۳۸۰)

ہمارے مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسلمانوں کے معاملات ان کے باہمی مشورے ہی سے آخری شکل اختیار کریں گے  اس مقام پر پہنچ کر ازخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا امت کا ہر فرد اجتماعی معاملات میں براہ راست دخیل ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک  ناممکن العمل صورت ہےاس طرح نا کوئ معاملا طے پا سکتا ہےاور نہ  فلاح و ترقی  کی راہ میں کوئی قدم اٹھایا جاسکتا ہے اس لئے کے قومی و ملی مسائل میں ہر شخص رائے دینے کا اہل نہیں ہوتا ‏نیز زندگی کے بے شمار مسائل ہیں ہر فرد   کی رائے حاصل کرنا ممکن بھی نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی زندگی میں بعض ایسے مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جس میں ہر فرد قوم کی ‏‏‏‏‏ رائے لینی پڑتی ہے

گو کہ آج دنیا جمہوریت کی دعویدار بننے اور نت نئے وسائل و ذرائع کی مالک ہونے کے باوجود اس مقصد میں کما حقہ ہو کامیاب نہیں ہوئی ہے بنیادی اور قوم کی قسمت کے فیصلے کن معاملات میں بھی اگر کسی ملک کی دس فیصد آبادی حصہ لیتی ہے تو ا سے بہت بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے اس قسم کے معاملات میں اگر ہر شخص سے رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ اسلامی روح سے قریب تر ہو گئی لیکن عام معاملات میں شریعت نے ایک ایسی ممکن العمل اور خالص جمہوری سورۃ اُمت کے سامنے رکھ دی ہے جہاں تک ہزار سہی وہ جہد کے باوجود آج کی تمدن دنیا کی بھی رسا ئ نہیں ہوسکتی  ۔کتاب وسنت نے اپنے ماننے والوں کو ہدایت دی ہے کہ اس قسم کے تمام معاملات میں ارباب حل و عقد اور اُمت پر اثرورسوخ رکھنے والا اور معتمد طبقہ سر جوڑ کر بیٹھے اور فلاح امت کی راہ تجویز کرے اور ساری امت اس نمائندہ گروں کے احکام کے روبرو سر تسلیم خم کر دے اور عمل کے لیے کمربستہ ہو

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّـٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا (سورہ نساء آیت نمبر 59

اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں، پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لاؤ اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو، یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے۔

اس آیت میں تین قسم کی اطاعتیں ہیں اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں پر فرض کی گئی ہے خدا کی اطاعت اس کے رسول کی اطاعت اور صاحبان امر کی اطاعت ۔ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ فیصلہ کن قوت اس گروہ کے من مانے فیصلے نہیں ہوں گے ۔بلاقید اوربے چون و چرا اطاعت صرف خدا اور اس کے رسول کی ہوگئی ۔کتاب وسنت ہی وہ  آخری میا رہے جن کے روبرو ہر ایک کو جبین نیاز خم کر دینی پڑے گی

اولو الامر کون ہیں؟

اولو الامر سے کون سا طبقہ مراد ہے اس کی تشریح اسی صورت کے دوسرے مقام پر کر دی گئی ہے چنانچہ منافقین کے سلسلے میں ارشاد ہوا کہ ان کے فتنہ جوئی اور بد نیتی کا یہ حال ہے کہ ملک کے اندر امن وامان چین و سکون کی آمد آمد ہو کہ کسی خارجی خطرے اور خوف وہ بدامنی کا اندیشہ ۔یہ بدطینت اس خبر کو اس طرح نشر کرتے ہیں کہ عوام یا تو فرط مسرت سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور حالات کا صحیح اندازہ نہیں کر پاتے یا پریشانی وسراسمیگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان پر خوف و ہراس کے بادل منڈلا سکتے ہیں ۔حالانکہ ان کے لئے صحیح روش یہ تھی کہ وہ معاملات کو اللہ کے رسول اور اس طبقے کے حوالہ کر دیتے جنہیں مقدمات سے نتائج اخذ کرنے اور حالات کا صحیح جائزہ لینے کی صلاحیت حاصل ہے ۔

وَاِذَا جَآءَهُـمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۖ وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِى الْاَمْرِ مِنْـهُـمْ لَـعَلِمَهُ الَّـذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَهٝ مِنْـهُـمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْـمَتُهٝ لَاتَّـبَعْتُـمُ الشَّيْطَانَ اِلَّا قَلِيْلًا (سورہ نساء آیت نمبر 83

اور جب ان کے پاس امن یا ڈر کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں، اور اگر اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے تو وہ اس کی تحقیق کرتے جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو البتہ تم شیطان کے پیچھے چل پڑتے سوائے چند لوگوں کے۔

یہاں ا مرقابل لحاظ ہے کے غیرمعمولی اور نازک حالات میں بیک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اور الامر کی طرف مراجعت کا حکم دیا جا رہا ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ الامور انتظامیہ سے متعلق طبقہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنی دوربین نگاہ اور حقیقت آشنا فہم سے معاملات کی تہ تک پہنچ سکتا ہے جس کے اندر مسائل کے مالا ہو ہمالیہ سے واقف ہونے کی صلاحیت ہے اور جو امت کے لئے فلاح و بہبود کی راہ تجویز کر سکتا ہے

شیخ محمد عبدہ مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک عرصے تک اول لامر کی حقیقت پر غور کیا بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ الامر سے مراد مسلمانوں کے ارباب حل وہ عقد ہیں الامر کا دائرہ علماء۔ امراء ۔حکام۔ اکابرین نے قوم رہنماؤں پر وسیع ہے جن کی طرف امت اپنی ضروریات اور مصالح میں رجو کرتی یے۔ اگر امت کا یہ طبقہ کسی معاملے پر متفق ہوجائے تو امت پر اس کی اطاعت واجب ہوگی بشرطیکہ اولو لامر مسلمانوں ہی میں سے ہوں اور ان کا حکم کتاب وسنت کے خلاف نہ پڑتا ہو اور اپنی بحث اور فیصلے میں کسی دباؤ سے مجبور نہ ہوں ساتھ ہی ان کے اجتہاد کا دائرہ مصالحہ مومنین تک محدود ہوں(اسلام کا شورایؑ نظام ،سید جلال الدین  عمری  زندگی رام پور    1956)

اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت میں  کا شورایٰ کا طریقہ کیا ہے اس جماعت کی پوری تاریخ میں شاید دو چار دفعہ یہ نوبت آئی ہے کہ ووٹ لیکر اکثریت سے کوئی فیصلہ کیا گیا وہ ورنہ ہم آج تک ہمیشہ یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہمارا جو فیصلہ بھی ہو اتفاق رائے سے ہو ہم نے بعض اوقات کئی کئی روز تک اس لیے بحث جاری رکھی ہے کہ ہماری مجلس شوریٰ کا ایک آدمی مطمئن نہیں ہو رہا تھا بارہا ایسا ہوا کہ مجلس شوریٰ کے ارکان طویل بحث سے گھبرا اڑتے تھے اور مطالبہ کرتے تھے کہ اوٹ لے کر کثرت رائے سے فیصلہ کردیا جائے مگر میں نے ان کو سمجھایا کہ ہم جس کام کو لے کر چل رہے ہیں اس کے لیے پوری جماعت کا مطمئن ہو کر چلنا ضروری ہے اس لئے اگر مزید شوریٰ کے ایک آدمی کے دل میں بھی کوئی خٹک ہے تو اسے دور کرنے کی آخر وقت تک کوشش کیجئے اور ووٹ لے کر صرف اس وقت فیصلہ کیجیے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مجلس شوریٰ میں جو فیصلے بھی ہوتے رہے ہیں پوری جماعت پورے اطمینان کے ساتھ ان کو لے کر چلی ہے(تحریک اسلامی: ایک تاریخ ایک داستان 137)

ارشاد نبوی ؐ ہے: ’’جب تمہارے قائد وہ لوگ ہوں جو تم میں بہترین لوگ ہیں، تمہارے دولت مند لوگ فیاض ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے انجام پاتے ہوں تو اس وقت زمین کی سطح تمہارے لئے اس کے پیٹ سے بہتر ہوگی‘‘۔

ہماری یہ بدنصیبی ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاسی امور میں مذہبی جماعتیں الگ الگ فیصلے کرتے ہیں اس کی وجہ سے ہم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیا خوب ہوتا اگر ہماری تمام مذہبی جماعتیں اور دیگر طبقات کو ساتھ لے کر ایک ہی فیصلے پر اتفاق کرتے۔

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔کچھ مانگا آپ نے عطا کیا اس نے اس نے بے اطمینانی ظاہر کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اور دیا پھر وہ خوش ہو کر گیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے ایک اونٹنی ہو جو بیتک گی ہو اور تم ڈنڈے لے کر اس کے پیچھے لگ جاؤ جس سے وہ اور زیادہ خوف زدہ ہو جائے اور بیتک جائے ۔لیکن مالک محبت و شفقت اس کو قابو کر لیتا ہے ۔آج ہمارے مذہبی لیڈران کو اس قوم کے اوپر سواری کرنے کے لئے اس کی صحیح سمت میں رہنمائی اور تربیت کے لئے بصیرت محبت اور شفقت کی ضرورت ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔