دل پہ کیا کیا نہ ہو رہا ہے ظلم

افتخار راغبؔ

دل پہ کیا کیا نہ ہو رہا ہے ظلم

دل سے پوچھے کوئی کہ کیا ہے ظلم

میں کہ دریاے عشق ہوں مجھ میں

بے سبب بند باندھنا ہے ظلم

ایک ہی درد دل کو ہے مطلوب

ایک ہی درد کی دوا ہے ظلم

تیری جلوہ گری قیامت ہے

تیرا چھپ چھپ کے دیکھنا ہے ظلم

وہ سمجھتے ہیں ظلم اپنا حق

جیسے مظلوم پر روا ہے ظلم

دل سے پوچھو کبھی تو ہو معلوم

کیوں تمھیں دوست ماننا ہے ظلم

حق نہ ہوگا کبھی ادا اے دوست

تیری چاہت پہ تبصرہ ہے ظلم

دل میں بیٹھے ہوں وہ کہ دلّی میں

مشغلہ اہلِ ظلم کا ہے ظلم

کاش اتنا بھی وہ سمجھ لیتے

مرنے والے کو مارنا ہے ظلم

کون اتنا ہے مہرباں راغبؔ

کون بے وجہ توڑتا ہے ظلم

تبصرے بند ہیں۔