دل ہے مایوس، نظر جانب در ہے، میں ہوں
مقصود اعظم فاضلی
دل ہے مایوس، نظر جانب در ہے، میں ہوں
ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کا سفر ہے، میں ہوں
مضطرب دل ہے کبھی درد جگر ہے میں ہوں
تیری دزدیدہ نگاہوں کا اثر ہے میں ہوں
تیر ہے ، تیغ ہے ، خنجر ، تبر ہے ، تو ہے
عزم و ہمت ہے جواں ، دل ہے ،جگر ہے ، میں ہوں
رکھنا کردار کا آئینہ سلامت یارب!
سنگ برساتی زمانے کی نظر ہے میں ہوں
اب تو آ درد مسلسل کا مسیحا بن کر
دیدہء شوق سرِ راہ گزر ہے میں ہوں
ساری دنیا کے مسائل پہ نظر ہے میری
روز اخبار کوئی زیرِ نظر ہے میں ہوں
کوئی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھے
دور تک قافلہء فتح و ظفر ہے میں ہوں
سرخرو کیوں نہ رہوں صاحبِ عالم کی طرح
ملتفت تیری عنایت کا اثر ہے میں ہوں
وہ نہ آتے ہیں نہ آتی ہے قضا ہی اعظم
زندگی میری بہ اندازِ دگر ہے میں ہوں
تبصرے بند ہیں۔