دینی مدارس کے طلبہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کیوں کریں؟

حامد محمود راجا

 2003میں گریجوایشن اورد رس نظامی کی ایک ساتھ تکمیل کے بعد گائوںمیںدل نہ لگا تو لاہور میں عملی زندگی کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ سو اخبارات میں ’’ضرورت ہے ‘‘ کے عنوان کو بغور دیکھنے لگا۔ ایک دن غالباً روزنا مہ اسلام میں ضرورت ہے کاا شتہار دیکھا۔ ساندہ میں واقع ایک حفظ کے مدرسے کو قاری صاحب کی ضرورت تھی۔ میںنے اپنی سندیں اٹھائیں جو پہلے سے تیار رکھی ہوئی تھیں اور مقررہ وقت پر مدرسے پہنچ گیا۔ مدرسے کے مہتمم جو ایک کالج میں لیکچرار بھی تھے، نے مجھے دو تین جگہ سے زبانی قرآن پڑھنے کو کہاجو میرے جیسے ’’رمضانی حافظ ‘‘ کے لیے ممکن نہ تھا۔ مہتمم مدرسہ نے مجھے نااہل قراردیتے ہوئے مشورہ دیا کہ ابھی تمہاری عمر اتنی زیادہ نہیں کہ غم روزگار میں الجھ جائو، ایسا کروکہ پڑھائی آگے جاری رکھو اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کرلو،دراصل درس نظامی میں ہماری ایک آنکھ بنتی ہے اورایم فل اور پی ایچ ڈی میں دوسری آنکھ بھی بن جاتی ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے کا عزم تو میرا بھی تھا لیکن نوکری نہ کرنے کی عیاشی کا میں متحمل نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ تین فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی جگہ پرگرمی اور حبس کے موسم میں کچھ زیادہ دن سونا میرے بس میں نہ تھا اور کھانے کے لیے تودو روٹی کی بھی ضمانت موجود نہیں تھی۔

        دوسری آنکھ بننے کامطلب ہے کہ علم کے کچھ اسلوب اوررویے جو مدرسے میں درس نظامی کے دوران حاصل نہیں ہو سکتے وہ یونیورسٹی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے دوران مل جاتے ہیں۔ یہ اسلوب ا ور رویے مختلف ہوسکتے ہیں، دو کی مثال دینا چاہوں گا جن کا مجھے ذاتی طور پرادراک ہوا۔ مدرسے میںپڑھنے اور پڑھانے والے لوگ اس وقت بلاوجہ کے خوف کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔  میرے ایک  ساتھی طالب علم کو اخبار میں خبر لگوانے کا شوق چرایا۔ اس نے مجھے کوئی خبر لکھنے کے لیے کہا۔ میں نے خبر یہ لکھی کہ معاشرے میںبڑھتی ہوئی سماجی برائیوں کے سد باب کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ میں نے خبر لکھ کر آخر میں اس کا نام لکھ دیالیکن میں حیران ہوا کہ اس نے خبر میں سے اپنا نام کاٹ کر ’’عبداللہ ‘‘لکھ دیا۔ عبداللہ اس وجہ سے لکھا کہ اس میں جھوٹ بھی نہ تھا کہ ہرشخص عبداللہ (اللہ کابندا) ہے اور اپنا حقیقی نام وہ خوف کی وجہ سے لکھنا نہیں چاہتاتھا۔ ایک خباری کارکن جو ہمار ے مدرسے کی مسجد کی نمازی بھی تھے کے ذریعے خبر لگوائی اور وہ صاحب جب صبح فجر کی نماز پڑھنے آئے تواخبار بھی ساتھ میں لے آئے جو میں نے ساتھی طالب علم کے حوالے کردیا۔ حیرت کا دوسرا جھٹکا مجھے اس وقت لگا جب دوسرے نام سے چھپی ہوئی خبر بھی اُس نے کمرے کی کنڈی لگا کر پڑھی۔ یہ وہ بلا وجہ کا خوف ہے جو مدرسے کے طلبہ کے سرپرسوار ہے۔ اہل مدرسہ اپنے حقوق سے واقف ہیں اور نہ ہی وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ یہی خبر اگر ایک کونسلر نے لگوائی ہوتی تو وہ جب تک سو پچاس آدمیوں کو خبر پڑھوا نہ لیتا اُس کو روٹی ہضم نہ ہوتی۔ اس طرح کی بہت ساری مزید مثالیںبھی دی جاسکتی ہیں۔ یونیورسٹی میں آ کر یہ خوف نکل جاتا ہے۔ لاہور میں آنے کے سال ڈیڑھ بعد مجھے ایک مسجد میں خطابت کی ذمہ دار بھی سونپ دی گئی، ایم فل کرچکنے کے بعد جمعہ کے خطبہ میں یہ جھجھک اور خوف جاتا رہا۔

        مدرسے کے طلبہ ڈرے سہمے اور جھجھکے ہوئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ علماء نے کبھی حق گوئی کا فریضہ سرانجام نہیں دیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ حق گوئی کا وصف جتنا علماء کے حصے میں آیا کسی دوسرے طبقے کے حصے میں نہیں آیا۔ مگر یہ حق گوئی معاشرے میں کافی وقت گزارنے کے بعد پیدا ہوتی ہے، یعنی مدرسے کے اثرات کو ختم ہونے میں کم از کم دس سال کا عرصہ درکار ہوا کرتاہے۔ دوسری خرابی اس حق گوئی میں یہ ہوتی ہے کہ علماء کاانداز بہت ’’اسٹیٹ فاورڈ‘‘ ہوتاہے۔ اسٹیٹ فاورڈ کا اردو متبادل اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہا۔ موقع کی مناسبت سے  ترش اور کھردارا انداز اس کے متبادل ہوسکتے ہیں۔ علماء کی حق گوئی بعض اوقات اتنی ترش ہوتی ہے کہ معاشرہ اس کو سن بھی نہیں سکتا، عمل کرنا تودور کی بات ہے۔ یونیورسٹی صرف خوف کو دور ہی نہیں کرتی بلکہ اظہار کا سلیقہ بھی سکھلاتی ہے۔ پی ایچ ڈی میں جاکر یہ پتا چلتاہے کہ تلخ حقائق کو مناسب لفظوں میں کیسے پیش کرنا ہے۔ نیزمدرسہ اور کالج کے درمیان انگریزوں کے پیدا کیے گئے فاصلے بھی کم ہورہے ہیں جس کی وجہ سے اب دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

        یہ وہ چند فوائد ہیں جن کی وجہ سے مدارس کے طلبہ یونیورسٹیوں کا رخ کررہے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ غم روز گار کے ستائے ہوئے علماء نے دھڑا دھڑ یونیورسٹی کا رخ کیا، درست نہیں ہے۔ اس مفروضے کے پیچھے شایدیہ سوچ کارفرما ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی بڑی آسانی سے ہو جاتی ہے اور ہو جانے کے بعد بھاری تنخواہ والی ملازمت بھی آسانی سے مل جاتی ہے۔ ڈگری کے حصول کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں وہ غم روز گار کو کم نہیں بلکہ زیادہ کردیتے ہیں۔ سرکاری جامعات میںفیس پرائیویٹ سیکٹر کی نسبت کم ہے لیکن یہاں بھی ایک سمسٹر(چھ ماہ) کا خرچہ کم از کم 50ہزار روپے ہے۔ بنیادی ضروریات سے زائد 50ہزار روپے علماء کے لیے ایک معقول رقم ہے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تکمیل میں کم از کم 5سال لگتے ہیں۔ جس کامطلب ہے کہ اس دوران تین لاکھ سے زائد کے اخراجات ہوں گے۔ جس غم روزگار کو کم کرنے کے لیے ایم فل اور پی ڈی کی ڈگریاں لی جاتی ہیں یہ اسی غم روزگار میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ لہذا برادرم عرفان ندیم کا یہ کہنا کہ غم روزگار کے لے علماء نے یونیورسٹی کا رخ کیا،  قابل غور ہے۔

        مجھے ایم فل کے دوران ہرسمسٹر میں پندرہ روزہ ورکشاب کے لیے لاہور سے اسلام آباد جانا پڑتا۔ تب اسلام آبادمیرے لیے اجنبی تھا اور وہاں میری کسی سے شناسائی نہ تھی، ہوٹل اورہاسٹل میں رہنے کے پیسے نہ ہوتے۔ کبھی پیر مہر علی شاہ کے دربار اور کبھی تبلیغی مرکز میں رات گزارتااوراگر جیب میںکچھ پیسے ہوتے توعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پیر ودھائی اڈے تک پیدل چل کرجاتااور وہاں کسی سرائے میں 40روپے کے عوض رات گزارتا لیکن یہ رات گزارنا اپنی جگہ خود ایک امتحان سے کم نہ تھا۔مسافر خانے میں میلے کچیلے لوگ ہوتے جوساری رات کھانستے رہتے۔ کراہت آمیز کھانسی اور سماعت شکن خراٹوں سے بچنے کا حل میں نے یہ نکالا کہ کانوں میں روئی ٹھونس لیتا۔ بسترمیں سے بو آتی تو ناک پرر ومال رکھ لیتا۔ یہ رومال آنکھوں پر بھی ڈال لیا کرتا، تاکہ بلب کی روشنی تنگ نہ کرے۔ ان تما م حفاظتی اقدامات اور مورچہ بندی کے باوجود نیند نہ آتی کیونکہ کھٹمل سے بچائو کا کوئی حل میرے پاس نہ تھا۔صبح نماز کے وقت پیدل چلتے چلتے یونیورسٹی  پہنچ جاتا جہاں ہاسٹل میںمیرے ہم جماعت قیام پذیر تھے۔  وہ ناشہ وغیر کرکے پڑھنے بیٹھ جاتے اور میں ان کے خالی بستر پر سوجاتا۔ ایک دفعہ میں یونیورسٹی میں تھا کہ گھر پر بچی علیل ہوگئی جسے  گھر والے  ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس نے پوچھا آج خلا ف معمول بچی کے ابو دوا لینے نہیں آئے تو جواب یہ تھا کہ وہ اپنی پڑھائی کے سلسلے میں اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نے یہ کہہ کر تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کون سی پڑھائی ہے جوا ب تک جاری ہے۔ اس الف لیلہ کاخلاصہ ہمارے پی ایچ ڈی کے ایک پروفیسر ایک جملے میںکردیتے تھے کہ ’’مریض اور غریب شخص پی ایچ ڈی نہیں کرسکتا‘‘۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اس تفصیل کا مقصد علماء کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے باز رکھنا نہیں بلکہ ا س حقیقت کا اظہار مقصودہے کہ پی ایچڈی ابتداء میںغم روزگار کے اضافے کا ایک دوسرا عنوان ہے۔

تبصرے بند ہیں۔