رہ حیات پہ کب اپنی شرمسار چلے
مقصود عالم رفعتؔ
رہ حیات پہ کب اپنی شرمسار چلے
جہاں جہاں بھی چلے ہم صدافتخار چلے
۔
پھر آج کوچہِ جاناں سے سوگوار چلے
وہ بیقرار جو آئے تھے بیقرار چلے
۔
لکیریں ہاتھوں کی تدبیر سے بدل ڈالیں
یوں اپنے بگڑے مقدر کو ہم سنوار چلے
۔
چلو سکون سے مدفن میں اپنے سوئیں گے
کہ بوجھ زیست کا ہم سر سے آج اتار چلے
۔
مچل رہی ہے سماعت تڑپ رہا ہے دل
"کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے”
۔
یہاں سنبھل کے قدم رکھنا راہ عشق ہے یہ
کہ تخت وتاج لٹا کر یاں تاجدار چلے
۔
ہر ایک گل ہے فسردہ سا گلشن دل کا
اب آبھی جائیے کچھ موسم بہار چلے
۔
ہمارا مشق سخن میں بھی دل نہیں لگتا
چلے بھی آؤ کہ شعروں کا کاروبار چلے
۔
ہو چاہے رزم محبت کہ جنگ کا میداں
کہ ہم جہاں بھی چلے بن کے شہسوار چلے
۔
یوں ہی نہیں ہمیں حاصل ہوئی یہاں رفعت
کہ ہم برہنہ پا شعلوں پہ بار بار چلے
تبصرے بند ہیں۔