مولانا سلمان ندوی کونوبل پیس پرائز  دیا جانا چاہئے!

ممتاز میر

مولانا سلمان ندوی کونوبل پیس پرائز  دیا جانا چاہئے۔ جب بارک اوبامہ کو بغیر کچھ کئے صرف باتوں کی بنیاد پر نوبل پیس پرائز دیا جاسکتا ہے تو مولانا کے عزائم تو اس سے کہیں زیادہ بلند ہیں ۔ ہمارے نزدیک یہ صد فی صد ممکن ہے۔ بس مولانا کو ذرا طریقے سلیقے سے اپنی افادیت نوبل پرائز مقتدرہ کو سمجھانا ہوگی۔ مگر اس سے پہلے انھیں بھارت رتن بھی دیا جانا چاہئے۔ اگر حکومت اندھی نہیں ہے تو وہ مولانا کے  جذبات کو دیکھ اور سمجھ رہی ہوگی۔ مولانا کو اسی پر بس نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ شاہ فیصل ایوارڈکی خواہش پالنے میں بھی حرج نہیں۔ سلفیت کے خلاف ہونا ایک بات ہے اور حکومت سعودی عرب کے خلاف ہونا دوسری بات۔ پھر یہ کتنا حسین اتفاق ہے کہ سعودی عرب کا بادشاہ ان کا ہم نام ہے اور سعودی عربیہ کا ’’کراؤن پرنس‘‘ ان کا ہم کام۔ اس لئے شاہ فیصل ایوارڈ کی لابنگ کے لئے اپنے چمچوں کو متحرک کردینا چاہئے۔

   چند سالوں پہلے تک مولانا سید سلمان حسینی ندوی کو عوام میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ حالانکہ وہ کسی ادارے کے ڈین، کسی کے چیئرمن، کسی کے وائس چانسلر رہے ہیں ۔ مگر ان کی شخصیت اپنے خاندان کے اکابرین کے پیچھے پوشیدہ تھی۔ اور یہ ایسی کوئی غلط بات بھی نہیں کہ بچے اپنے بڑوں کے بجائے خود اپنے کارناموں سے پہچانا جانا پسند کریں ۔ مگر منفی کارنامے خود اپنے نام کے ساتھ اپنے خاندان کو بھی بٹہ لگا دیتے ہیں ۔ مولانا سید سلمان ندوی نے سب سے پہلے عوام کی توجہ اس وقت کھینچی جب عام روش سے ہٹ کر انھوں نے داعش کی حمایت کی۔

داعش کی حمایت میں وہ اکیلے نھیں تھے۔ بدقسمتی سے داعش کی حمایت میں ہمارے بھی کچھ احباب ان کے ہم خیال تھے۔ پہلے مولانا نے داعش کو عین اسلامی ثابت کیا۔ مگر بعد میں انھوں نے مطالعہ کیا اور داعش کوسلفی Outfit قرار دے کر مردود قرار دے دیا۔ مگر ہم داعش کو سلفیOutfit نہیں مانتے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ داعش بھی اسی طرح امریکہ کی کھڑی کی ہوئی ہے جس طرح طالبان امریکہ نے کھڑا کیا تھا۔ فرق اتنا ہے کہ جب تک ممکن ہوا طالبان نے امریکہ کو استعمال کیا۔ اور داعش کو امریکہ نے امت کے خلاف استعمال کیا۔ یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا۔ مگر اب جو مولانا سلمان نے بابری مسجد کے تعلق سے دھما چوکڑی مچائی ہے وہ بہت غلط ہے۔ پرسنل بورڈ کے اجلاس سے صرف ایک دن پہلے شری شری روی شنکر سے بنگلور میں ملاقات اور پورے بورڈ کے متفقہ موقف کے خلاف بابری مسجد کی منتقلی کا داعی بن جانا، بورڈ کے اتنے اور ایسے بڑے ذمے دار کو زیب نہیں دیتا۔

پھر اپنے موقف پر اڑ جانا۔ بورڈ کو مطعون کرنا،اپنے موقف سے کسی حال نہ ہٹنے کی ضد کرنا، ایک ایسے عالم دین کو جس کے شب وروزطلبا کرام کو درس دیتے گزر رہے ہوں ، بالکل شوبھا نہیں دیتا۔ وہ کیسے اختلاف کی حدودبچوں کو سمجھا سکتا ہے۔ یہ خانوادہء علی میاں ؒ اور ذمے داران ندوہ دونوں کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر مولانا محترم نے پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں بورڈ کے محترم اراکین کی باز پرس سے تنگ آکردوسرے دن انڈیا ٹی وی کو ایک انٹرویو بھی دے دیا جس میں انھوں نے خود کو ہندو مسلم اتحاد کا سب سے بڑا داعی قرار دیا (شاید محمد علی جناح سے بھی بڑا)چلو کوئی بات نہیں ۔ مگر پھر یہ کہنا کہ’’ مسلم پرسنل بورڈ اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔ وہ چند افراد کا ٹولہ ہیَ۔ اکثیریت اس کے ساتھ نہیں ۔ وہ اپنی عمر پوری کر چکا ہے۔ اس کی افادیت باقی نہیں رہ گئی ہیَ اس کا نام بھی انگریزوں کا دیا ہوا ہے(سوال یہ ہے کہ اب تک مولانا سلمان کیا کر رہے تھے۔ م م) اسے چند لوگوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ اس میں ڈکٹیٹر شپ چلتی ہے۔ اب ایک نیا بورڈ بنانے کی ضرورت ہے جس کا نام شریعت ایپلیکیشن بورڈ ہوگا۔ میرے ساتھ ملت کی اکثیریت ہے۔ ‘‘وغیرہ وغیرہ (افکار ملی مارچ ۲۰۱۸)

   ہمیں لگتا ہے کہ مولانا کی ساری تگ و دو Larger than Life قسم کی شہرت حاصل کرنے کے لئے ہے۔ اور اس کے لئے وہ بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا کی روش پر چل رہے ہیں ۔ ہم تارک الدنیا ہو جانے کو پسند نہیں کرتے مگر یہ سب پڑھنے کے بعد مولانا سید سلمان حسینی ندوی کوہمارا دردمندانہ مشورہ ہے کہ چند سالوں کے لئے ہی سہی وہ تارک الدنیا ہو جائیں ۔ بعد میں ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے مواقف پرنظر ثانی کریں ۔ اور جو مناسب لگے وہ عمل اختیار کریں ۔

   اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو کیا ہوگا؟پھر ان کے قدم امن کے نوبل پرائز کی طرف ہی اٹھیں گے۔ جس طرح انھوں نے میڈیا اور بورڈ کے اجلاس میں یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کی جان و مال زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بابری مسجد سے دستبردار ہو کر اس ملک میں ہندو مسلم اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے۔ ملک سے نفرت و بغض وعنادکو ختم کیا جا سکتا ہے۔ انھوں مزید یہ بھی کہا کہ کورٹ نے اب تک مسلمانوں کو مایوس ہی کیا ہے۔ پھر کورٹ کے مسلمانوں کے حق میں فیصلے سے دل جڑیں گے نہیں بلکہ ٹوٹیں گے۔ اس دلیل سے یہ بھی پتہ چلاکہ افضل گرو کہ معاملے میں جج محترم کی اجتماعی ضمیر والی دلیل بالکل درست تھی۔ اور اقلیتوں کو اسی وقت انصاف کا مطالبہ کرنا چاہئے جب اکثیریت کے جذ بات کو کسی قسم کا دھکا پہونچنے کا اندیشہ نہ ہو۔ حیرت ہے کہ یہ باتیں وہ محترم کر رہے ہیں جنھیں رسول  ﷺکے خاندان سے انتساب کا دعویٰ ہے۔

جیسی خوش فہمیاں مولا نا محترم کو لاحق ہیں ایسی خوش فہمیاں کم و بیش ہر بڑے آدمی کو لاحق ہوتی ہیں یا پھر وہ جس فریب میں خود مبتلا ہوتا ہے چاہتا ہے کہ ہر کوئی اس سوراخ سے ڈسا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حکومت کی نظروں میں نمبر بڑھانے کے لئے ایسا کرتا ہو۔ ہمیں جہاں تک یاد پڑتا ہے ایسی باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں کہ بابری مسجد ہمیں دے دو پھر ہم کسی مسجد کا نام نہ لیں گے۔ مگر کوئی دوسرا تیسرا گروپ کھڑا ہو کر کسی اور مسجد کے تعلق سے شر انگیزی نہ کرے گا یہ گارنٹی دینے کو کوئی تیار نہیں ۔ ہم مولانا کے ہم عمر ہیں اس لئے یقین ہے کہ یہ سب باتیں مولاناکو بھی معلوم ہونگی۔ پھر وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟

 وہ ایسا اس لئے کر رہے ہیں کہ ملکی مسائل کے بعد ان کی خدمات بین الاقوامی معاملات میں بھی حاصل کی جائیں ۔ امن کے نوبل انعام کے لالچ میں وہ کہہ سکتے ہیں کہ شام کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ شام بشارالاسد کے حوالے کر دیا جائے۔ آج صبح ہی ہم نے پڑھا ہے کہ گذشتہ سات سالوں میں شام میں ساڑھے تین لاکھ مسلمان مارے جا چکے ہیں ۔ مولانا یہ دعویٰ کر سکتے ہین کہ ان مسلمانوں کی موت کا غم ان کے سوا کسی کو نہیں ۔ پھر کس میں ہمت ہے مولانا کے ملت کے غم کے دعوے سے اختلاف کر سکے۔ اسی طرح گذشتہ۷۰ سالوں سے فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کا اکلوتا طریقہ یہ ہے کہ بیت المقدس کیا غزہ اور مغربی کنارے کی ’’چابیاں ‘‘ بھی اسرائیل کے حوالے کردی جائیں اور فلسطینیوں کو اسرائیلی غلامی میں دے دیا جائے ورنہ ملت فلسطینیوں کی موت کا تماشہ دیکھیں جو کم سے کم مولانا تو نہیں دیکھ سکتے۔ افغانستان میں تو ۴ دہایئوں سے خون خرابہ جاری ہے۔ مولانا کہ نزدیک اس خون خرابے کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ طالبان کے قبضے کے ۶۰ فی صد افغانستان کو بھی بلا شرط امریکہ کے حوالے کر دیا جائے۔ افغان غیور ہونگے۔ انکے نزدیک ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بڑی خوشکن ہوگی مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مولانا  سے یہ اموات دیکھی نہیں جاتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب جو شخص اتنے کارہائے نمایاں انجام دے امن کے نوبل پرائز پر اس کا حق تو بنتا ہے۔

 حضور ﷺ نے کہا تھا کہ وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو اپنے چھوٹوں کو سزا دیتی ہیں اور بڑوں سے در گزر کرتی ہیں ۔ ہماری تباہی کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔ مولانا سید سلمان حسینی ندوی کا صرف بورڈ سے اخراج کافی نہیں ،انھیں ندوہ سے بھی خارج کیا جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ انھیں ہر اس عہدے ہٹانا چاہئے جہاں انھیں عوام کی تخریب کا موقع حاصل ہو اور یہ کام پرسنل بورڈ کے حیدرآباد اجلاس کے اختتام سے شروع ہو جانا چاہئے تھامگر افسوس کے اب تک ہمیں ایسی کوئی خبر نہیں ملی۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ ہم ہندوستانی مسلمان بنیادی طور پر بت پرستوں کی اولاد ہیں ۔ یہ بھی بت پرستی کی ایک شکل ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔