فطرتاً وہ بدل گیا یارو
احمؔد صدیقی
فطرتاً وہ بدل گیا یارو
خواب آنکھوں کو چھل گیا یارو
۔
کیسی خوشبو یہاں سے اٹھی ہے
دل مرا بھی مچل گیا یارو
۔
صبح امید پر جیا جائے
سرخ سورج تو ڈھل گیا یارو
۔
پیش کرتے رہے گلابوں کو
اس لیے وہ بہل گیا یارو
۔
کچھ تو میری خطا رہی ہوگی
وقت آکے نکل گیا یارو
۔
جاتے جاتے حسین پیروں سے
وہ مرا دل کچل گیا یارو
۔
میں نے پہلے کہا تھا احمؔد سے
آخرش وہ پھسل گیا یارو
تبصرے بند ہیں۔