زخم جو کھل گئے ہیں سینا ہے

 جمالؔ کاکوی

زخم جو کھل گئے ہیں سیناہے

جینے والوں کے ساتھ جینا ہے

میں لٹا تا جو ہوں خزینہ ہے

دل کے اندر بڑا دفینہ ہے

پار تقدیر ہی سے لگتی ہے

زندگی یعنی اک سفینہ ہے

اس کی عظمت خدا رکھے قائم

رخِ مزدور پہ پسینہ ہے

علم کی روشنی ہے اپنی جگہ

دل ہے صالح تو عقل بینا ہے

ایک جگنو آنکھ کا موتی

نور سے معمور سینہ ہے

یہ سفر مستقل بلندی کا

کوئی منزل نہیں ہے زینہ ہے

بات گر کیجئے شرافت سے

جو مخاطب ہے اک کمینہ ہے

شعر اس کو جمالؔ کہتے ہیں

شاعری تیری بے قرینہ ہے

تبصرے بند ہیں۔